کمسن لڑکی سے شادی کی کوشش عمانی شہری گرفتار ، خاتون دلال فرار

حیدرآباد ۔ 3 اگسٹ ۔ ( سیاست نیوز) مسلمانوں کی غربت کا اندازہ لگانے کے لئے آج ایک ایسا دل دہلادینے والا واقعہ پیش آیا جہاں والدین نے اپنی 17 سالہ لڑکی کو شادی کے نام پر مبینہ طورپر فروخت کردیا ؟ ۔ یہ حیرت انگیز انکشاف کل رات پرانے شہر میں پولیس کی کارروائی کے بعد منظرعام پر آیا جہاں 17 سالہ نابالغ لڑکی کو ایک والدین کی رضامندی سے عرب شہری سے نکاح کروایا جارہا تھا ۔ تاہم عین وقت پولیس نے اس کوشش کو ناکام بنادیا ۔ پرانے شہر میں پولیس کی اس کارروائی نے ملی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ مسلمانوں کی بہبودی اور ترقی کے دعوے کرنے والوں کے لئے ایک سوال بن گیا ہے۔ سلطنت عمان کا ایک 37 سالہ شہری اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔ ایک دلال عورت نے اس خلیجی باشندہ کو نابالغ لڑکی سے نکاح کروانے کی مکمل تیاریاں کرلی تھی جو عین وقت فرار ہوگئی ۔ پولیس رین بازار اس خاتون دلال کو شدت سے تلاش کررہی ہے ۔ نابالغ لڑکی کی والدہ جو مطلقہ بتائی گئی ہے بطور گھریلو ملازمہ کا کام کرتے ہوئے تین بچوں کو پالتی تھی اور گھر کے اخراجات وہ خود برداشت کرتی تھی ۔ یہ نابالغ لڑکی جس کو پولیس نے آزاد کروالیا اس خاتون کی بڑی بیٹی تھی ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ایک دلال عورت اس لڑکی کی والدہ سے رجوع ہوئی اور بیٹی کے سنہرے مستقبل کے خواب دکھائے ۔ غربت لاچاری مجبوری اور حالات سے سمجھوتہ کرنا موجودہ حالات اور خود والدہ کی زندگی کی مثال دیکھ کر اس دلال عورت نے انھیں اپنی باتوں میں لے لیا اور عرب شیخ سے نکاح کیلئے راضی بھی کروالیا ۔ پولیس رین بازار کے مطابق اس خلیجی باشندہ نے لڑکی کے والدین کو 5 لاکھ روپئے کی پیشکش کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک روانہ ہونے کے بعد رقم ادا کرے گا ۔ اور لڑکی کے والدہ کو 15 ہزار دو ماہ کے لئے مکان کرایہ پر حاصل کرنے اس کے علاوہ 30 ہزار روپئے رسم کے اخراجات کیلئے فراہم کئے تھے ۔ عمانی شہری 37 سالہ البلوشی بدر یونس سعید کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ پرانے شہر میں پیش آئے اس واقعہ پر ایک مسلم دانشور کا کہنا ہے کہ مسلمان غربت اور پسماندگی کے سبب ایسے حالات پیش آرہے ہیں تاہم ایسے حالات میں مسلمانوں کی فلاح کی بات اور دعوے کرنے والے ہر اس فرد کو غور کرنا چاہئے کہ اپنے سماج میں اپنی ناک کے نیچے ایسی حقیقت پائی جاتی ہے اور تقاریر اور اجلاسوں کی حد تک اپنے بیانات کو محدود رکھتے ہوئے عملی میدان میں مسلمانوں کو کوششوں کا آغاز کردینا چاہئے ۔ شہر میں نکاح کو آسان بنانے کی احادیث پر مسلم دانشوروں نے عملی اقدامات کا آغاز کردیا ہے اور شادی میں ایک کھانا اور ایک میٹھے کی مہم بھی شروع ہوگئی ہے ۔ تاہم ایسے حالات میں ساری قوم کو اس مہم میں شامل ہونا چاہئے ۔ اگر شادی میں بیجا رسومات جس کاتصور تک مسلم معاشرہ میں نہیں ہے۔ نہ دین محمدیؐ اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ ایسے رسومات اور بیجا اخراجات نے مسلم معاشرہ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا جس کے نتیجہ میں آج ایے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں 17 سال تک پال پوس کر محنت کرنے کے بعد ایک ماں اپنی بیٹی کو ایسے شخص کے حوالے کرنے تیار ہے جس کو وہ جانتی تک نہیں ۔ اپنی زندگی میں برداشت کررہی مشکلات اور حالت سے اولاد کو بچانے اور راحت فراہم کرنے کیلئے مجبور والدین انتہائی اقدام اُٹھانے تک پیچھے نہیں ہٹتے اور ہماری تقاریب اور شادی بیاہ ، خاندان میں برتری قائم رکھنے خاندان ، پڑوسی اور سماج میں مسابقت بنائے رکھنے سیاسی ، مذہبی اور کاروباری آقاؤں کو خوش کرنے میں حقیقی مالک اور آقاکی ناراضگی حاصل کرنے تک پیچھے نہیں ہٹتے جو نہایت ہی افسوس اور شرمناک بات ہے اور ملت اسلامیہ کے سپرد جو ذمہ داری ہے اس سے روگردانی اور حالات سے فرار کے مترادف ہے ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے محلہ واری سطح پر اخلاقی مہم ضروری تصور کی جارہی ہے ۔