سری نگر ، 2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کی جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت کو ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی کشمیر کے شوپیان اور اننت ناگ اضلاع میں اتوار کو مارے گئے بیشتر جنگجو نئے ریکروٹ تھے ۔ انہوں نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا ‘محبوبہ مفتی کی سب سے بڑی ناکامی جس پر بہت کم بحث ہوئی ہے ، یہ ہے کہ جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ‘۔ عمر عبداللہ نے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت میں اضافے کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی جولائی 2016ء میں ہوئی ہلاکت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا ‘مابعد برہان وانی غیض وغضب کی پیداوار۔ اتوار کو مارے گئے بیشتر جنگجو نئے ریکروٹ تھے ‘۔ انہوں نے کہا ‘جن 12 جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے ، ان میں سے 11 مقامی کشمیری ہیں جبکہ بارہویں جنگجو کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک بھی جنگجو کو غیرملکی قرار نہیں دیا گیا ہے ۔ کیا دہلی میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں میں سے کوئی اس رجحان سے پریشان نہیں؟ میں تو بہت پریشان ہوں’۔ عمر عبداللہ نے قومی راجدھانی دہلی کے دورے پر گئیں وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ‘یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے اپنے دورے کو مختصر کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ ایسا کیا ضروری کام تھا کہ وزیر اعلیٰ کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا؟’۔یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ وادی میں گذشتہ تین ماہ کے دوران چھ نوجوانوں نے اعلاناً عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ عسکری گروپوں میں شامل ہونے والوں میں تحریک حریت جموں وکشمیر کے نو منتخب چیئرمین محمد اشرف صحرائی کا فرزند جنید اشرف خان اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ریسرچ اسکالر منان بشیر وانی بھی شامل ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہتھیار اٹھانے پر تیار کیا جاتا ہے ۔ریاستی حکومت کے مطابق وادی میں سال 2015، 2016 اور 2017 کے دوران 280 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جنہوں نے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہے ، نے 6 فروری 2018 ء کو جموں میں قانون ساز اسمبلی میں نیشنل کانفرنس رکن و جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کے ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا تھا ‘گذشتہ تین برسوں میں 280 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا ‘2015 میں 66، 2016 میں 88 اور 2017 میں 126 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ‘۔ حکومتی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا تھا کہ وادی میں 8 جولائی 2016 ء کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سے دسمبر 2017 ء تک قریب دو سو مقامی نوجوانوں نے بندوقیں اٹھاکر جنگجو تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ تاہم جموں وکشمیر پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گذشتہ تین مہینوں کے دوران کم ازکم ڈیڑھ درجن مقامی جنگجوؤں نے سیکورٹی فورسز کے سامنے خودسپردگی اختیار کی یا اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ۔