کمار پاشی (1935-1992)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
میرے اور کمار پاشی کے ایک مشترک دوست ہیں ، مہیش منظر۔ ہمیشہ پس منظر میں رہتے ہیںاور بہت کم پیش منظر میں آتے ہیں۔ چوں کہ کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں اسی لیے انھیں ادیبوں اور شاعروں کو ننگا کرنے میں مزہ آتا ہے۔ پرسوں انھوں نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ کمار پاشی کی نظموں کے مجموعہ کی رسم اجراء ہونے والی ہے۔ آپ کو کمار پاشی کا خاکہ پڑھنا ہوگا۔
میں نے معذرت کی کہ اب میں نے کتابوں کی رسم اجراء میں کسی بھی ادیب یا شاعر کا خاکہ پڑھنے سے توبہ کرلی ہے۔ کتابوں کی رسم اجراء کے جلسوں میں میری حیثیت اب وہی ہوگئی ہے جو شادیوں میں قاضی یا پنڈت کی ہوتی ہے۔ پنڈت جب تک نہ آئے شادی نہیں ہوتی، میں جب تک خاکہ نہ پڑھوں کتابوں کی رسم اجراء نہیں ہوتی۔ یہ کیا مذاق ہے۔ شاعر اور ادیب اب اپنی کتابیں کورٹ میں جاکر مجسٹریٹ کے سامنے کیوں ریلیز نہیں کرواتے۔ ابھی پچھلے مہینے حیدرآباد میں میرے ایک افسانہ نگار دوست کی کتاب ریلیز ہوئی تھی۔ میں حیدرآباد میں تھا۔ میرے افسانہ نگار دوست نے جب مجھ سے خاکہ پڑھنے کی خواہش کی تو میں نے سختی سے کہاکہ میں خاکہ ہرگز نہیں پڑھوں گا۔ میں نے سوچا تھا کہ میری جان چھوٹ گئی مگر جب دعوت نامہ چھپ کر آیا تو لکھا تھا کہ ’’جیلانی بانو کتاب کی رسم اجراء انجام دیں گی۔ پروفیسر سراج الدین صدارت کریں گے اور فلاں فلاں حضرات مضامین پڑھیں گے‘‘ اور آخر میں نہایت موٹے حروف میں لکھا تھا ’’اور مجتبیٰ حسین خاکہ نہیں پڑھیں گے‘‘۔ اس ذلّت کے بعد میں تو اس جلسہ میں نہیں گیا البتہ لوگوں سے سُنا کہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس جلسہ میں آگئے۔ یار مہیش! کمار پاشی سے کہو وہ بھی ایسا ہی کریں‘‘۔
مہیش منظر نے یہ سن کر ہنسنا شروع کردیا۔ اُن کی ہنسی سے ایسی ہی آواز آتی ہے جیسے کپڑے کے تھان کے مسلسل کُھلنے سے آتی ہے۔ ایسی پیشہ ور ہنسی میں نے بہت کم دیکھی اور سنی ہے۔ بولے ’’آپ بھلے ہی اُردو کتابوں کی رسم اجراء میں خاکے نہ پڑھیں۔ ہندی کتابوں کے وموچن میں تو پڑھیں‘‘۔ میں نے کہا ’’میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
مہیش نے کہا ’’آپ کو ایک بُری خبر یہ سنانی ہے کہ کمار پاشی نے اب ہندی میں شاعری شروع کردی ہے اور ان کی جو کتاب ریلیز ہونے والی ہے وہ ہندی میں ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’یار مہیشؔ! اگر یہ خبر سچی ہے تو بُری نہیں ہے بلکہ یہ تو خوش خبری ہے کہ کمار پاشی اُردو سے نکل کر ہندی میں جارہے ہیں۔ اس طرح اُردو کی جان تو چھوٹے گی۔ اُردو والے تیس برس سے کمار پاشی کو جھیل رہے تھے۔ اب ذرا ہندی والے بھی اُنہیں بھگتیں۔ تب پتہ چلے گا کہ اُردو سخت جان ہے یا ہندی‘‘۔
تو صاحبو! میں آج کے اس جلسہ میں کمار پاشی کو ڈولی میں بٹھاکر ہندی والوں کی طرف رُخصت کرنے کی غرض سے اس کا خاکہ پڑھ رہا ہوں۔میں جب تک کمار پاشی سے نہیں ملا تھا دماغ پاشی کے نقصانات، آب پاشی اور گلاب پاشی کے فائدوں سے تو اچھی طرح واقف تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ’’کمار پاشی‘‘ کیا ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے، کب ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے اور کہاں ہوتی ہے۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس پاشی کے فائدے ہوتے ہیں یا نقصانات۔ کھوج کی تو پتہ چلا کہ کمار پاشی اصل میں نام ہے اُردو کے ایک شاعر کا۔ سوچا کہ اگر یہ شاعر ہے تو اس پاشی کے نقصانات ہی نقصانات ہوں گے۔ لیکن یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ 1972 ء میں دہلی آنے کے بعد جس پہلی ادبی شخصیت سے میری ملاقات ہوئی وہ یہی حضرت کمار پاشی تھے۔

کمارؔ سے میری پہلی ملاقات اِروِن اسپتال میں ہوئی تھی۔ اُن دنوں وہ اِرون اسپتال کے ایڈمنسٹریٹیو شعبہ میں کسی ایسے عہدہ پر فائز تھے جہاں اُن کا سابقہ ڈاکٹروں سے پڑتا تھا، چنانچہ بھانت بھانت کے ڈاکٹر اُن کے آگے پیچھے منڈلایا کرتے تھے۔ مریضوں کی نبضیں ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں اور ڈاکٹروں کی نبضیں کمار پاشی کے ہاتھوں میں ہوتی تھیں۔ نتیجہ میں یہ ڈاکٹروں کے بڑے محبوب شاعر بن گئے تھے بلکہ ایک نوجوان ڈاکٹر میں نے ایسا بھی دیکھا تھا جو کمار پاشی کی شاعری کو دوا کے طور پر تجویز کرتا تھا۔ اس کے پاس کمار پاشی کا ایک مجموعۂ کلام تھا جس کی ہر غزل کے سامنے اس نے خوراکوں کے نشان بنا رکھے تھے۔ کمارؔ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کسی مرض میں مبتلا ہوں تو بلا تکلف بتادیجئے۔ جب اُنہیں اطلاع ملتی کہ کوئی دوست بیمار ہے تو وہ بہت خوش ہوتے اور خوشی خوشی اس کا علاج اِروِن اسپتال میں کرواتے تھے۔ نتیجہ میں اِرون اسپتال کم از کم اُردو ادیبوں اور شاعروں کا محبوب اسپتال بن گیا تھا۔ میں نے اِرون اسپتال میں کمار پاشی کے اس اثر و رسوخ سے ذاتی طور پر صرف ایک بار نقصان اُٹھایا تھا۔ ہوا یوں کہ اچانک میری ایک داڑھ میں درد شروع ہوگیا۔ کمارؔ کو اطلاع دی تو وہ اس اطلاع پر بے حد خوش ہوئے اور اپنے اثر و رسوخ کا مجھ پر رعب گانٹھنے کے لیے پورے چھ ڈاکٹروں کو اس اکیلی داڑھ کے علاج کے لیے مامور کردیا۔ ان چھ ڈاکٹروں نے طویل غور و خوض اور صلاح و مشورہ کے بعد میری وہ داڑھ نکال دی جس میں درد نہیں تھا۔ اس کے بعد میں نے طب اور ادب کو کبھی ایک دوسرے سے ملانے کی کوشش نہیں کی۔
کمارؔ کو میں شخصی طور پر سولہ برسوں سے جانتا ہوں۔ اس مدت میں کمارؔ سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود میں ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہوں کہ کمار پاشی اصل میں چیز کیا ہیں۔ شاید اُنھیں سمجھنے کے لیے مجھے ان سے اور کئی برس ملنا پڑے گا۔ میں نے اس عرصہ میں بس اتنا ہی اندازہ لگایا ہے کہ کمار پاشی دراصل ’’سنجیدگی‘‘ اور ’’آوارگی‘‘ کے درمیان لٹکنے والا پنڈولم ہے جو کبھی ’’سنجیدگی‘‘ کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور کبھی ’’آوارگی‘‘ کے دائرے میں۔ کمارؔ کے گھر جاتا ہوں تو گھر کے قرینہ اور رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ تو بے حد ’’سنجیدہ‘‘ آدمی ہے مگر جب کمارؔ اس ’’سنجیدگی‘‘ کے دائرے سے نکل کر اپنی ’’شاعرانہ آوارگی‘‘ کی حدوں میں داخل ہوتا ہے تو یہ پتہ چلانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ شخص کبھی سنجیدہ بھی رہ سکتا ہے۔ آدمی کی ’’سنجیدگی‘‘ اس کے گھر میں اور اس کی ’’آوارگی‘‘ سڑک پر ناپی جاسکتی ہے اور میں نے کمارؔ کو ’’گھر‘‘ اور ’’سڑک‘‘ دونوں جگہوں پر دیکھا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص گھر میں اتنا سنجیدہ رہتا ہے وہ سڑک پر اتنا غیر سنجیدہ کیوں ہوجاتا ہے۔ یہ سوال ایسا ہے جس پر اِروِن اسپتال کے ڈاکٹروں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ کمارؔ کے بارے میں یہ تجزیہ میرا نہیں بلکہ خود کمارؔ کا ہے۔ چنانچہ کمارؔ نے اپنی ایک کتاب اپنے ایک دوست کے نام معنون کرتے ہوئے لکھا ہے ’’پریم گوپال متل کے نام جو میری آوارگی کے تذکرے سن کر خوش ہوتا ہے‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمارؔ نے اپنی ’’سنجیدگی‘‘ اور ’’آوارگی‘‘ کی بنیاد پر اپنے دوستوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ چنانچہ اس کے کچھ دوست اس کی ’’آوارگی‘‘ کے دوست اور کچھ دوست اس کی ’’سنجیدگی‘‘ کے دوست ہیں۔ کمار نے ازراہِ نوازش مجھے ہمیشہ اپنی آوارگی کے دوستوں میں شامل رکھنے کی کوشش کی مگر میں ہمیشہ کنی کاٹ جاتا ہوں۔ غالباً مخمور سعیدی وہ واحد شخص ہیں جو بیک وقت کمارؔ کی سنجیدگی اور آوارگی دونوں کے دوست ہیں۔ ورنہ کمار ایک زمرے کے دوستوں کو دوسرے زمرے میں آنے نہیں دیتا۔ کمارؔ کی شاعری مجھے سنجیدگی اور آوارگی کے درمیان ایک سمجھوتہ نظر آتی ہے۔ یہی وہ غیر جانبدار علاقہ ہے جہاں پہنچ کر کمارؔ شعر کہتا ہے، افسانے اور ڈرامے لکھتا ہے۔ دراصل کمارؔ کا کردار اور اس کا فن گھر اور سڑک کے درمیان ایک سُرنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کمارؔ کی آوارگی کے قصّے میں نے بھی سُنے ہیں اور میں بھی خوش ہوا ہوں۔ کبھی پتہ چلا کہ رات کو کمارؔ نے فلاں نقاد کی ایسی تیسی کردی۔ فلاں شاعر کا گلا پکڑ لیا۔ فلاں کی کھنچائی کردی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگ اب کہاں ہیں جو اپنی ذات کو خطرہ میں ڈال کر دوسروں کے لیے تفریح طبع کا سامان فراہم کریں۔ اس معاملہ میں کمارؔ کا دم غنیمت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار وہ رات کے دو بجے اپنے گھر جانے کے ارادے سے نکلے اور سپریم کورٹ کی عمارت میں پہنچ گئے۔ دوسرے دن مجھے اُن کی گمراہی کی اطلاع ملی تو پوچھا ’’کیوں حضرت! یہ آپ آدھی رات کو سپریم کورٹ کی عمارت میں کیا کرنے گئے تھے؟‘‘

بولے ’’بھئی! انصاف مانگنے گیا تھا مگر چوکیدار نے انصاف لینے نہیں دیا‘‘۔ کمارؔ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ کوئی ایک کام کرکے مطمئن نہیں ہوتے۔ شاعری یہ کریں گے، افسانے یہ لکھیں گے، کتابوں کا ترجمہ یہ کریں گے، دوستوں کی کتابوں کے دیباچے یہ لکھیں گے، رسالہ یہ نکالیں گے۔ اور تو اور ادھر چند دنوں سے انھوں نے اپنے شاعر دوستوں کی کتابوں کے ٹائٹل بھی بنانے شروع کردیئے ہیں۔ کمارؔ نے اتنے سارے متبادل راستوں کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ادب سے اس قدر آسانی سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔ لوگ شاعری پر اعتراض کریں گے تو یہ افسانے لکھیں گے، افسانوں پر اعتراض ہوگا تو ڈرامے لکھیں گے، ڈراموں پر اعتراض ہوگا تو ترجمہ کریں گے۔ بھلے ہی کمبل اُنھیں چھوڑنا چاہے مگر یہ کمبل کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔
چنانچہ اس کمبل کو چھوڑنے کی کوشش میں یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ چند برس پہلے ایک دن ایک دوست نے اطلاع دی کہ کمار پاشی نے شراب چھوڑ دی ہے۔ میں بہت خوش ہوا کہ اب انھیں انصاف مانگنے کے لیے آدھی رات کو سپریم کورٹ میں جانا نہیں پڑے گا۔ انھیں اس فیصلہ پر مبارکباد دینے گیا تو بڑی سنجیدگی سے نظریں جھکاکر میری مبارکباد قبول کرتے رہے۔ چار پانچ مہینوں تک اُن کی پاک بازی کے قصّے دلّی کے ادبی حلقوں میں گشت کرتے رہے۔ جگہ جگہ کمارؔ پاشی کی مثال دی جانے لگی کہ دیکھو آدمی ہو تو ایسا ہو مگر ایک دن اچانک سرور کی حالت میں مل گئے تو میں نے کہا ’’یار تم نے پھر شروع کردی۔ اچھا خاصا فیصلہ کیا تھا‘‘۔
بولے ’’کیا کروں۔ جب سے شراب چھوڑی ہے، شرابی دوستوں نے ناتا توڑ لیا ہے۔ میرے جتنے اچھے دوست ہیں وہ سب کے سب بُرے ہیں۔ ان سے ناتا جوڑنے کے لئے پھر سے شروع کردی ہے۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب میں نے سگریٹ چھوڑ دی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’یار کمارؔ! شراب چھوڑنے اور سگریٹ چھوڑنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اصل مسئلہ شاعری کو چھوڑنے کا ہے۔ تم شاعری چھوڑ کر دیکھو سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
بولے ’’یہی تو سارا چکّر ہے۔ شاعری چھوڑ نہیں سکتا اسی لیے کبھی سگریٹ چھوڑتا ہوں اور کبھی شراب‘‘۔اصل میں جذباتی طور پر کمارؔ کے اندر ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے جسے سنبھالنے کے لیے وہ ایسی حرکتیں، ایسے سمجھوتے اور ایسے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔
کمارؔ کی ایک خوبی یہ ہے کہ سولہ برس پہلے میں نے اُنھیں جس حالت میں دیکھا تھا اسی حالت میں موجود ہیں۔ وقت، زمانہ اور عمر کا اثر اُن کے دل و دماغ پر تو ہوتا ہے مگر جسم پر نہیں ہوتا۔ خود نانا بن چکے ہیں لیکن اب بھی کسی کے نواسے لگتے ہیں۔ بعض دفعہ تو حرکتیں بھی نواسوں کی سی کرتی ہیں۔
سچ پوچھئے تو ’’اردھانگنی‘‘ کے نام اُن کی نظمیں پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ عمر کا اثر اب کمار پاشی پر بھی ہونے لگا ہے۔ مہیش منظر نے جب مجھے بتایا کہ کمار پاشی اب اپنی بیوی کے لیے نظمیں کہہ رہے ہیں تو میں نے کہا تھا ’’کمارؔ پاشی اس عمر میں بیوی کے لیے نظمیں نہیں کہیں گے تو اور کیا کریں گے۔ بھئی باون سال کے ہوچکے ہیں، اب بھی بیوی کے لیے نظمیں نہیں لکھیں گے تو کب لکھیں گے۔ بلّی تک نوسو چوہے کھانے کے بعد حج کو چلی جاتی ہے میں تو 45 سال کی عمر ہی سے بیوی کے لیے مضامین لکھنے لگ گیا تھا‘‘۔

مہیشؔ نے کہا ’’مگر اس میں بھی کمار صاحب کی چالاکی ہے۔ چونکہ اُن کی بیوی اُردو نہیں جانتیں اسی لیے بال بچوں والی، گھر آنگن والی، ڈرائنگ روم اور کچن والی شاعری کو ہندی میں چھپوارہے ہیں۔ اُردو میں تو اُن کی وہی پرانی شاعری چالو ہے جس میں بیوی اُن سے اجازت لیے بغیر داخل نہیں ہوسکتی۔ کسی دن بھابی کو پتہ چل جائے گا تو آفت آجائے گی‘‘۔
چاہے کچھ بھی ہو، مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کمار پاشی اپنی آوارگیوں اور بے اعتدالیوں کے لمبے سفر کے بعد پھر اپنے گھر آنگن میں واپس آئے ہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے بلکہ کمار پاشی کہتے ہیں۔ پطرس بخاری نے کہیں لکھا تھا کہ آدمی رات چاہے کہیں بھی گزارے اسے صبح کو اپنے بستر سے اُٹھنا چاہئے۔ کمار پاشی بھی ’’اَردھانگنی کے نام‘‘ والی نظموں کے ذریعہ صبح کو اپنی شاعری کے بستر سے اُٹھ رہے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی بھلے ہی اتنی نہ ہو جتنی کہ مسز کمار پاشی کو ہوسکتی ہے۔ مگر یہ خوشی اپنی جگہ ہے۔ جاں نثارؔ اختر کے بعد کمارؔ پاشی اُردو کے دوسرے ’’زن مُرید شاعر‘‘ ہیں۔ میری دعا ہے کہ اُردو میں زن مُرید شاعروں کی تعداد اور بھی بڑھے اور ہم اپنے گھروں کو اچھی طرح جان سکیں۔ ہم دُنیا بھر کے بارے میں تو بہت جانتے ہیں لیکن اپنے ہی گھر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یوں بھی بیوی سے عشق کی باتیں کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ تو اچھی بات ہے بشرطیکہ بیوی تنخواہ کا حساب نہ پوچھے۔ غرض کمار پاشی جس طرح چوری چھپے اپنے گھر میں واپس آئے ہیں اسی طرح ہم سب کو آنا نصیب ہو۔ میں کمار پاشی کو اور اُن سے زیادہ مسز کمار پاشی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہوں۔ … یوں لگ رہا ہے جیسے ہم سب کمار پاشی کو ڈولی میں بٹھاکر مسز کمار پاشی کے ساتھ رخصت کررہے ہیں۔ مسز کمار پاشی سے صرف اتنا کہنا ہے کہ کمار پاشی نازوں کا پلا ہے۔ اس کا دھیان رکھیں اور کبھی بابل کی یاد آئے تو اس کا دُکھ بانٹنا بلکہ کبھی کبھی سکھیوں کے پاس بھیج بھی دینا۔
چھوڑ بابل کا گھر تو ہے پی کے نگر آج جانا پڑا۔ (1988)