کفایت شعاری کی فضول خرچی

میرا کالم مجتبیٰ حسین
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کفایت شعاری کو ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم شعار بنا رکھا ہے۔ تبھی تو اتنی لمبی عمر گزارکر یہاں تک پہنچے ہیں، ورنہ کب کے خرچ ہوچکے ہوتے۔ عمر کی نقدی جتنی بھی ملی اور جب جب ملی، اس کے پل پل کو نہایت کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کرتے ہوئے اس منزل تک پہنچے ہیں۔ حد ہوگئی کہ ہم نے اپنی بھرپور جوانی بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ گزاری ہے۔ جوانی کے دنوں میں جن حسیناؤں کی اداؤں پر ہم مرمٹتے تھے، انھیں کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے کہ ہم اُن پر جی جان سے فدا ہیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ ہم بزدل واقع ہوئے تھے یا آتش نمرود میں کود پڑنے کا ہم میں حوصلہ نہیں تھا۔
بے شک، ہم اپنے زمانے کے نڈر اور جری نوجوان تھے بلکہ ہمارا شمار سورما بھوپالی قسم کے نوجوانوں میں ہوتا تھا۔ اگر ہم نے اپنے والہانہ دِلی جذبات سے اُن حسیناؤں کو واقف نہیں کرایا تو اسے ہماری بزدلی پر محمول نہ کیجئے بلکہ اسے ہماری روایتی کفایت شعارانہ خصلت کا کمال گردانئے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ قدرت نے یہ جو ہمیں عشق کی دولت سے مالا مال کیا ہے، اسے سنبھال کر رکھنا ہماری کفایت شعاری کا اوّلین فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ وہ دولت ہے جسے ہر کس و ناکس پر ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ اس زمانہ میں علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ ہمیں بار بار ورغلانے کی حتی المقدور کوشش بھی کی۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

ہم جب جوان تھے تو اُن دنوں مردم شماری کی اتنی اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی، جتنی کہ اختر شماری کی تھی۔ بیشتر نوجوان اپنے عشق کی آڑ میں چوری چھپے اختر شماری کی سنچریاں بناتے چلے جاتے تھے۔ بے شک، ہم نے بھی عشق کے زیر عنوان بشرطِ فرصت تارے ضرور گنے ہیں، لیکن ان کی تعداد کبھی چالیس پچاس سے آگے نہیں بڑھی۔ اس کی بھی دو وجہیں ہیں۔ اوّل تو یہ کہ ہم نیند کے بہت کچے ہیں اور دوم یہ کہ ہماری ریاضی اُس وقت بھی اتنی ہی کمزور تھی، جتنی کہ آج ہے۔ تاروں کو گنیں بھی تو کہاں تک گنیں۔ عشق کے ہاتھوں مجبور ہوکر ٹھنڈی آہیں بھی بھریں تو ان سرد آہوں کی تعداد کو چار پانچ آہوں سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا۔روایتی اور مسلمہ عشّاق کے بارے میں سنا ہے کہ بسا اوقات وارفتگی عشق میں اپنے گریبان بھی چاک کرلیتے ہیں۔ ماشاء اللہ، اس میدان میں ہم نے اس حوالے سے کبھی اپنا گریباں چاک نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا جذبہ عشق ناپختہ تھا بلکہ اصل قصہ یہ ہے کہ ہمارا جذبہ کفایت شعاری ہمارے جذبہ عشق سے کہیں زیادہ پختہ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ ہمارا دامن تھام لیتا تھا کہ میاں! گریباں چاک کرلوگے تو نئی قمیض کے لئے پیسے کہاں سے لاؤگے؟ بہرحال، ہم نے اپنی جوانی کچھ اس احتیاط سے گزاری کہ ہماری روایتی کفایت شعاری پر کبھی آنچ نہ آنے پائی۔ ہم نے عشق صادق پر صدق دِل سے عمل تو کیا، لیکن اس معاملہ میں کبھی کفایت شعاری کو کنجوسی یا بخالت کی حدوں میں داخل ہونے کا موقع عطا نہیں کیا۔ کفایت شعاری اور بخالت کے درمیان جو نازک سا فرق ہوتا ہے، اسے ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ علامہ اقبالؔ نے ہی کہا تھا۔
لازم ہے دِل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

ہمیں اس وقت اپنے ایک بزرگ دوست یاد آ گئے جو عشق کی پاکیزگی کے ایسے زبردست قائل تھے کہ زندگی بھر مجرد ہی رہے اور عشق کی دولت کو ہمیشہ سنبھال کر کچھ اس طرح رکھا کہ کبھی ان کے جذبۂ پاکیزگی عشق کے وضو کے ٹوٹنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ دوسری طرف ہمارے ایک شاعر دوست ہیں۔ نوجوانی میں بڑے وجیہہ و شکیل ہوا کرتے تھے۔ اپنی رومانی نظموں اور غزلوں کے باعث خواتین میں بہت مقبول تھے۔ چنانچہ ہمیشہ نازنینوں اور خوش جمالوں میں گھرے رہتے تھے۔ ادبی حلقوں میں ان کے معاشقوں کی بھی بڑی دھوم تھی۔ ایک طویل عرصہ بعد ان سے ملاقات ہوئی تو احساس ہوا کہ عشق کے بے جا اسراف اور شاہ خرچی کے باعث ان کا حلیہ کافی تبدیل ہو چکا ہے۔
دِل فسردہ تو ہوا دیکھ کر اس کو لیکن
عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے
چونکہ ہمارے پرانے دوست رہے ہیں، اس لئے ہم نے ضروری حال چال کے بعد ان کے معاشقوں اور رومانس وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو روہانسی صورت بناکر بولے ’’میاں! کیسا رومانس اور کہاں کا رومانس، اب تو یہ حال ہے کہ کبھی غلطی سے کسی غزل میں مجھ سے کوئی اچھا سا رومانی شعر سرزد ہوجاتا ہے تو چار دن بستر سے نہیں اُٹھ پاتا‘‘۔

معاف کیجئے، ہم نے یہ کالم خالص معاشی پس منظر میں کفایت شعاری کے فائدوں اور بے جا اسراف کے نقصانات کو اُجاگر کرنے کی غرض سے لکھنا شروع کیا تھا، لیکن غلطی سے ہم حُسن اور عشق کی کفایت شعاریوں اور فضول خرچیوں وغیرہ کی طرف نکل گئے۔ چاہے کچھ بھی ہو، زندگی کے ہر شعبہ میں کفایت شعاری کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے بلکہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں، وہ اپنی غربت اور کفایت شعاری کی وجہ سے ہیں۔ غربت اور کفایت شعاری کا تعلق بھی چولی اور دامن کا سا ہے۔ چونکہ غریب آدمی اپنی غربت کی وجہ سے مرغن غذائیں نہیں کھا سکتا، اس لئے کفایت شعاری کے اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے گھاس پوس اور سبزیاں کھاتا ہے اور مرغن غذاؤں سے بحالت مجبوری اور ازراہِ کفایت شعاری دُور رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت بہتر ہوجاتی ہے اور وہ دیر تک سماج کے سینہ پر مونگ دلنے اور لمبی عمر پانے کا اہل بن جاتا ہے۔
دوسری طرف متمول اصحاب دولت کی فراوانی کے باعث بے جا اسراف اور ظاہری نمود و نمائش کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کی مرغن غذائیں کھاکر خود اپنے عرصۂ حیات کو اپنے اُوپر تنگ کرلیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا دیوالیہ تک نکل جاتا ہے۔ اصلی کفایت شعاری کا ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ آدمی اپنی چادر کو دیکھ کر اپنے پاوؤں کو پھیلانے کی کوشش کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چادر چھوٹی ہو یا پاؤں چادر سے لمبے ہونے لگیں تو آدمی ازراہِ کفایت شعاری اپنے پاوؤں کو چادر کے مطابق بنانے کی غرض سے اپنے پاوؤں کو کاٹنا شروع کردے۔ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا محاورہ اسی لئے تو وجود میں آیا ہے۔ آدمی یا تو اپنے وسائل کی چادر کو بڑا بنائے یا پھر اپنے پاوؤں کو سمیٹ کر گزارا کرلے۔

کفایت شعاری اگر فیشن بن جائے تو وہ کفایت شعاری نہیں رہتی بلکہ بلائے جان بن جاتی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے حکومت نے کفایت شعاری پر عمل کرنے کے ایسے ہی فیشن ایبل طریقے اپنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بڑے بڑے رہنماؤں، حکمرانوں اور عہدیداروں سے کہا جارہا ہے کہ وہ ہوائی جہازوں کی بجائے ٹرینوں میں سفر کریں اور اگر بحالت مجبوری ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی نوبت آ جائے تو وہ ایگزیکٹیو کلاس میں نہ بیٹھیں بلکہ اِکانومی کلاس میں عام مسافر کی طرح بیٹھیں۔ وہ تو اچھا ہے کہ ہوائی جہازوں میں بسوں کی طرح ڈنڈوں سے لٹک کر سفر کرنے کی سہولت موجود نہیں ہوتی، ورنہ حکمران جوش کفایت شعاری میں ڈنڈوں سے بھی لٹک کر چلے جاتے۔ ان کے اس طرح سفر کرنے کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ جہاں ایک طرف کرایوں کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی، وہیں حکمرانوں کو عام آدمی سے تبادلۂ خیال کرنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے پرانے حکمران کسی سکیوریٹی کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے، کیونکہ ان کی عوامی مقبولیت ہی ان کی حفاظت کی ضامن ہوا کرتی تھی۔ آج کے حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ ایک حکمران کی حفاظت پر بیسیوں سکیوریٹی گارڈس متعین کئے جاتے ہیں۔ پرانے حکمران جب چلتے تھے تو ان کے ساتھ نہ صرف عوام چلتے تھے بلکہ ساری قوم بھی چلتی تھی۔ اب ہمارے رہنما کہیں جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے بیسیوں محافظ چلتے ہیں اور جگہ جگہ ان کی حفاظت کی خاطر سینکڑوں حفاظتی کارکن اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں میں سجائے دم بخود کھڑے رہتے ہیں۔ کیسی کفایت شعاری اور کہاں کی کفایت شعاری؟ ایسی کفایت شعاری جو فیشن کے طور پر اپنائی جائے، اس میں فضول خرچی اور بے جا اسراف کی زیادہ گنجائش نکل آتی ہے بلکہ اس عمل میں ہمیشہ مونچھیں داڑھی سے بڑی ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے تو ہم کفایت شعاری کی فضول خرچی کے قائل نہیں ہیں۔

رہی بات حکمرانوں کے ٹرین میں سفر کرنے اور اس بہانے عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے کی تو اس سلسلہ میں ہماری عرض یہ ہے کہ جب تک ایک حکمران خود عام آدمی نہیں بن جاتا، تب تک وہ ٹرین کے سفر کی مدد سے عام آدمی کے مسائل کو سمجھ نہیں سکتا۔ جو حکمران ٹرین میں سفر کرتے ہوئے بھی حکمران ہی برقرار رہے تو اسے عام آدمی اور اس کے خاص مسائل سے کیا تعلق؟ چالیس برس پہلے ہم نے ایک مضمون ’’ریل منتری مسافر بن گئے‘‘ لکھا تھا جس کی بنیاد یہ فینٹیسی (Fantasy) تھی کہ ایک دن ریل منتری کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ وہ بھیس بدل کر ایک عام مسافر کی طرح کسی ٹرین کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کریں تاکہ مسافروں کو پیش آنے والی مشکلات کا خود سے جائزہ لے سکیں۔ ہم نے یہ مضمون ممبئی کے ایک جلسہ میں اُس وقت کے ریل منتری کی موجودگی میں سنایا تھا اور ابھی دس بارہ برس پہلے وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کی موجودگی میں دہلی کے ریل بھون میں منعقدہ محفل میں بھی سنایا تھا۔

حد ہوگئی کہ ہم تو اپنے حکمرانوں کو بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ برتنے اور انھیں بچا بچاکر رکھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک بار اقتدار کی کرسی پر یا پارٹی کے کسی عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں تو وہاں سے یا تو خود حکمران نہیں ہٹتے یا ہم لوگ ہی انھیں ازراہِ کفایت شعاری وہاں سے ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے بعض حکمران ماں کے بطن سے ہی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر پیدا ہوئے تھے۔ کفایت شعاری بہت اچھی چیز ہے، بشرطیکہ اس پر سوجھ بوجھ کے ساتھ عمل کیا جائے۔ (ایک پرانی تحریر)