کل ہند جمعیۃ المشائخ کا کامیاب یادگار طرحی نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد

قاضی فاروقؔ عارفی
بتلائو انبیاء میں ایسا کوئی نبی ہے
مرضی سے جس کی سَمْتِ قبلہ بدل گئی ہے
حضرت صوفی اعظمؔ
کل ہند جمعیۃ المشائخ کی جانب سے عظیم الشان طرحی نعتیہ مشاعرہ بتاریخ ۱۴؍جنوری ۲۰۱۵ء کی شب خواجہ شوقؔ حال اردو مسکن ‘ خلوت میں انعقاد عمل میں آیا جس کی نگرانی صدر جمعیۃالمشائخ حضرت مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری صوفی اعظمؔ نے کی اس مشاعرہ میں بحیثیتِ مہمانانِ خصوصی مولانا سید شاہ قبول پادشاہ قادری شطاری ادیب صدر معتمد مجلس علمائے دکن‘ مولانا ڈاکٹر سید غوث محی الدین قادری الموسوی اعظم پادشاہ‘ جناب جلال عارف نے شرکت کی ان کے علاوہ دیگر مشائخ عظام مولانا سید شاہ اولیاء حسینی مرتضیٰ پاشاہ‘مولانا سید شاہ محمود پاشاہ قادری زرین کلاہ ‘ مولانا سید احمد نور اللہ حسینی‘ مولانا سید افتخار محی الدین ابوالعلائی‘ مولانا محمد احمد اللہ چشتی قادری‘ مولانا سید عبید اللہ آصف پاشاہ‘ مولانا سید شاہ مجتبیٰ شبیر قادری‘مولانا سید شاہ سلطان محی الدین مرتضیٰ پاشاہ قادری الموسوی‘ مولانا سید شاہ سمیع اللہ حسینی‘ مولانا صوفی شاہ محمد احمد اللہ اقبال چشتی قادری‘ مولانا قاری شاہ محمدعمر صوفی‘ مولانا شاہ محمد فیض اللہ عبدالباری معتمد جمعیۃ المشائخ‘ مولانا سید عبدالرئوف بغدادی‘ مولانا احمد اللہ چشتی قادری‘ مولانا سیداحمد پادشاہ قادری ملتانی‘ مولانا سید تراب شاہ چشتی بندہ نوازی‘ مولانا سید اشفاق الدین چشتی قادری نے شرکت کی۔ نعتیہ مشاعرہ کے لئے حسب ذیل طرح دی گئی تھی
’’سرکار آپ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے‘‘
اس طرح پر حیدرآباد دکن کے تقریباً چالیس سے زائد نعت گو شعراء کرام نے اپنا طرحی نعتیہ کلام پیش کیا۔۔ اس مشاعرہ کی خاص بات یہ رہی کہ کسی بھی شاعر کا ایک بھی مصرعہ کسی دوسرے شاعر کے مصرعہ سے نہیں ٹکرایا اور خواجہ شوق ہال 8.30 بجے تک عاشقان رسول سے بھر چکا تھا اور اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا۔ مشاعرہ کے آغاز جناب قاری انی احمد کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ ابتداء میں مولانا سید مصطفی سعید قادری معتمد مشاعرہ نے جمعیۃ المشائخ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد ناظم مشاعرہ جناب الحاج اکبر خاں اکبر نے باضابطہ مشاعرہ کی کاروائی کا آغاز آغاز کیا۔ قارئین سیاست کے لئے اس یادگار نعتیہ مشاعرہ میں جن شعراء کرام نے نذرانۂ عقیدت پیش کیا اُن کے کچھ منتخب کلام عقیدتًا پیش کرتا ہوں۔ جن کو سامعین نے داد، تحسین سے نوازاہے۔
صابر اچلپوری
اس بات کو بھی دنیا تسلیم کرچکی ہے
شاہی تو ہے خدا کی سکہ محمدی ہے
سہیل عظیم
طاعت میں مصطفی کی اللہ کی ہے طاعت
طاعت نبی کی بے شک دستور بندگی ہے
سید شاہنواز ہاشمی
اسوہ مرے نبی کا اپنا لیا ہے جب سے
ہر آفت و بلا بھی سر سے مرے ٹلی ہے
یوسفؔ روش
عشق نبی ہے طاری‘ اور دلمیں روشنی ہے
واللہ زندگی یہ ‘ اب زندگی ہوئی ہے
سیدعلی عادلؔ تشریف اللٰہی
دل میں بسا لیا ہے‘ عشقِ نبی کو ہم نے
عشق نبی سے اپنی‘ تقدیر بن گئی ہے
وسیمؔ الہامی
ساری عبادتوں کا محور خدا ہے لیکن
جس میں خدا ہے شامل ذکرِ محمدی ہے
محمد عبدالشکور
وہ فکر آخرت کی اُس کو کہاں ہوئی ہے
نسبت میرے نبی کی جس کو عطاء ہوئی ہے
محمد جمال الدین عارف نقشبندی
کشتیٔ زندگانی جب جب میری پھنسی ہے
نامِ نبی کے صدقے ساحل پہ جالگی ہے
قاری انیس احمد انیسؔ
ہے اتفاق سب کا اس بات پر ازل سے
فرمادیں جو بھی آقا وہ بات آخری ہے
عقیل احمد عقیلؔ
ساتو فلک بی دکھتیں ساتو طبق بی دکھتیں
طیبہ کی مٹھی لیکو انکھیاں پہ جب ملی ہے
انجم شافعی
محشر کا خوف کیوں ہو اس انجمِ حزیں کو
قسمت سے سرپہ اِس کے جب سایۂ نبی ہے
قابلؔ حیدرآبادی
معراج میںخصوصی مہماں ہے شاہِ لولاک
نگرانی میں خدا کی بزم عرش پر سجی ہے
حامد رضوی
حامد زمین پر ہیں سارے خدا کے بندے
ہے خاص بات اُس کی اُن کا جو اُمتی ہے
قاری مسعود احمدرضوی مسعودؔ
فرقت میں آپ کی اب دن رات میرے آقا
دل بھی تڑپ رہا ہے آنکھوں میں بھی نمی ہے
ڈاکٹرطیبؔ پاشاہ قادری
عشق نبی کی دولت جس کو خدا نے دی ہے
وہ شخص بھی بڑا ہے تقدیر بھی بڑی ہے
دولت سے آدمی کی قسمت نہیں سنورتی
آقا جسے نوازیں قسمت کا وہ دھنی ہے
بے فکر جی رہے ہیں طیب جو ہم غموں میں
سرکار کے کرم کا نام اپنی زندگی ہے
مولانا سید بوتراب قدیری
یہ زندگی بھی اس کی کیا خوب زندگی ہے
دل کی ڈگر پہ جس کے کلمہ کی روشنی ہے
خالق نے آپ کو جب ملک بناکے بھیجا
سرکار آپ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے
مدثر شطاری اسیر
اُمی کا لفظ سن کر کتنے بہک رہے ہیں
استاذ جبکہ اُن کا خود رَبُّکَ الَّذِیْ ہے
سید سمیع اللہ سمیع ؔ
عرش بریں پہ جاکر بھولے نہیں وہ ہم کو
سرکار کی زباں پر واں پر بھی اُمتی ہے
محمد خاں قادری ارشدؔ حبیبی
عصرِ علی قضاء بھی یوں ہی نہیں ہوئی ہے
سب سے بڑی عبادت آقا کی نوکری ہے
قرآن کیا ہے سارا ذکرِ محمدی ہے
ہم نعت لکھ رہے ہیں تفسیر ہورہی ہے
من نور سے نظامِ کونین چل رہا ہے
سرکار مستقل ہیں ہرچیز عارضی ہے
ڈاکٹر غوث احمدؔ حنبلی
اتنا بتائیں مجھ کو ارباب عقل و دانش
فطری غم وخوشی کو حاجت دلیل کی ہے
اخلاقؔ شرفی
پڑھنادرود اُن پر عادت صبح و شبی ہے
ذکر نبی سے ہر دم بگڑی میری بنی ہے
محمد بلال زبیرؔ صوفیانی
جس کے ولی نبی ہیں اُس کے ولی ہیں مولیٰ
فرمانِ مصطفی ہے راوی بھی ترمذی ہے
مشک و گلاب کی ہے کیا اس کے آگے خوشبو
سرکا کے بدن میں ایسی مہک بسی ہے
ناظم مشاعرہ اکبر خاں اکبرؔ جو صرف نعتیہ کلام کہتے ہیں
پیشِ نظر ہمارے جب سے درِ نبی ہے
الفاظ سارے چُپ ہیں خاموشی بولتی ہے
ذکرِ نبی کے معنٰی ظلمت میں روشنی ہے
آمد نبی کی کیا ہے باطل کی خود کشی ہے
دنیا کی یہ ترقی یوں لگ رہا ہے ہم کو
امی لقب کے آگے آموختہ پڑھ رہی ہے
حافظ شمس الدین زماںؔ
آقا کی عظمتوں کا ممکن نہیں احاطہ
ہر اک نے اتنا دیکھا جتنی نظر ملی ہے
ارض و سما میں ہر اک خلق خدا میں دیکھو
ہر سمت ہر جہاں میں نور محمدی ہے
قاضی فاروقؔ عارفی
ذکر نبی سے مجھ کو ایسی غذا ملی ہے
فاقہ میں ہوں میں لیکن چہرے پہ تازگی ہے
اُڑتے ہوئے پرندے محسوس کررہے ہیں
افلاک تک نبی کے روضہ کی روشنی ہے
بے شک طواف کعبہ اپنی جگہ ہے لیکن
تکمیل بندگی کو طیبہ کی حاضری ہے
خواجہ مصطفی علی صوفیؔ
آقا تو ٹھہرے آقا ‘ آقا کا پوچھنا کیا
فقراء کے پاس اُن کے کس چیز کی کمی ہے
سردار ؔسلیم
کب اُن کی دید ہوگی کب اپنی عید ہوگی
آنکھوں سے روز میری بینائی پوچھتی ہے
نکلا مری زباں سے صلِّ علیٰ کا نعرہ
اک موجِ نور آکر ہونٹوں کو چومتی ہے
کاملؔ حیدرآبادی
رتبہ حبیبِ رب کا لکھّیں تو کیسے لکھّیں
کاغذ‘ قلم ہے لیکن الفاظ کی کمی ہے
سینے میں جب سے شمعِ نعتِ نبی جلی ہے
ہم کو پتہ نہیں ہے کیا چیز تیرگی ہے
مولانا سید مصطفی سعیدقادری معتمد مشاعرہ
سرکارکی محبت کیادل میں بس گئی ہے
تسکینِ دل ہے حاصل خوشحال زندگی ہے
بے فکر جی رہا ہوں نازوں میں پل رہا ہوں
مجھ پر یہ سب عنایت سرکار آپ کی ہے
مولانا ڈاکٹر حافظ سید مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔ قادری ۔
یادِ نبی سے روشن پھر فکر و آگہی ہے
پھر ہاتھ میں قلم ہے پھر نعت ہورہی ہے
جب سے کسی زباں پر نعتِ نبی سجی ہے
عشَّاقِ مصطفی کے دل کی کلی کھلی ہے
مولانا سید محمود پادشاہ قادری
انوارِ کُنْتُ کَنْزًا ایسے ہوئے ہیں ظاہر
بے صورتی نبی کی صورت میں ڈھل گئی ہے
جب سے ملی ہے مجھ کو عشقِ نبی کی دولت
محفوظ میرے دل میں اک گوشۂ خوشی ہے
راضی نبی ہیں جس سے راضی خدا ہے
اُس سے اس زمرہ میں جو آیا اللہ کا ولی ہے
مہمانِ خصوسی جناب جلال عارف
یہ کائنات جن کے اظہار کو بنی ہے
صرف اُن کے دم قدم سے ساری یہ روشنی ہے
آقا نے کی امامت اقصیٰ میں انبیاء کی
نبیوں کے جو نبی ہیں وہ ذات آپ کی ہے
مہمان خصوصی مولانا سید قبول پادشاہ شطاری ادیب۔
جاں سے بھی بڑھ کے اپنی آقا کو چاہتے ہیں
اس واسطے ہمارے ایماں میں پختگی ہے
میری جبیں کو جب سے اُن کے قدم ملے ہیں
پُر کیف میرے سجدے پُر ذوق بندگی ہے
دل میں بسے ہوئے جو نقشِ قدم ہوئے ہیں
خوشبوئے مصطفی سے سانسوں میں تازگی ہے
آخر میں صدر مشاعرہ حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری صدر کل ہند جمعیۃ المشائخ نے اپنا کلام پیش کیاآپ کی پوری نعت مطلعوں پر مشتمل تھی جس کو عاشقانِ رسول نے دادِ تحسین سے نوازا اور مشاعرہ میں ایک نورانی کیفیت چھاگئی تھی جن کے منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
بتلائو انبیاء میں ایسا کوئی نبی ہے
مرضی سے جس کی سَمْتِ قبلہ بدل گئی ہے
حرص و ہوا کی عادت دل سے ہوا ہوئی ہے
طیبہ کی مجھ کو جب سے آب و ہوا ملی ہے
بے فکر و مطمئن اب میری جو زندگی ہے
آقا یہ سب نوازش کس کی آپ کی ہے
رات دیر گئے یہ عظیم الشان نعتیہ مشاعرہ معتمد مشاعرہ مولانا سید شاہ مصطفی علی صوفی سعید قادری شریک معتمد جمعیۃ المشائخ کے شکریہ پراختتام کو پہنچا ۔