کل ہند جمعیۃ المشائخ کا سالانہ طرحی نعتیہ مشاعرہ

قاضی فاروقؔ عارفی
خدا نے دیا کچھ نہ کچھ ہر نبی کو
محمد کو سب کچھ عطا کردیا ہے
(حضرت صوفی اعظمؔ )
۲؍جنوری ۲۰۱۶ء بروز شنبہ حضرت خواجہ شوقؔہال اردو مسکن میں کل ہند جمعیۃ المشائخ کی جانب سے دوسرا عظیم الشان طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس کی نگرانی صدر جمعیۃ مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری صوفی اعظمؔ نے کی اس مشاعرہ میں بحیثیتِ مہمانانِ خصوصی مولانا سید شاہ محمد رفیع الدین قادری شرفی  رفیعؔ‘ ڈاکٹر فاروق شکیلؔنے شرکت کی۔ اس نعتیہ مشاعرہ کے لئے طرح دی گئی تھی ’’حضور آپ کی ہر ادا معجزہ ہے‘‘ جس میں حیدرآباد کے تقریبًا  پینتیس سے زائد شعراء کرام نے اپنا طرحی نعتیہ کلام پیش فرمایا۔ مشاعرہ میں حیدرآباد دکن کے جن ممتاز شعراء کرام نے شرکت فرماکر نذرانۂ عقیدت پیش کیا اُن کے نعتیہ منتخب اشعار قارئین سیاست کے لئے پیش خدمت ہیں۔
( تشکیلؔ انور رزاقی)
میری لاج رکھنا بروز قیامت
کرم پر تمہارے بھروسہ بڑا ہے

( سہیل عظیمؔ ؔ)
درودوں کا جب سے مرا سلسلہ ہے
اُجالا میرے دل میں روشن ہوا ہے

(یوسفؔ روش)
مٹاکر روشؔ اپنے دل کااندھیرا
دُرودوں سے میں نے اُجالا کیا ہے

(افضل ؔ عارفی)
ہے ہاتھوں میں جسکے بھی دامن نبی کا
ُسی کے لئے رحمتِ کبریا ہے
(سید خلیل احمد شاکرؔ قادری)
بشر کے لبادہ میں نور آگیا ہے
قیقت میں حق کا نبی آئینہ ہے

( محمد جمال الدین عارفؔ نقشبندی)
شہیدانِ راہِ محبت ہے زندہ
کہ حبِّ نبی میں فنا ہی بقا ہے

(حامد فیض الدین صدیقی حامدؔ)
خدا بخش حامدؔ کو روز قیامت
محمد کا تیرے تجھے واسطہ ہے

(مدثر شطاری اسیرؔ)
نہیں اب بکینگے تیرے جام واعظ
کہ رندوں نے جامِ محبت پیا ہے

(قابلؔ حیدرآبادی)
شجر دوڑتا ہے حجر بولتا ہے
یہ اک معجزہ ہے وہ اک معجزہ ہے

(ڈاکٹر ناقدؔ رزاقی)
یہ کہتا ہے اسرٰی کا آئینہ خانہ
جمالِ محمد جمالِ خدا ہے
دوعالم کے اسرار اُس پر کُھلے ہیں
نگاہِ محمد میں جو آگیا ہے

(سید سمیع اللہ سمیع ؔ)
دعا کرکے کعبہ میں‘ آئو مدینہ
یہاں عاصیوں کو کرم ڈھونڈ تا ہے

(حامدؔ حسین شرفی)
وہ سلطان کون و مکاں کے ہیں پھر بھی
کم پر شہِ دیں کے پتھر بندھا ہے

(محمد بلال زبیرؔ صوفیانی)
اگرچہ کہ فرش آپ کا بوریا ہے
گر زیرِ پا سدرۃ المنتہیٰ ہے

(مظفر اویسؔ)
رُخِ سَروَرِ پاک جو ہے منور
دا ہی کے جلوے کا اِک آئینہ ہے

(فرید الدین صادقؔ)
میرے دل میں حبِّ نبی جو بسا ہے
جھے بندگی کا صلہ مل گیا ہے

(مولانا حافظ وجیہ اللہ سبحانی وجیہؔ)
نبی فہمی خلقت سے ہے غیر ممکن
قیقت میں حق ہی نبی آشنا ہے

(جنید حسینی جنیدؔ)
جنھیں خود بناکر خدا خود فدا ہے
بشر ہیں مگر یہ بشر سے جدا ہے
سرِ عرش اُمت لب مصطفی ہے
یال اُن کو امت کا تڑپا رہا ہے
جو پیرو ہیں حسّان کے اُن کی خاطر
الگ ایک جنت میں گوشہ سجا ہے

(فرید سحرؔ)
پریشانیاں مجھ سے گھبرا رہی ہیں
جھے آسرا جو نبی کا ملا ہے
بھروسہ ہے تم کو عبادت پہ اپنی
یرے دل میں نسبت کا روشن دیا ہے

(اکبر خاں اکبرؔ)
تصور میں سرکار کا نقشِ پا ہے
اندھیرا نہ جانے کہاں چھپ گیا ہے
مدینہ کی مٹی مزاج آشنا ہے
فا بخش طیبہ کی آب و ہوا ہے
زمیں پر میں نعت نبی پڑھ رہا ہوں
یرا تذکرہ عرش پر ہورہا ہے

(مولانا حافظ شمس الدین زماںؔ )
پسینہ محمد کا جس کو لگا ہے
وہ نسلوں کو خوشبو سے مہکا دیا ہے
نبی کی محبت ہے تکمیلِ ایماں
سے مل گئی اُس کا رتبہ بڑا ہے

(سردار ؔسلیم)
ہے اسرائی سنگم کی پہچان مشکل
ہ ہے عکس کون اور کون آئینہ ہے
ہے دریا میں قطرہ کہ قطرے میں دریا
جب قربتیں ہیں عجب رابطہ ہے
میں چھوٹا ہوں میری تمنا ہے چھوٹی
بڑے ہیں وہ اُن کا کرم بھی بڑا ہے

مولانا ابوتراب شاہ تراب قدیری کنوینر مشاعرہ
جسے خالقِ کُل نے مالک بنایا
وہی مالکِ کُل رسولِ خدا ہے
ہر اک فیض پاتا ہے جس کے کرم سے
وہ میرا نبی بحرِ جود و سخا ہے

شاہد ؔ عدیلی
خدا نے بہت زور دے کر کہا ہے
جو اُن کا ہوا ہے وہ میرا ہوا ہے
دل و جاں سے اُن پر جو عاشق ہوا ہے
ہاں بھی جزا ہے وہاں بھی جزا ہے

(کاملؔ حیدرآبادی)
کرن بن کے کاغذ چمکنے لگا ہے
لم نعتِ خیر الورٰی لکھ رہا ہے
ستارے نبی کے قدم چومتے ہیں
بی کا فلک پر سفر ہورہا ہے

(اسلم فرشوری)
اِدھر ایک ہم ہیں خطا پر خطا ہے
اُدھر ہیں شہِ دیں عطا پر عطا ہے
عمل کررہا ہے جو سُنت پہ اُن کی
مقدر کو اپنے وہ چمکا رہا ہے
کوئی اُن کا ثانی نہ سایہ ہے کوئی
وئی پیدا ہوگا نہ پیدا ہوا ہے

(قاضی فاروقؔ عارفی (ناظمِ مشاعرہ)
شعورِ نظر جس کسی کو ملا ہے
وہ جلووں میں سرکار کے کھوگیا ہے
اثر سبز گنبد کا یوں بھی ہوا ہے
چمن میری ہستی کااب تک ہرا ہے
مدینے میں گذرا ہوا ایک اک پل
ابھی تک بھی فاروقؔ تڑپا رہا ہے

مولاناڈاکٹرحافظ سیدشاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔ قادری
ذرا اُن کے قدموں میں آکر تو دیکھو
کہ جنت تلک دو قدم فاصلہ ہے
جہاں جبرئیل آپ کی انتہاء ہے
وہاں میرے سرکار کی ابتداء ہے
ہے ہرایک کے پاس اعمال نامے
میرے ہاتھ میں دامنِ مصطفی ہے

مولانا سیدشاہ مصطفی علی صوفی سعیدؔقادری (معتمد مشاعرہ )
میراآقا ایسا شہِ دُوسَرا ہے
نہیں جس کا ثانی کوئی دوسرا ہے
بلا ٹل گئی لیتے ہی اسمِ اقدس
حضور آپ کا نام ردِّ بلا ہے
میں دن رات نازوں میں جو پل رہا ہوں
میرے آقا صدقہ یہ سب آپ کا ہے

حضرت جلال عارفؔ
یہ شق القمر کا عجب معجزہ ہے
جو ہندوستاں میں بھی دیکھا گیا ہے
شہنشاہِ کونین کا گھر بھی کیا ہے
کھجوروں کی شاخوں پر ٹھہرا ہوا ہے
سِوا حبِّ آقا و نعتِ نبی کے
میرے حسنِ اعمال میں اور کیا ہے

ڈاکٹر فاروق شکیلؔ (مہمان، خصوصی)
مقامِ شہِ دیں خرد سے سوا ہے
خدا کی قسم بس خدا جانتا ہے
بظاہر نہیں ہیں رسولِ مکرم
چراغِ رسالت مگر جل رہا ہے
زمیں پر قدم دیکھ کر مصطفی کے
شکیلؔ آسماں غم زدہ ہو گیا ہے

مولانا سید رفیع الدین رفیعؔ شرفی (مہمانِ خصوصی)
مقابل میں جب آئینہ آئینہ ہے
تو کیسے کہیں کون کیا دیکھتا ہے
یہ اعلان ہے جو بھی ہے فخریہ ہے
ہمیں اُن کی امت کادرجہ ملا ہے
جہاں کعبۃ اللہ جہاں سبز گنبد
سکوں دل کو دنیا میں دو ہی جگہ ہے

آخر میں صدر مشاعرہ حضرت قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری نے اپنا کلام پیش فرمایا جس کے اشعار ذیل میں پیش ہیں  ؎
ہوا آپ کا نام جب تک نہ شامل
نہ پورا ہوا کلمۂ طیبہ ہے
خدا نے دیا کچھ نہ کچھ ہر نبی کو
محمد کو سب کچھ عطا کردیا ہے
شرف طور پر جو نہ پائے تھے موسیٰ
وہ حق نے نبی کو بلا کردیا ہے
ہَوا ہو گئے دل سے حرص و ہَوا سب
لگی جب سے طیبہ کی مجھکو ہَوا ہے