کشمیر ی پنڈتوں‘ مسلمانوں اور سکھون کا 29سال بعد ملن

سری نگر۔ مہاجر کشمیری پنڈتوں نے ان کی بازآبادکاری کے لئے علیحدہ بستوں کے قیام کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ علیحدہ بستیوں سے بہتر وہاں رہنا اچھا ہے جہاں وہ اس وقت رہتے ہیں۔

ان کا کہناہے کہ انہیں وہیں پر بسایاجائے جہاں وہ نوے کے دہائی میں ہجرت سے قبل اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ مہاجر کشمیری پنڈتوں نے ان احساسات کا اظہار سری نگر کے ٹیگور ہال میں منعقد ہونے والے دوروز پروگرام ’ سلام مرہ‘ میں کیا۔کشمیری پنڈت نوجوان امت وانچو جوکہ پیشے سے ایک آنٹر پرینر اور سماجی جہدکار نے’سلام مرہ‘ پروگرام میں شرکت کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں مقیم درجنو ں مہاجر کشمیری پنڈتوں کو مدعو کیاتھا۔

انہو ں نے اس میں شرکت کے لئے کشمیری مسلمانوں اورسکھوں کو بھی مدعو کیاتھا۔

کشمیر میں اپنی نوعیت کے اس پہلے پروگرام کا مقصد کشمیری پنڈتوں‘ مسلمانوں اور سکھوں کو ایک جگہ یکجا کرنا تھا۔ پروگرام کے آرگنائزر امت وانچو کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ ان کا خاندان نوے کی دہائی میں کشمیر سے منتقل نہیں ہوا تھا۔

سلام مرہ پروگرام میں جہاں مہاجر کشمیری پنڈتوں نے کشمیر سے متعلق اپنی پرانی یادیں تازہ کرکے واپسی کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا‘ وہیں کشمیری مسلمانوں اور سکھوں نے کشمیر ک وکشمیری پنڈتوں کے بغیر نامکمل قراردیا۔ پروگرام کے بعض پنڈت شرکاء ایسے تھے جو ہجرت کے بعد پہلی بار کشمیر ائے تھے۔

پروگرام کا آغاز نعت شریف سے ہوا جبکہ 14اور 15اپریل کو دونوں تک چلنے والے اس پروگرام کے دوران مہاجر کشمیری پنڈیوں اور مقامی مسلمانوں فنکاروں نے کشمیر کی ثقافت پر مبنی متعدد پروگرام پیش کئے۔

معروف صحافی راجیش رینہ جو جنوبی ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں رہائش اختیار کرچکے ہیں کا کہنا تھا کشمیری پنڈتوں کی واپسی ایک بڑا چیالنج ہے۔ تیس سال ہوگئے ہیں۔ واپسی راتوں رات نہیں ہوسکتی۔ میں پنڈتوں کے لئے علیحدہ کالونیوں کا حامی نہیں ہوں۔