کم سنی کا کٹھن سفر

ڈاکٹر مجید خان
حالات حاضرہ کے ناقابل یقین پیج و خم سے ہر خاندان متاثر ہورہا ہے مگر گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی عادت بہت کم لوگوں میں ہے ۔ اس کے لئے تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہر شخص مرد اور عورت کو چاہئے کہ روزمرہ کے معمولات اور واقعات کا تذکرہ تو کریں ۔ آپ تعجب کریں گے کہ یہ عمل کتنا مشکل ہے اور کتنا آسان بنایا جاسکتا ہے ۔
بہت کم خاندان میں جہاں پر رات کے کھانے پر سب ملکر بیٹھیں اور صدر خاندان معمولی گفتگو کا رواج جاری رکھیں۔ باہمی گفتگو کی راہیں کھلی رہنی چاہئے ۔
12 سالہ ایک لڑکے کو پریشان حال ماں اور خالہ لیکر آتی ہیں ۔ چونکہ یہ کیس عام نوعیت کا نہیں نظر آرہا تھا اس لئے مددگار ڈاکٹر میرے پاس یہ کہکر لے آئے کہ یہ کیس کچھ عجیب سا ہے اور یہ لوگ آپ کے مضامین پابندی سے پڑھتے ہیں اس لئے آپ سے مشورہ چاہتے ہیں ۔

قصہ یوں تھا ۔ بہترین اسکول کا طالب علم ، تعلیم میں یکتا 470 نمبرات میں سے 430 حاصل کیا تھا ۔ اچھی صحت ، نہ صرف تعلیم میں دلچسپی بلکہ اپنی قابلیت پر فخر ، اپنی ذہانت اور تعلیمی معیار کی وجہ سے نہ صرف اپنے ساتھیوں میں بہت مقبول تھا بلکہ اساتذہ بھی اُس کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ اُن کو یقین اور اُمید تھی کہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہوکر اسکول کا نام روشن کرے گا ۔ آج کل ایک نئی اصطلاح متعارف ہوئی ہے Concept School دیکھنے کو تو یہ بڑا دل فریب نام ہے مگر امریکہ میں یہ تمام مدارس بغیر منافع کے چلائے جاتے ہیں ہندوستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ نام کے آگے انٹرنیشنل لگانا یا Conceptلگانا ایک اور چالاک اشتہار بازی اور میری نظروں میں دھوکہ اور فریب ہے ۔ مگر کئی لڑکے اعلیٰ نمبرات سے آخری امتحان میں کامیاب ہوں تو وہی سب سے بہترین سفارش ہے ۔ اس لڑکے سے اسکول انتظامیہ یہی اُمید رکھا ہوا تھا ۔

اچانک اس ہونہار لڑکے کا مزاج ایک دن میں بدل گیا ۔ ایک دن اسکول سے دیر سے واپس آیا اور کھویا کھویا نظر آرہا تھا ۔ پھر خاموش ہوتا گیا ۔ گھر والوں اور دوستوں سے کترانے لگا۔ چہرے پر سے شگفتگی اورمسکراہٹ غائب ہوگئی ۔ برائے نام اسکول جارہا تھا ۔ تعلیمی حالات بری طرح گرتی گئی ۔ اسکول والے بھی متفکر ہوگئے تھے اور معاملہ کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ غذا اُس کی کم ہوتی گئی اور صحت گرنے لگی ۔ ضرورت سے زیادہ وقت دھونے دُھلانے میں لگانے لگا جو آدھے گھنٹے سے لیکر ایک دو گھنٹوں تک بڑھتا گیا ۔ وضو کرتا ، مصلیٰ پر کھڑا ہوتا پھر بھاگتا اور پھر وضو کا لامتناہی سلسلے شروع ہوتا ۔ میرے لحاظ سے یہ بڑی سنگین نفسیاتی کیفیات ہیں۔ اگر وہ لوگ روزمرہ کے واقعات پر گفتگو کرنے کی عادت ڈال لئے ہوتے تو اُس دن جس دن وہ دیر سے آیا اور کھویا کھویا نظر آرہا تھا اُس کے تعلق سے کچھ معلومات ہوتی ۔ ماں نے شوہر سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ماہر امراض نفسیات سے مشورہ کیا جائے ۔ اُن کی ایک بہن اس پر اصرار کررہی تھی ۔ چنانچہ یہ مشورہ کیا گیا اور ڈھیر ساری دوائیوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔د واؤں کے اثرات سے لڑکا مسلسل نیند کی حالت میں رہنے لگا وار مسئلہ جوں کا توں رہ گیا ۔ ماں اور خالہ دونوں مجھ سے دوسرے مشورے کیلئے رجوع ہوئے ۔ شوہر نے اعتراض تو نہیں کیا مگر خود نہیں آیا ۔ والد کا نہ آنا میرے لئے ایک معنی خیز معاملہ ہے ۔ ممکن ہو اُن کو ایک اندرونی خوف ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب نشانہ ایک طرف کرتے ہیں اور تیر ایک طرف مارتے ہیں ۔ خیر وہ عمداً نہیں آئے جسے میں نے نوٹ کیا ۔ جو کام گھر والے نہیں کرتے ہیں وہ مجھے کرنا پڑتا ہے ؟
چنانچہ واقعہ در واقعہ میں نے تفصیلات پوچھی ۔ ہونہار لڑکا ایک پُتلے کی طرح خاموش بیٹھا رہا ۔ میں نے کھوج کھوج کر اُس دن کا پتہ چلایا جس دن وہ دیر سے آیا اور اُس کے مزاج میں تبدیلی تبھی سے دکھائی دی تھی ۔ یہ کھوج بھی آسان نہیں تھی ۔

میں نے پہلے تو روزمرہ کے معمول کی تفصیلات دریافت کئے ۔ سب کو یہ غیرضروری معلوم ہورہے تھے ۔ پتہ چلا کہ لڑکا دوستوں کے ساتھ آٹو میں جایا اور آیا کرتا تھا ۔ ایک بزرگ رشتہ دار جو اُس گھر میں زیادہ آیا جایا کرتے تھے ،ضرورت سے زیادہ کھلنڈرے تھے ۔ اُلٹا سیدھا مذاق ، بچوں کو تنگ کرنا اُن کی عادت تھی اور بچے اُن سے نہ معلوم کس وجہ سے دور رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ مگر رشتہ اتنا قریبی تھی کہ بڑے لوگ اُن کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور ہر گھر میں اُن کا گرمجوشی سے استقبال ہوا کرتا تھا ۔

اب یہاں سے معاملہ سنگین ہوتا جاتا ہے ۔ اُس دن نہ جانے کیوں وہ اس لڑکے کے اسکول چھوٹتے وقت پہنچ گئے ۔ لڑکے کو وہی حضرت دیر سے گھر واپس لائے اور جلدی سے باہر کے باہر چلے گئے ۔ والدہ کو یہ معاملہ کچھ عجیب سا معلوم پڑا ۔ خلاف معمولی وہ صاحب بغیر کسی کو صورت دکھائے ، عجلت کا بہانہ کرکے رفوچکر ہوگئے ۔ گوکہ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی واقعہ تھا مگر گھر والے اس کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ۔ کسی نے بھی اُس لڑکے سے تفصیلات نہیں پوچھی کہ آج وہ ان صاحب کے ساتھ کیسے آیا اور دیر سے آنے کی وجہ کیا تھی ؟ ۔ کیا آئسکریم وغیرہ کھانے تو نہیں گئے تھے ۔ خیر چونکہ بااعتماد رشتہ دار ہی تو لائے تھے اس لئے مزید تفصیلات معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ اگر لڑکا معمول کے مطابق تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتا اور اُس کے برتاؤ میں کوئی تبدیلی نہ آتی تو بات آئی گئی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا ۔

میرے کُریدنے کی عادت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ تینوں میرے مد و مقابل بیٹھے ہوئے ہیں ۔ واقعات کی تفصیلات معلوم کرنے پر سب کی آنکھیں کُھلیں کہ معاملہ کا راز اس دن کے چند گھنٹوں میں ہے ۔ جب لڑکے نے یہ محسوس کیا کہ گفتگو اور تفتیش اُس دن کی تفصیلات پر آگئی ہے تو وہ بے چین ہونے لگا اور ماں کو منت سماجت کرتے ہوئے اُن کو رکوانا پڑا ۔
میں او ر تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا تھا ۔ والدہ اور خالدہ کہنے لگیں کہ اگر آپ چاہیں تو اُن قریبی بزرگ رشتے دار صاحب کو ہم لیکر آتے ہیں ممکن ہو وہ بہتر روشنی ڈال سکیں گے ۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ مشتعل ہوگیا اور کئی لوگ ملکر اس کو قابو میں لائے اور خواب آور انجکشن دے کر اُس کو خاموش کیا گیا ۔

میں یہ دیکھ رہا تھا کہ مشتعل ہوکر اگر کریگا تو کیا کریگا۔ کچھ چیزیں پھوڑ دیگا اور طیش میں آکر باہر بھاگ جائیگا ۔ یہی میرا خوف تھا ۔ وہ اپنے آپ سے دور بھاگنا چاہتا تھا ۔ وہ اپنی شناخت کو بھی بھول جانا چاہتا تھا ۔ ممکن ہو اُس کو اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہوگی ۔ والدہ اور خالہ بھی حیرت زدہ ہوگئیں کہ اتنا مشتعل وہ کیوں ہوا۔ میں تو صرف سلسلے وار تفصیلات پوچھ رہا تھا ۔ خیر اُس کو قابو میں لانا پہلا کام تھا ۔ اگر وہ بھاگنے میں کامیاب ہوجاتا تو گھر واپس نہیں آتا تھا اور والد صاحب تو بات کو سمجھ نہیں پائیں گے اور معاملہ اور پیچیدہ ہوسکتا تھا ۔ میں نے مناسب یہی سمجھا کہ مزید تفصیلات نہ پوچھی جائیں ۔ بات یہیں پر ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ یہ اُس کی زندگی کا راز تھا جس کو وہ سینے میںمدفون ہی رکھنا چاہتا تھا ۔ اس کے بعد کے واقعات مثلاً صاف صفائی کا جنون سوار ہونا ، غلاظت محسوس کرنا اور ہمیشہ مایوس رہنا سب بچے کی مجبوری کا اظہار کررہے تھے ۔ وہ اپنے طورپر مسئلے کو حل کرنا چاہتا تھا ۔

خیر مجھے بھی اس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایسے واقعات بہت عام ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے اسطرح کے صدمات کی طرف نہ تو سرپرست توجہ دیتے ہیں نہ اساتذہ ۔ مجبور بچے اور بچیاں تو خاموشی سے اس ظلم کو برداشت کرتے رہتے ہیں مگر اُن کی شخصیت پر ضرور اثر پڑتا ہے ۔
میرا مقصد یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں سے ربط و ضبط قائم رکھیں ۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں وہ کئی باتیں والدین سے چھپاتے ہیں۔ ان کو کریدنے کی ضرورت نہیں ہے مگر روزانہ کے گذرے ہوئے واقعات کا ذکر ہوتا رہے تو غیرمعمولی واقعات مخفی نہیں رہیں گے۔ میرے مضامین کی تفصیلات کا ذکر ہو تو بچوں کی آگہی بڑھے گی ۔
صحیح آگہی اور معلومات ہی میں تحفظ ہے ۔ دوسروں کے واقعات سننے سے بچے چوکنّا ہوجاتے ہیں اور ایسے حالات کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔