کلوز ٹیم کے ماہرین نے فنگر پرنٹس کے نمونے حاصل کئے

دوسری مرتبہ اویسی ہاسپٹل کا دورہ کیا ، سابق اسسٹنٹ کمشنر پولیس کی جرح
حیدرآباد ۔ /30 مارچ (سیاست نیوز) چندرائن گٹہ حملہ کیس کی سماعت کے دوران سابقہ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس سنتوش نگر شیخ اسمٰعیل پر مسلسل پانچویں دن بھی جرح جاری رہی ۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پہونچنے تک کلوز ٹیم کے فنگر پرنٹ ماہرین ان کا انتظار کررہے تھے اور میرے پہونچنے تک انہوں نے کوئی سراغ حاصل نہیں کیا تھا ۔ مسٹر اسمعیل نے بتایا کہ ان کی موجودگی میں ہی فنگر پرنٹس کے نمونے حاصل کئے گئے اور بعد ازاں مقام واردات کی تصاویر لی گئیں ۔ وہ نہیں بتاسکتے کہ ان فوٹوز کی تعداد کتنی ہے ۔ اس موقع پر لئے گئے فوٹوز وکیل دفاع نے عدالت میں پیش کئے جن کی تعداد 8 تھی ۔ اس ضمن میں مختلف سوالات کئے گئے اور گواہ نے اس پر اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ تصاویر مواد اکٹھا کرنے کے بعد مقام واردات پر لی گئی ہیں ۔ گواہ نے بتایا کہ پولیس وردی میں ملبوس دو افراد مقام واردات پر پائے گئے ۔ لیکن وہ ان کی شناخت نہیں کرسکتے ۔ زیرتذکرہ فوٹو میں سراغ رسانی دستہ کا کوئی بھی رکن موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت میں پیش کئے گئے شواہد میں ٹی وی چیانل کی گاڑی موجود ہے اور واقعہ کے مقام پر وہ دن 2.45 بجے سے 3.45 بجے تک موجود تھے اور کلوز ٹیم کا عملہ بھی موجود تھا اور مکمل ٹیم اویسی ہاسپٹل پہونچی ۔ انہوں نے مقام واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مقام واقعہ ایم آئی ایم دفتر سے مرحبا ہوٹل کے درمیان موجود ہے ۔ مسٹر اسمعیل نے مزید بتایا کہ کلوز ٹیم اور فوٹو گرافرس کی وہ نشاندہی نہیں کرسکتے ۔ وکیل دفاع کی جانب سے کئے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ /30 اپریل 2011 ء کو ڈپٹی کمشنر پولیس ساؤتھ زون مسٹر مدھو سدن ریڈی نے انہیں مزید تحقیقات کرنے کی ہدایت دی تھی اور انہیں انچارج بنانے سے قبل کوئی دوسرا تحقیقاتی عہدیدار موجود نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پنچ گواہ ، کلوز ٹیم ، فنگر پرنٹ ماہرین اور ایڈیشنل انسپکٹر سنتوش نگر یادیا کے ہمراہ دوسری مرتبہ اویسی ہاسپٹل پہونچے ۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پر جیپسی گاڑی کا پنچنامہ کیا گیا اور شام 6 بجے میڈیکل وارڈ پہونچے ۔ کیس سے متعلق 6 زخمی دواخانہ میں موجود تھے جن میں 5 افراد مردانہ وارڈ اور ایک اکبر الدین اویسی آپریشن تھیٹر میں تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ منصور عولقی ، محمود عولقی ، حبیب عثمان ، محمد فیاض خان ، محسن بن احمد الکثیری اور اکبر الدین اویسی زخمی حالت میں دواخانہ میں شریک کئے گئے تھے ۔ مسٹراسمعیل نے بتایا کہ زخمیوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرس سے وہ رابطہ قائم نہیں کرسکے ۔ کیونکہ وہ دستیاب نہیں تھے ۔ اس بات کو گواہ نے غلط قرار دیا کہ انہوں نے اویسی ہاسپٹل کا دورہ ہی نہیں کیا ۔ گواہ نے جرح کے دوران عدالت کو یہ واقف کروایا کہ دواخانہ کے چیف میڈیکل آفیسر نے انہیں اطلاع دی کہ اکبر الدین اویسی کا بنین اور شرٹ کاٹ دی گئی اور وہ سب گم ہوگئے ۔ انہوں نے بتایا کہ زخمی رکن اسمبلی کا سیاہ بیلٹ اور پتلون ضبط کیا گیا تھا ۔ وہ یہ نہیں بتاسکتے کہ ضبط کیا گیا پتلون جنس پینٹ یا عام پینٹ ہے ۔ عدالت کی کارروائی شام 6 بجے تک جاری رہی اور انچارج جج نے جرح کو کل تک کیلئے ملتوی کردیا اور محمد بن عمر یافعی اور ان کے دیگر افراد خاندان کو سخت سکیورٹی کے درمیان چرلہ پلی جیل منتقل کردیا گیا ۔