کشیدگی، ہند۔پاک تجارتی تعلقات کیلئے نقصاندہ

محمد علیم الدین

برصغیر ہند و پاک 1947 تک ایک مشترکہ مارکٹ ہوا کرتا تھا ۔ تقسیم ہند اور اس کے بعد پاکستان کے غیر ذمہ دارانہ رویہ نے اسے عملا یکا و تنہا کردیا ہے ۔ پاکستان خود اپنے ہی عوام پر بے طرح مشکلات کا پہاڑ توڑ رہا ہے جبکہ عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ بات وزیر اعظم ہند نواز شریف نے ٹھیک طرح سے نوٹ کی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے سرجیکل حملوں کے بعد پاکستان کو چاہئے کہ وہ  باہمی تعلقات پر اپنے موقف پر نظرثای کرے اور اس کو درست کرلے ۔ بے بھروسہ اور شور پکارے والا پاکستان تعلقات کو سہل بنانے میں رکاوٹ بن گیا ہے ۔ تاہم پاکستانی ماہرین تعلیم اور ماہرین معاشیات و مورخین میں یہ اتفاق رائے تقویت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت میں مزید اضافہ ہونا چاہئے ۔ ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان ‘ پڑوسی ملک کو دئے گئے انتہائی پسندیدہ ملک کا موقف ختم کرنے پر غور کر رہا ہے تجارت بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہندوستان نے 1996 میں پاکستان کو انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دیا تھا لیکن پاکستان نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان کو پسندیدہ قوم کا موقف ملے بغیر ہی پاکستان کو ہونے والی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ برآمدات جہاں 2003 – 04 میں 287 ملین ڈالرس کی تھیں وہ سال 2015 – 16 میں بڑھ کر 2.17 بلین تک پہونچ گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کو درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ 58 ملین ڈالرس سے بڑھ کر 441 ملین ڈالرس تک پہونچ گئی ہیں۔
گذشتہ 12 برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے مابین تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں بہتر رہا ہے ۔ انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنس کی جانب سے کئے گئے ایک مطالعہ کے بموجب آئندہ چند برسوںمیں ہندوستان کی تجارتی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا ۔ یہ صلاحیت جملہ 11 بلین ڈالرس تک پہونچ جائیگی ۔ ایکسپورٹس 7.9 بلین ڈالرس تک اور امپورٹس 3 بلین ڈالرس تک پہونچ سکتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی بیکن ہاوز نیشنل یونیورسٹی امریکہ کے ایک بڑے سروے کے بموجب یہ واضح کیا گیا ہے کہ 2012 میں ہندوستان کی پاکستان کو ایکسپورٹس آئندہ چند برسوںمیں مزید بڑھ جائیں گی اور یہ 6.3 بلین ڈالرس تک پہونچ جائیں گی ۔ پاکستان کی ہندوستان کو ایکسپورٹس درمیانی مدت تک بڑھ کر 1.3 بلین ہوجائیں گی ۔ اس سروے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر شاہد کاردار بھی شامل تھے ۔ شاہد کاردار کا کہنا ہے کہ ہمارا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان نے حساس فہرست میں شامل اشیا کی تعداد کو گھٹاتے ہوئے پاکستان سے آنے والی اشیا کیلئے تجارت کے راستے کھول دئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جو مراعات دی جا رہی ہیں وہ اتنی فراخدلانہ نہیں ہیں جتنی ظاہر کی جا رہی ہیں۔ کاردار کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دیتے ہوئے تجارت میں فراخدلی اختیار کرنا ‘ ساؤتھ ایشین فری ٹریڈ اگریمنٹ ( سافٹا ) کے تحت شرح میں کمی اور پاکستان میں مختلف اصلاحات کے ذریعہ پاکستان کی جملہ گھریلو پیداوار کو بھی درمیانی مدت کے دوران بڑھایا جاسکتا ہے اور یہ شرح 1.5 فیصد سے بڑھ کر چار فیصد تک پہونچ سکتی ہے ۔ ہندوستان نے دوسری جانب بنگلہ دیش کے ساتھ انتہائی حساس فہرست میں شامل اشیا کی تعداد میں کافی کمی کردی ہے اور اس نے سری لنکا کے ساتھ بھی آزادانہ تجارت کا معاہدہ کرلیا ہے ۔ پاکستان نے بھی افغانستان کو ایکسپورٹ کی جانے والی ہندوستانی اشیا کی اجازت دینے میں امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔ جہاں اسلام آباد کی جانب سے افغان ٹرکس کو اپنی اشیا ہندوستانی سرحدات تک منتقل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے وہیں ان ٹرکس کو دوبارہ ہندوستانی اشیا افغانستان کو لیجانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ افغانستان نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں افغانستان میں قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

غیر متناسب اور غیر مستحکم پاکستانی پالیسیوں کے نتیجہ میں علاقہ میں تعلقات میں بہتری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ پاکستانی ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ بات دونوں ملکوں کے باہمی مفاد میں ہے کہ وہ بلارکاوٹ اور دیرپا تعلقات کیلئے کوشش کریں۔ فیڈریشن آف پاکستانی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور علاقائی چیمبرس کا بھی یہ احساس ہے کہ ملک میں ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ موقف دئے جانے کے تعلق سے جو اندیشے ظاہر کئے جاتے ہیں وہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ احساس ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ابتداء میں کچھ مسائل کے بعد پاکستان کو ہی اس سے فائدہ ہوگا ۔ ٹیکسٹائیلس اور آٹوموبائیل صنعت جیسے شعبہ جات ‘ لیدر مینوفیکچررس ‘ گارمنٹ مینوفیکچررس ‘ فارماسیوٹیکل مینوفیکچررس کو رعایتی قیمتوں کی سہولت حاصل ہوسکتی ہے ۔ اگر ہندوستان ‘ پاکستان کو دئے گئے موقف کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے پاکستان کی صنعتیں بری طرح متاثر ہوسکتی ہے ۔ تجارتی ماہرین کی رائے میں سفارتی اعتبار سے یہ ایک اچھا قدم بھی ہوسکتا ہے تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر مزید یکا و تنہا کردیا جائے ۔ ایکسپورٹس سے متعلق ادارہ فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ہندوستان زیادہ تر پاکستانی صنعت کو ان پٹس فراہم کرتا ہے ۔ ان میں کمیکلز و کاٹن شامل ہیں۔ یہ پاکستان کی صنعت کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کی صنعت کو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اگر ان ایکسپورٹس کو روک دیا جائے ۔ ایسی صورت میں ان کی تیاری کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ہندوستان کو ‘ ایسا فیصلہ کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی درپیش نہیں ہے ۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے اعتبار سے بھی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے ہندوستان کو ایسا موقف نہیں دیا ہے ۔ تاہم پاکستان اس کا مسئلہ بناسکتا ہے ۔

پاکستان کے زرعی اور آٹو موٹیوز کے شعبہ نے عموما ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ موقف دئے جانے کی مخالفت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور اس شعبہ میں وہ ہندوستان کی کم قیمتی اشیا کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی صنعتیں مقابلہ میں آ ہی نہیں سکتیں اگر حکومتیں بھاری قیمتوں کے ذریعہ ان کا تحفظ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ پاکستانی امپورٹس 57 فیصد تک جاپان سے آنے والی خآم اشیا تک محیط ہیں ۔ اس کے اخراجات بھی بھاری ہوتے ہیں۔ قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے ذریعہ پاکستان کبھی بھی مسابقتی مارکٹ کا حصہ نہیں بن پائیگا اور صارفین کی بہتری کی قیمت پر صنعتوں کو فائدہ ملتا رہے گا ۔ تاہم پاکستان کا موجودہ موقف انتہائی پسندیدہ موقف ‘گھریلو سطح پر شرح سود یا باہمی تجارت سے پرے ہے ۔ کئی برسوں سے پاکستان نے غیر تجارتی امور پر تجارتی بات چیت کی وکالت کی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بات چیت میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں اور ایسے مسائل اس کا حصہ رہے جنہیں حل نہیں کیا جاسکا ہے ۔ پاکستان نے چونکہ ایک بار پھر کشمیر کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے ایسے میں ہندوستان پاکستان کے ساتھ کوئی پکا عہد کرنے یا معاشی تعاون کرنے سے گریز کرسکتا ہے ۔ حالانکہ معاشی اور سیاسی مسائل کو باہمی طور پر یکجا نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک مسئلہ کو دو سرے کی وجہ سے روکے رکھنے کے منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت سے ہندوستان کو جزوی فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے خاتمہ سے پاکستان کو زیادہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جو نقصانات ہندوستان کو ہونگے وہ علاقہ میں متبادل مارکٹوں سے پورے کئے جاسکتے ہیں۔

انتہائی پسندیدہ قوم کا مطلب کیا ہے
بین الاقوامی معاشی تعلقات اور بین الاقوامی سیاست میں انتہائی پسندیدہ قوم وہ موقف ہے جو ایک ملک بین الاقوامی تجارت میں دوسرے ملک کو دیتا ہے جس سے خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس اصطلاع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو ملک کسی دوسرے ملک سے یہ موقف حاصل کر رہا ہے وہ بھی کچھ حد تک مساوی تجارتی فوائد اس ملک سے حاصل کرسکے جو اسے یہ موقف دے رہا ہے ۔ ( اس صورت میں جو تجارتی فائدے ہیں ان میں کم قیمتیں یا بھاری امپورٹ کوٹہ بھی شامل ہے ) ۔ اس کے اثرات کے تحت کسی ملک کو اگر انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دیا جاتا ہے تو اس کے فوائد اور سہولتوں میں کوئی کمی نہیں کی جاسکتی جو دوسرے ممالک کو دی جاتی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے ممالک نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دینگے ۔ ترقی پذیر ممالک کیلئے ‘ علاقائی فری ٹریڈ علاقوں کیلئے اور کسٹمز یونین کیلئے ترجیحی سلوک اختیار کرنے کیلئے کچھ استثنی بھی دیا گیا ہے ۔ قومی سلوک کے اصول کے ساتھ انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف ڈبلیو ٹی او کے تجارتی قوانین کا اہم سنگ میل ہے ۔ انتہائی پسندیدہ قوم کے موقف کے تحت شراکت داری ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتی ہے اور اس میں جی اے ٹی ٹی اور ڈیلیو ٹی او کے اصولوں کو شامل کیا جاتا ہے جس سے غیر امتیازی سلوک یقینی ہوتا ہے ۔ باہمی اشتراک کے تعلقات ایک خاص رعایت ہے جو ایک فریق دوسرے فریق کو دیتا ہے ۔ پہلا فریق بھی دوسرے فریق کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ ہمہ رخی تعاون پر مبنی اشتراک اور تعلقات میں بھی یہی مراعات ایک گروپ کو دئے جاتے ہیں اور ایک خاص رعایت پر غور کیا جاتا ہے ۔ جی اے ٹی ٹی اور ڈبلیو ٹی اے کے غیر امتیازی حصے ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک اور غور کردہ رعایت پر لاگو ہوتے ہیں۔ انتہائی پسندیدہ موقف کا سب سے پہلے تعین 11 ویں صدی میں کیا گیا تھا ۔ تجارتی ماہرین کا ماننا ہے کہ انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دئے جانے سے کئی فوائد ہوتے ہیں۔ اس سے تجارتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں ‘ تجارت کے ضمنی پہلو کم ہوجاتے ہیں۔ اگر ایک ملک جو انتہائی پسندیدہ قوم کا موقف دیتا ہے تو اس سے امپورٹس کو سہل بنانے میں سہولت ہوسکتی ہے ۔ اس سے چھوٹے ممالک کو بھی یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں تجارت کریں جس میں اکثر بڑے اور ترقی یافتہ ممالک ہوتے ہیں۔