رام پنیانی
جموں و کشمیر میں معلق اسمبلی کی صورت میں آخر کار گورنر راج نافذ کردیا گیا کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے طور پر تشکیل حکومت کے موقف میں نہیں تھی۔ ڈسمبر 2014 ء میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں جہاں پی ڈی پی واحد بڑی پارٹی بن کر ابھری وہیں بی جے پی کو دوسرا مقام حاصل ہوا۔ دلچسپ بات یہ رہی ہے کہ بی جے پی کو بیشتر نشستیں اور ووٹ ریاست کے ہندو اکثریتی والے جموں علاقہ سے حاصل ہوئے۔بی جے پی جموں و کشمیر میں حکومت کی تشکیل کی خو اہاں ہے اور اس نے اس سلسلہ میں پی ڈی پی سے مذاکرات کا آغاز بھی کیا۔ تاہم بعض نکات پر دونوں پارٹیوں میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف نیشنل کانفرنس نے غیر مشروط طور پر پی ڈی پی کی تائید کا پیشکش کیا لیکن پی ڈی پی نیشنل کانفرنس کی تائید قبول کرنے تیار دکھائی نہیں دیتی۔
ان دنوں سماج کو مذہبی بنیادوں پر بانٹنے کے لئے بعض پارٹیاں کوشاں ہیں ۔ ہندوستانی دستور کے اقدار کے خلاف بیانات (گیتا کو قومی کتاب بنائے جانے ، جو رام کے بیٹے نہیں ہیں وہ حرام زادے ہیں ، گوڈسے محب وطن تھا) جارحانہ گھر واپسی مہم ، پی کے فلم کی اس بنیاد پر مخالفت کہ وہ ’’لو جہاد‘‘ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے وغیرہ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس ، ہندو راشٹرا کے قیام کے تئیں پابند عہد ہے اور ہندوستانی دستور کے اقدار اور مذہبی اقلیت اس کے نشانے پر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ تجزیہ لازمی ہوگیا ہے کہ اگر بی جے پی کشمیر کی حکومت کا حصہ بنتی ہے تو اس کے کشمیر اور کشمیریوں کے لئے کیا فائدے ہوں گے ؟ اس کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم کشمیر کے اتھل پتھل بھری تاریخ پر ایک نظر ڈالیں ۔ تقسیم کے وقت کشمیر کے مہاراجہ نے یہ فیصلہ لیا کہ وہ آزاد رہیں گے اور پنڈت پریم ناتھ ڈوگرا جیسے ’’پرجا پریشد‘‘ کے قائدین نے کشمیر کے ہندوستان میں انضمام کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ چونکہ کشمیر کے حکمراں ایک ہندو (راجہ ہری سنگھ) ہیں۔ اس لئے اسے سیکولر ہندوستان کا حصہ نہیں بننا چاہئے ۔ کشمیر پر پاکستان کے قبائلیوں نے حملہ کردیا اور ہندوستانی فوج کی مداخلت کے بعد کشمیر کے راجہ نے ہندوستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے اور ہندوستانی دستور کا آرٹیکل 370 وجود میں آیا ۔
آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو ایک خاص درجہ دیا گیا اور دفاع ، مواصلات ،مالیات اور خارجی امور کو چھوڑ کر دیگر سبھی معاملوں میں اسے آزادی دی گئی ۔ آر ایس ایس کشمیر کو آزادی دیئے جانے کا مخالف تھا ۔ ہندو مہا سبھا کے ایک لیڈر شیاما پرساد مکھرجی نے ہندوستان اور کشمیر کے درمیان دستخط شدہ معاہدے کی مخالفت کی اور یہ مانگ کی کہ کشمیر کا ہندوستان میں فوری طور پر انضمام عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ اسی دوران ہندوستان نے فرقہ پرستی کا گھناؤنا چہرہ دیکھا ۔ جب آر ایس ایس کے تربیت یافتہ پرچارک اور ہندو مہا سبھا کے متحرک اور فعال کارکن ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کا قتل کردیا ۔ اس درمیان آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا ، آرٹیکل 370 کے خلاف جارحانہ مہم چلاتے رہے ۔
اس سب سے کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اپنے ہدف سے بھٹک گئے اور انھوں نے عوامی طور پر یہ کہنا شروع کردیا کہ کشمیر نے ہندوستان کا حصہ بن کر شاید غلطی کی ہے ۔ اس فیصلے کی بنیاد ، ہندوستان کا سیکولر کردار تھا اور مہاتما گاندھی کا قتل اور آر ایس ایس کی جارحانہ مہم سے عبداللہ کو ایسا لگنے لگا کہ ہندوستان میں جمہوری قدروں کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ انھوں نے اس وقت یہ بات بار بار دہرائی تو انھیں قوم کے باغی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ اس سے کشمیریوں کے دل میں ہندوستان کے تئیں علحدگی پسندی کا خیال جنم لیا۔ آر ایس ایس اپنی مہم چلاتا رہا اور اس کے دباؤ کے باعث دھیرے دھیرے کشمیر کی خود مختاری کو کمزور کیا جانے لگا ۔ اس کی مثال تھی وزیراعظم کے عہدے کو وزیراعلی اور صدر ریاست کو گورنر کا نام دیا جانا ۔
کشمیریوں میں بڑھتی علحدگی پسندی کی ذہنیت کا پاکستان نے پورا فائدہ اٹھایا اور امریکہ کی مدد سے علاقہ میں شدت پسندی کو بڑھاوا اور حمایت دینا شروع کردیا ۔ سال 1980 ء کی دہائی میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے کشمیر میں دراندازی کرلی اور اس کے ساتھ ہی وہاں کے تشدد نے فرقہ وارانہ موڑ لے لیا ۔ مقبول بھٹ کو پھانسی دیئے جانے سے حالات اور خراب ہوگئے ۔ کشمیری پنڈت خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے اور ریاست کے ہندوتوا وادی گورنر جگموہن کی شہ پر بڑی تعداد میں وہ وادی چھوڑ کر جانے لگے ۔ اس مسئلے کا آر ایس ایس نے خوب استعمال کیا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ۔ سچ یہ ہے کہ کشمیریت ویدانت ، بودھ مذہب اور صوفی اسلامی ملی جلی تہذیب ہے ۔ شیخ عبداللہ نے ریاست میں بڑے پیمانے پر اراضی سدھار کئے تھے اور وہ کشمیر کے سماج کو جمہوری اور سیکولر بنانے کے تئیں پابند عہد تھے ۔
طویل عرصے تک چلے تشدد اور ہندوستانی فوج کی وادی میں موجودگی نے کشمیریوں کے زخموں کو اور گہرا کردیا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب آر ایس ایس یہ مانگ کرتا تھا کہ جموں کو ایک علحدہ ریاست بنادیا جائے ۔ لداخ مرکزی زیرانتظام ریاست بنادی جائے اور وادی میں سے ایک حصے کو الگ کرکے اسے مرکزی زیر انتظام ریاست کا درجہ دے کر کشمیری پنڈتوں کے لئے مخصوص کردیاجائے ۔ یہ باتیں بی جے پی بھی کہتی آئی ہے لیکن محض اسی وقت تک جب وہ اقتدار میں نہیں تھی ۔ ورنہ اس طرح کی مانگ پارٹی کی فرقہ پرست نظریئے کی پول کھولتی ہے ۔ اس انتخاب میں بی جے پی ہندو جموں مخالف مسلم وادی کا نعرہ دے کر فرقہ پرستی کو ہوا دی اور اس کے ذریعہ انتخاب میں فائدہ حاصل کیا ۔ یہ صاف ہے کہ بی جے پی کو انتخاب میں کامیابی ، سماج کو منقسم کرکے ملتی ہے ۔ امرناتھ یاترا کے مسئلے کا استعمال بھی کشمیری سماج کو بانٹنے کے لئے کیا گیا۔ اپنی مفاد پرستی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہوئے مودی اینڈ کمپنی نے انتخابی مہم کے دوران آرٹیکل 370 کے بارے میں گول مول باتیں کہیں۔ جبکہ اس معاملے میں ان کا رخ بالکل واضح ہے ۔
کشمیر میں بی جے پی کو حمایت حاصل ہونا کشمیریت کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے ۔ اس کے آرٹیکل 370 کو رد کرنے ، جارحانہ مہم اور ہندو راشٹرا کے ایجنڈے کو مزید رفتار حاصل ہوگی ۔ جن جن ریاستوں میں بی جے پی نے حکومتیں بنائی ہیں ، وہاں تجربہ یہ رہا ہے کہ پارٹی شروع میں تو ایک مشترکہ پروگرام کی بنیاد پر حکومت بنالیتی ہے مگر بعد میں دھیرے دھیرے اپنے حلیفوں کو کمزور کرتی جاتی ہے اور آخرکار اقتدار پر مکمل طورپر قابض ہوجاتی ہے ۔کشمیر کو آج ضرورت ایک نمائندہ حکومت کی ہے جو دستوری اصولوں کا احترام کرے اور ہندو مسلم اتحاد کو بڑھاوا دے ۔ ایک ایسی سرکار کی ضرورت ہے جو کشمیر کی تاریخ کی بیش قیمت وراثت کشمیریت کو زندہ رکھے ۔
کشمیر آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ دہشت گردوں کی حرکتوں اور فوج کی زیادتیوں کے باعث وادی کے لوگوں نے بہت کچھ برداشت کیا ہے ۔ اگر بی جے پی کشمیر میں اقتدار میں آتی ہے تو ریاست میں حالات مزید بگڑیں گے ۔ ریاست کی اگلی حکومت کو کشمیری پنڈتوں اور کشمیر کے نوجوانوں کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی ۔ اسے ترقی کا ایسا ماڈل تیار کرنا ہوگا جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے ۔ پنڈتوں کی شکایتیں دور ہوں ، ریاست میں امن و سکون رہے اور سیاح واپس وادی میں آئیں ۔
ریاست میں فرقہ پرستی کے بڑھتے شعلے کو کنٹرول کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اگر ریاست میں مختلف طبقات میں اتحاد و یگانگت کی فضا قائم رہے گی تو علحدگی پسندی اور تشدد پسندی اپنے آپ ختم ہوجائیں گے ۔ اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ نئی حکومت جمہوری سیاست کا مظاہرہ کرے نہ کہ فرقہ پرستی اور منافرت کی سیاست کو فروغ دے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بانٹنے والی سیاست اور سماج کو تقسیم کرنے والے ایجنڈے کو اس جنت ارضی سے ہمیشہ کیلئے دور رکھے ۔