کملابینی وال کی برطرفی سیاسی انتقام کی مثال ‘ کانگریس ‘ فیصلہ درست ‘ حکومت

نئی دہلی 7 اگسٹ ( سیاست ڈاٹ کام ) میزورم کی گورنر کملا بینی وال کو برطرف کئے جانے پر این ڈی اے حکومت کو آج اپوزیشن کی سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے جبکہ اپوزیشن نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا ہے لیکن حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بینی وال کے خلاف سنگین الزامات کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ حکومت کا یہ اصرار بھی تھا کہ اس کارروائی کے پس پردہ کوئی سیاسی محرکات نہیں ہیں۔ 87سالہ کملا بینی وال کو کل رات ہی ان کے عہدہ سے برطرف کردیا گیا تھا جبکہ گورنر میزورم کی حیثیت سے ان کی معیاد کی تکمیل کو صرف دو ماہ کا وقت باقی رہ گیا تھا ۔ گذشتہ مہینے پانڈیچیری گورنر کی حیثیت سے برطرف کردہ وریندر کٹاریہ نے ‘ جو کانگریس کے لیڈر بھی ہیں ‘ مرکزی حکومت کی اس کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے

اور کہا کہ یہ انتہائی غیر منصفانہ اقدام ہے اور دستوری عہدہ کی ہتک کے برابر ہے ۔ کانگریس جنرل سکریٹری اور صدر نشین مواصلاتی سیل اجئے ماکین نے اپنے ایک ٹوئیٹر پر کہا کہ اگر کملا بینی وال کو برطرف ہی کرنا تھا تو پھر چند دن قبل ہی ان کا میزورم گورنر کی حیثیت سے تبادلہ کیوں کیا گیا تھا ؟ ۔ این ڈی اے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے کہا کہ کملا بینی وال کی برطرفی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی صریح خلاف ورزی اور سیاسی انتقامی کارروائی ہے ۔ کانگریس نے میزورم کی گورنر کملا بینی وال کی معطلی کیلئے مرکز کی نریندر مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا، جنہیں صرف ایک ماہ قبل گجرات سے شمال مشرقی ریاست میں گورنر کے عہدہ پر فائز کیا گیاتھا۔دریں اثناء سابق وزیر و کانگریس قائد منیش تیواری نے کہا کہ یہ عمل نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہے( گورنروں کو ہٹایا جانا ) بلکہ ملک کے دستور کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے 2004ء کا وہ واقعہ یاد دلایا جب اسوقت کی یو پی اے حکومت کی جانب سے گورنرس کے تبادلہ پر بی جے پی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ تیواری نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو یہ وضاحت پیش کرنی پڑے گی کہ آخر کملا بینی وال کو عہدہ سے برطرف کیوں کیا گیا۔ گجرات کے کانگریس قائد ارجن موڈ واڈیا نے بھی کہا کہ بی جے پی کی اس حرکت سے یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ آئندہ آنے والے ایام کیسے ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کا اتنا بڑا واقعہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ لوک سبھا میں کانگریسی لیڈر ملکارجن کھرگے نے بینی وال کی برطرفی کو ایک غلط فیصلہ سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ محض انتقامی کارروائی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت یہ بات فراموش کرچکی ہے کہ گورنر کا عہدہ آئینی عہدہ ہوتا ہے۔ اس دوران مرکزی وزیر پارلیمانی امور مسٹر وینکیا نائیڈو نے کملا بینی وال کی علیحدگی میں کسی طرح کے سیاسی محرکات ہونے کی تردید کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میزورم گورنر کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دستور ہند کے دائرہ میں رہتے ہوئے قوانین کے مطابق کارروائی کی گئی ہے اور اس میں کسی طرح کی سیاست نہیں ہے ۔ نامہ نگاروں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کملا بینی وال کے خلاف کئی سنگین الزامات تھے اور حکومت نے ان کا نوٹ لیا ہے اور کارروائی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر جمہوریہ کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ انہیں کس تناظر میں کیا کرنا چاہئے تاہم ایسے فیصلے کرنا حکومت کا اختیار ہے ۔ انہوں نے کانگریس پر اس مسئلہ پر سیاست کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ پارٹی اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ مرکزی وزیر قانون مسٹر روی شنکر پرساد نے کہا کہ حکومت کا یہ فیصلہ دستوری اصولوں کی مطابقت میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دستوری اصولوں اور قواعد کے پیش نظر صدر جمہوریہ کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس مسئلہ پر حکومت کو مزید کچھ کہنا ہوگا تو وہ ایوان پارلیمنٹ میں بیان دے گی۔کانگریس نے تاہم اس فیصلے کو سیاسی انتقامی کارروائی کی ایک واضح ترین مثال قرار دیا ہے ۔