غضفر علی خان
’’کفرٹونا خدا خدا کرکے‘‘ کے مصداق وزیراعظم نریندر مودی نے گذشتہ پیر کو کشمیر کے سرکردہ اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی اور ان کی پیش کردہ تجاویز پر نہایت مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس اپوزیشن پارٹیوں کے وفد نے 75 منٹ تک وزیراعظم سے گفتگو کی جو بے لاگ تھی۔ اس وفد کی قیادت جموں و کشمیر کے 46 سالہ سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے کی۔ اس میں سی پی ایم کے علاوہ کشمیر کی دیگر وہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی شرکت کی جن کا کچھ نہ کچھ سیاسی قد اور وزن کشمیر میں ہے۔ موجودہ چیف منسٹر محبوبہ مفتی کی بھرپور تائید بھی اس وفد اور بات چیت کو حاصل تھی۔ وفد کا یہ تاثر تھا کہ محض ترقی کی بات یا وعدے کشمیری عوام کے دل نہیں جیت سکتے۔ وزیراعظم نے اس خیال کی بھی تائید کی۔ مسئلہ کا سیاسی حل کشمیر کی اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کے تعاون کے بغیر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم کی یہ نئی کوشش کو اگر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے انتہاء پسند عناصر نے سبوتاج نہیں کیا تو یقینا یہ پوری طرح سے کامیاب نہ ہو تو بھی اس کے مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ شرط صرف اخلاص نیت کی ہے۔ 8 جولائی کو علحدہ پسند لیڈر برہان وانی کی سیکوریٹی فورسیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وادی کشمیر میں قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ 66 معصوم افراد اس ایجی ٹیشن میں ہلاک ہوگئے۔ کئی سیکوریٹی جوان مارے گئے۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا مرنے والے نوجوان کشمیری باشندے نہیں تھے۔ وہ سیکوریٹی فورسیس پر پتھر پھینک رہے تھے جواب میں ان پر گولیاں برسائی جارہی تھیں۔ کتنے گھر اجڑ گئے، کتنے ماں باپ کی دنیا لٹ گئی۔ مارنے والے بھی ہندوستانی تھے اور مرنے والے بھی اس ہندوستان کے لوگ تھے۔ کس قدر افسوس کی بات ہیکہ تقریباً دیڑھ ماہ سے جاری اس کشت و خون کا ذمہ دار آج تک پردہ میں ہے۔ اس بات میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ ہے۔ خود وزیراعظم نے مذکورہ وفد سے ملاقات کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ اپنے ہی لوگ اپنے ہی سپاہیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان کا یہ اعتراف بہت دیر سے ہوا لیکن اس وقت ہوا جبکہ ہندوستانی عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ کشمیر کے خون خرابے سے مودی نے ایک طرح کی بے تعلقی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ہر روز کی ہنگامہ آرائی اور کشت و خون کے باوجود ملک کے وزیراعظم نے کبھی لب کشائی نہ کی۔ اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہوگیا اور پاکستان کی مسلسل کارستانیوں کا سلسلہ طول پکڑ چکا ہے وزیراعظم نے ایک کوشش شروع کی ہے۔ ’’گذشتہ راسلوات آئندہ رام احتیاط‘‘ کے مطابق ایک طرف وزیراعظم اور دوسری طرف کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھتے ہوئے کشمیر میں دیرپا امن کی تلاش کرنی چاہئے۔ بات صرف کشمیر کی پارٹیوں کی نہیں ہے بلکہ تمام ملک کی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ دیرپا امن کی تلاش کی ان کوششوں کو کامیاب بنائے۔ کشمیر کا مسئلہ کسی مخصوص پارٹی کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ایک ایسا کینسر ہے جس کا علاج ہندوستانی صحت کے لئے ضروری ہے۔ وزیراعظم مودی یا بی جے پی کوئی لیڈر اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کا تعلق صرف ان ہی سے ہے تو یہ یکسر غلط اور قوم دشمن خیال ہے۔ ملک کبھی بھی ایک پارٹی کی ملکیت نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کے وفد سے وزیراعظم نے دل کھول کر بات کی وفد کی تجاویز کی غور سے سماعت کی جس کا اعتراف خود عمر عبداللہ نے بھی کیا۔ اسی طرح ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کے وفد سے بھی وزیراعظم مودی کو بات چیت کرنی چاہئے۔ جس طرح سے کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کے وفد نے انہیں ٹھوس تجاویز پیش کیں اسی طرح ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی تجاویز پیش کرنی چاہئے۔ اس ملاقات کا سب سے حوصلہ افزاء مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر کے موجودہ حالات پر غوروخوض چیف منسٹر محبوبہ مفتی یا کشمیر کی مخلوط حکومت کی فریق بی جے پی کی محدود فکر کا محتاج نہیں رہا۔ ملک کی ذمہ دار اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اسی طرح مثبت رویہ اختیار کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان اور دنیا کو یہ پیام پہنچ سکے کہ کشمیر نہ تو فی الواقع کوئی مسئلہ ہے جیسا کہ پاکستان دعویٰ کرتا ہے اور نہ اس پر ہندوستان کی سیاسی طاقتیں اپنے اندر کوئی اختلاف رکھتی ہیں۔ کشمیری اپوزیشن لیڈروں سے بات چیت اور ان کی تجاویز پر غوروخوض کی کوشش نے مسئلہ کو کشادگی دی ہے۔ اب یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہیکہ آخر سیاسی حملہ سے کیا مراد ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جن پارٹیوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی ان سب کا وجود کشمیری عوام کے درمیان ہے۔ یہ پارٹیاں کشمیری عوام کی تمناؤں اور ان کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اس مرتبہ الکشن جیت سکی تو یہ انہونی بات نہیں ہے۔ عمر عبداللہ کشمیری عوام کی خدمت انجام دینے والے اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے زائد از 60 سال عوام کی خدمت کی ہے۔ عمر عبداللہ اس خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دادا شیخ عبداللہ مرحوم کشمیر کے پہلے ممتاز لیڈر تھے پھر ان کے بعد شیخ عبداللہ کے صاحبزادے اور عمر عبدالہ کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ وہاں کے چیف منسٹر بنے یہ ایک ممتاز سیاسی خاندان ہے۔ رہا سوال محبوبہ مفتی کا تو یہ مفتی خاندان بھی کشمیر کی سیاست میں تعمیری رول ادا کرتا رہا ہے۔ محبوبہ مفتی اپنے والد مفتی سعید کی (سابق چیف منسٹر) کی وراثت سنبھال رہی ہیں۔ ان خاندانوں کو ہمیشہ ان مٹھی بھر پاکستان نواز علحدگی پسند حریت کانفرنس کی سخت مخالفت کا سامنا رہا جس حریت کانفرنس کو کشمیری عوام کی تائید حاصل نہیں۔ 27 پارٹیوں (بلکہ گروہوں) پر مشتمل حریت نے کشمیر کے سب سے اہم سیاسی عمل یعنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ آج تک حریت کا کوئی نمائندہ کشمیر اسمبلی میں قدم نہ رکھ سکا اور نہ کبھی پارلیمنٹ کا دروازہ ان پر کھلا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہیکہ حریت کانفرنس کشمیر میں غیرسنجیدہ اور پاکستان کے بھکاوے میں آ کر وادی کشمیر میں کبھی کبھی ہنگامہ آرائی کرتی ہے لیکن ہر بار اس کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اچھا ہوا یہ کشمیری اپوزیشن قائدین کے وفد میں حریت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا نہ کبھی ہونا چاہئے اس لئے کہ کشمیر میں بحالی امن اور وہاں دیرپا امن کے قیام کیلئے کشمیری عوام کی تعمیری فکر کا ہونا ضروری ہے۔ تخریب کاری تو بہت ہوچکی اور کئی بار ہوچکی اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس مرتبہ وزیراعظم کی پہل کا مفید نتیجہ یقینا برآمد ہوسکتا ہے۔