کلیدِ مغفرت

ڈاکٹر سید بشیر احمد
خالق عالم نے جہاں اس فانی دنیا میں اپنے بندوں کی دلچسپی کے واسطے کثیر سامان مہیا کئے ہیں عام آدمی ان وسعتوں میں گم رہتا ہے ۔ یہ رب العزت کا کرم ہے کہ اس نے ان برائیوں سے آلودہ ہونے کے باوجود اپنے بندوں کو توبہ کی ڈھال سے نوازا ہے ۔ کسی گناہ کے سرزد ہونے کے بعد آدمی کو جو ندامت ہوتی ہے اور اس کے بعد توفیق الہی سے وہ توبہ کرتا ہے اور توبہ پر قائم رہتا ہے تو خداوند کریم اپنی شان کبریائی سے اس کے گناہ دھو دیتے ہیں ۔ پیرانِ عظام نے اپنی تعلیمات کو موثر بنانے کے لئے حکایات کو وسیلہ بنایا ۔ ذیل میں ہم ایسی ہی ایک روایت پیش کررہے ہیں جس سے توبہ اور معافی کے بے شمار فوائد کا اندازہ ہوتا ہے ۔

بادشاہ محمود اور اس کے غلام ایاز کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں ۔ محمود اپنے غلام ایاز کو بے حد عزیز رکھتا تھا ۔ اسی سبب وزراء ،امراء اور بیشتر درباری بادشاہ محمود سے شاکی تھے ۔ ایک بار ان لوگوں نے بادشاہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ۔ بادشاہ نے کہا کہ دوسرے دن بھرے دربار میں اس بات کا جواب دے گا ۔ چنانچہ دوسرے دن بادشاہ نے ایک انتہائی کمیاب اور نایاب موتی اپنے وزراء کو اور پھر درباریوں کو یکے بعد دیگرے دیا اور حکم دیا کہ اس درنایاب کو پتھر سے کچل دیا جائے ۔ سب نے ہاتھ باندھ کر مودبانہ طور پر عرض کیا کہ ’’جہاں پناہ اتنا قیمتی درنایاب کو تلف کردینا مناسب نہیں ہے‘‘ ۔ اس جواب کے سننے کے بعد اس نے ایاز کو بلوایا اور درنایاب موتی کو پتھر سے توڑنے کا حکم دیا ۔ ایاز نے حکم کی تعمیل میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگائی اور موتی کو پتھر سے مار کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ بادشاہ نے انتہائی غیظ و غضب کے عالم میں ایاز سے کہا کہ ’’ارے کم بخت اتنا نادر الوجود نایاب موتی کو تو نے توڑ دیا‘‘ ۔ ایاز نے بصد ادب ہاتھ باندھے عرض کیا ’’مالک غلطی ہوگئی معاف فرمایئے‘‘ یہ ہے تعمیل حکم اور غلطی پر اظہار ندامت ۔ بادشاہ نے وزراء ، امراء اور درباریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ وہ ایاز کو عزیز رکھتا ہے‘‘ ۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ ہو ۔ خلیفہ دوم کے زمانے میں ایک شخض چنگ بہت عمدگی سے بجاتا تھا ۔ اس کی سریلی آواز اور مخصوص طور سے چنگ بجانے کی وجہ سے انسان تو کیا چرند و پرند بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔ ایک عرصہ گزرا ، وقت کے ساتھ ساتھ اس شخص کی آواز میں نہ وہ ساز رہا نہ سوز ۔ رفتہ رفتہ لوگ اس سے دور ہوتے چلے گئے ۔ تب اس کو خیال آیا کہ اگر وہ اپنی عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ اگر یوں رائیگاں نہ کرتا اور پورے انہماک کے ساتھ یاد الہی میں مصروف رہتا تو خالق کائنات کی مہربانیوں سے محروم نہ رہتا ۔ اس خیال کے آنے کے بعد اس نے قبرستان کا رخ کیا ، وہاں ایک ادھ کھلی قبر تھی ۔اس میں وہ بیٹھ گیا اور زار و قطار رو رو کر خداوند کریم سے معافی کا طلبگار ہوا ۔ ایک آوازِ غیبی خلیفہ وقت کو آئی ۔ اس شخص کی پناہ گاہ کی طرف فوری جائے اور اس شخص کی دلجوئی اور مدد کا حکم ہوا ۔ خلیفہ جب اس مقام پر پہنچے ، اس شخص اور باجے کودیکھا تو ان کو تردد ہوا ، ان کی چھینک کی آواز سے وہ شخص اٹھ بیٹھا ۔ دریافت کرنے پر اس نے اپنا سارا حال سنایا ۔ خلیفہ وقت سب کچھ جان کر بہت متاثر ہوئے اور اسے نوید بخشش سنائی اور اس کی مالی امداد بھی فرمائی ۔ وہ شخص اور بلک بلک کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا کہ صرف ایک وقت کی توبہ سے وہ اس قدر نوازا گیا ہے ۔ کاش وہ اپنی عمر عزیز اللہ تعالی کی یاد میں گزارتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔ اس واقعہ سے توبہ کی اہمیت اور اللہ کی رحمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ایک بزرگ کا واقعہ بھی ملاحظہ فرمایئے ۔ وہ ایک سنسان مقام پر واقع ایک چٹان پر چالیس برس مسلسل عبادت کرتے رہے ۔ اس کے بعد ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اب وہ جنت کے یقیناً مستحق ہوگئے ہوں گے ۔ اس خیال کے ساتھ ہی ان کو پیاس لگنے لگی ۔ وہ چشمہ کی طرف گئے دیکھا کہ چالیس برس سے رواں چشمہ خشک ہوگیا ہے ۔ وہ بڑے پریشان ہوئے ۔ پیاس بجھانے کے لئے جنگل میں پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر دوڑنے لگے ۔ جس کے سبب پیاس کی طلب میں اور اضافہ ہوتا گیا ۔

انہوں نے دیکھا کہ مخالف سمت سے ایک گھڑ سوار آرہا ہے جس کی بغل میں پانی کا مشکیزہ لٹک رہا تھا ۔ انہوں نے گھڑ سوار کو رکوایا اور پیاس کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے ایک گلاس پانی طلب کیا ۔ گھڑسوار نے جواب میں کہا کہ اسے یہ لق و دق جنگل کو طے کرنا ہے ، پانی اس کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ اس لئے اس نے معافی چاہی ۔ ان صاحب نے اس سے کہا کہ ’’چالیس برس انہوں نے اسی چٹان پر عبادت کی ہے ۔ دس سال کی عبادت کے عوض انہیں ایک گلاس پانی دیا جائے‘‘ ۔ گھڑسوار نے اس پیشکش پر انہیں ایک گلاس پانی دیا ، لیکن ایک گلاس سے پیاس نہیں بجھی ۔ اس طرح چار گلاسوں میں ان کی چالیس سالہ عبادت کا ثواب ان کے ہاتھ سے جاتا رہا ۔ ایک آواز غیبی آئی کہ تمہاری عبادت کا ثواب چار گلاس پانی میں ختم ہوگیا ۔ ابھی چٹان جس پر تم نے عبادت کی اور وہ چشمہ جس کا چالیس برس پانی پیا اور درختوں کے میوہ جات جن کو تم نے چالیس برس استعمال کیا ان کا حق باقی ہے ۔

بندے میں عاجزی ، انکسار اور مالک حقیقی کے انعامات کے احسانات کا خیال رہنا چاہئے ۔ اگر ہم سے کوئی نیک کام ہوجائے تو توفیق الٰہی کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اگر غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس پر آدمی کو شرمسار ہونا چاہئے اور آئندہ اس قسم کا فعل سرزد نہ کرنے کا وعدہ اپنے رب سے کرنا چاہئے اور اس پر حتی الامکان قائم رہنا چاہئے یہی کلید مغفرت ہے ۔