کشمیری بچوںپر تشدد کے اثرات

محمد علیم الدین
صدی کے آخری 25 سال میں جموں و کشمیر کی ریاست تصادم اور بے چینی سے گذر رہی ہے ۔ اس طرح کے داخلی تنازعات کا آبادی پر تباہ کن اثر ہوا ہے اور خاص طور پر سب سے زیادہ خواتین اور بچوں پر یہ اثر ہوا ہے کیونکہ خواتین اور بچے اسں سے راست طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ بے شمار حملے ‘ تلاشی مہم ‘ سکیوریٹی کارروائیاں ‘ بم دھماکے ‘ فائرنگ کے تبادلے ‘ علاقہ کی ناکہ بندی اور بے گناہ افراد کی ہلاکت نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس سے ریاست کی معیشت بھی دہل کر رہ گئی ہے ۔ کئی بچے یتیم ہوگئے اور وہ اذیتوں کا شکار ہیں۔ جو لوگ بچ گئے ہیں وہ ذہنی تناو سے گذر رہے ہیں۔ تقریبا ایک لاکھ افراد اس دوران میں ہلاک ہوئے ہیں اور دو لاکھ بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 15,308 یتیم بچوں کی شناخت ہوئی ہے جن کا مہلوک عسکریت پسندوں سے تعلق ہے جنہیں نظر انداز کیا جاتا ہے ‘ ان کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے ‘ ان سے امتیاز برتا جاتا ہے کیونکہ ریاستی اور مرکزی حکومت کی ایک پالیسی ہے جس کے تحت عسکریت پسندوں کے لواحقین کو کوئی راحت یا مالی امداد فراہم نہیں کی جاتی ۔ ان شناخت کردہ یتیموں کی حکومت نے کوئی ادارہ جاتی انداز میں باز آبادکاری نہیں کی ہے حالانکہ یہ بچے اپنے عسکریت پسند والد کی موت کے بعد پیدا ہوئے تھے ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے باپ نے ہتھیار کیوں اٹھائے تھے اور عسکریت پسند کیوں بنا تھا ۔ جموں و کشمیر کی آبادی میں 38% بچے ہیں اور اس آبادی کے دو تا تین فیصد بچے یتیم ہیں جنہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ فی الحال 1600 یتیم بچے یتیم خانوں اور بال آشرموں کے علاوہ ناری نکیتن میں مقیم ہیں جو ریاستی حکومت چلاتی ہے ۔
صرف 17 یتیم خانے ایسے ہیں جو مختلف رضاکارانہ تنظیمیں وادی کشمیر میں چلاتی ہیں جہاں تقریبا 100 یتیم بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے ۔ انہیں تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے اسی طرح ریاستی حکومت کے 17 بال آشرموں اور ناری نکیتن میں بھی چند سو یتیم بچوں کی نگہداشت کی جاتی ہے ۔ ہر یتیم خانہ میں صرف 25 بچوں کی گنجائش ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست میں زیادہ سے زیادہ یتیم خانے قائم کئے جائیں تاکہ ان یتیموں کی بہتر دیکھ بھال ہو لیکن یہ بھی کافی نہیں ہوگا کیونکہ کمیونٹی باز آبادکاری ضروری ہے ۔ موجودہ یتیم خانوں میں دو لاکھ یتیموں کو جگہ دینا ناقابل عمل اور ناممکن ہے ۔ اس کے علاوہ ان یتیم خانوں کو چلانے اور ان کی نگرانی کیلئے ریاست میں کوئی ریگولیٹری اتھاریٹی بھی قائم نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے ۔ نا اہل اور غیر پیشہ ور افراد صرف یتیم خانہ قائم کرنے کے واحد نکاتی ایجنڈہ کے ساتھ آگے آرہے ہیں۔ یتیمموں کے نام کا استحصال کرتے ہوئے مخیر افراد سے پیسہ اینٹھا جاتا ہے ۔ بیشتر یتیم خانوں میں بچوں کی حفاظت چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی ہو ، کیلئے کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ رضاکارانہ تنظیموں میں بھی کوئی پیشہ ور افراد موجود نہیں ہیں اور ان کے مینیجرس بھی تربیت یافتہ یا اہلیت رکھنے والے نہیں ہیں۔ذہنی تناو کا شکار یتیموں سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ان میں ہر ایک کا مختلف رویہ ‘ مختلف سوچ ‘ مختلف شخصیت ہوتی ہے ۔ ان میں معلومات کی کمی ہوتی ہے ۔ محبت کی کمی ہوتی ہے اور وہ اس وجہ سے مایوس ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کسی عزیز کو کھوچکے ہوتے ہیں۔ اپنے والدین باپ یا ماں سے محروم ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان اداروں کے مینیجرس لازماً بچوں کے حقوق ‘ بچوں کے تحفظ اور بچوں کی نفسیات کے معاملہ میں تربیت یافتہ ہونے چاہئیں۔ حکومت کو اس سلسلہ میں ایک خصوصی قانون بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ان بچوں کی نگہداشت کے مراکز اور یتیم خانوں کے کام کاج کو باقاعدہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے استحصال کو روکا جاسکے ۔ ہندوستان بچوں کے حقوق کے تعلق سے اقوام متحدہ کنونشن پر دستخط کرچکا ہے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ تاہم عملًا ریاست میں ایسا کوئی انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے ۔ ریاست میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن یا بے سہارا بچوں کیلئے کونسل قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور بے سہارا بچوں کا استحصال نہ ہوسکے ۔ یہ کمیشن / کونسل سماجی کارکنوں ‘ غیر سرکاری تنظیموں ‘ ماہرین تعلیم ‘ صحت کے ماہرین اور سرکاری عہدیداروں پر مشتمل ہونی چاہئے لیکن ایسے کسی فرد کو اس کی ذمہ داری سونپی جانی چاہئے جو بچوں کے مسائل میں مہارت رکھتا ہو۔

کچھ سال قبل ریاستی حکومت نے عسکریت پسندی سے متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کیلئے ایک کونسل قائم کی تھی ۔ لیکن یہ کونسل درکار فنڈز سے محروم ہے ۔ صرف ایک کارپس فنڈ سے حاصل ہونے والے سود کو مختلف کاموں میں خرچ کیا جاتا ہے جس سے معمولی کامیابی ملی ہے ۔ اسی طرح ریاستی سماجی بہبود محکمہ کے پاس بھی بچوں کی فلاح و بازآبادکاری کیلئے خصوصی فنڈز نہیں ہیں۔ کوئی خصوصی اسکول متاثرہ بچوں کیلئے قائم نہیں کیا گیا ہے ۔ بال آشرموں اور ناری نکیتنوں کی حالت انتہائی ابتر ہے اور وہاں رہنے والے بچوں کی کوئی مناسب نگہداشت اور قیام کے اقدامات بھی نہیں کئے گئے ہیں۔ جو رضاکارانہ تنظیمیں بچوں کو راحت رسانی اور باز آبادکاری میں مصروف ہیں اور یتیم خانے چلاتی ہیں انہیں بھی سالانہ گرانٹ نہیں دی جا رہی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں متعلقہ این جی اوز کے پاس بھی عصری انفرا اسٹرکچر اور معیاری خدمات نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر میں این جی او کلچر بھی کمزور ہے اور وہاں درکار تعداد میں این جی اوز بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ وہاں ریکارڈ میں درج کئی سوسائیٹیز ہیں لیکن ان میں بیشتر کاغذ پر ہیں اور عملی میدان میں یہ ناپید ہیں۔ کوالیفائیڈ اور تربیت یافتہ افراد اعلی معیاری رضاکارانہ تنظیمیں قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں متعلقہ ضلع مجسٹریٹ سے ایک سرٹیفیکٹ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ حالانکہ اسکا سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ میں کہیں تذکرہ نہیں ہے لیکن ایک سرکلر اس وقت کے گورنر نے 1990 میں جاری کردیا تھا ۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے کہ ایک ضلع مجسٹریٹ پہلے رضاکارانہ تنظیم قائم کرنے والوں کی تفصیلات کا جائزہ لے لیکن یہ کام ایک مقررہ وقت میں ہونا چاہئے اور یہ گنجائش فراہم کی جانی چاہئے کہ چھ مہینوں کے وقت میں رجسٹریشن مکمل ہوجانا چاہئے ۔ بیشتر حقیقی افراد رجسٹریشن حاصل نہیں کرپاتے ہیں اسی لئے ایسے لوگوں کی قلت بڑھتی جا رہی ہے ۔ حکومت ہند کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قومی فاونڈیشن کی جانب سے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے یتیم بچوں کو ماہانہ 700 روپئے کی معاشی امداد دی جاتی ہے لیکن یہ بچے عسکریت پسندوں کے نہیں ہونے چاہئیں۔ ایسے بچوں کی نشاندہی کرنے اور طریقہ کار کی تکمیل کرنے کی ذمہ داری ضلع کے ڈپٹی کمشنران کو دی گئی ہے جو پہلے ہی سرکاری کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ ایسی درخواستوں کا جائزہ لینے اور یکسوئی کرنے کے موقف میں نہیں ہوتے ۔ ایسے میں مستحق بچے امداد سے محروم ہوجاتے ہیں۔

جو بچے اس فاونڈیشن سے مدد حاصل کرتے ہیں ان کیلئے بھی کوئی نگران کار نظام نہیں ہے تاکہ یہ لوگ ان پیسوں کو مناسب انداز میں خرچ کرسکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں تنازعہ پیدا ہونے سے قبل بچوںمیںجرائم کی شرح بہت کم تھی لیکن اب یہ شرح والدین کے لاپرواہ رویہ ‘ اخلاقی قدروں کی گراوٹ اور بچوں کے ذہنی دباو کی وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے ۔ متعلقہ ایجنسیوں جیسے پولیس ‘ خط غربت سے نچلی زندگی گذارنے والے مختلف خاندانوں میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان کے نتیجہ میں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ بچوں کی غیر واضح سوچ اور تشدد کے اثرات نے بچوں کو جرائم کی سمت راغب کیا ہے ۔ دوسرے مجرمین کی طرح بچوں کے جرائم سے بھی نمٹنے کی ضرورت ہے لیکن دستور میں ان بچوں کیئلے خصوصی طریقہ کار اور قوانین کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ جموں و کشمیر میں جوینائیل جسٹس ایکٹ ہے جو مرکز کی طرز پر تیار کیا گیا تھا لیکن ریاست میں اس قانون پر عمل آوری نہیں ہوتی ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جن بچوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات ہیں انہیں بھی معمول کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور ان کیلئے علیحدہ جونائیل ہومس نہیں ہیں۔ ریاست میں کوئی جوینائیل بورڈ قائم نہیں کیا گیا ہے ۔ 16 سال سے کم عمر کے بیشتر بچے پولیس اسٹیشنوں میں اور معمول کی جیلوں میں رکھے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان بچوں کی کونسلنگ یا ان کی باز آبادکاری کا سوال ہی پیدا نہں ہوتا ۔ چونکہ ہندوستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشنس پر دستخط کئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کنونشس پر جموں و کشمیر میں عمل آوری کی جائے لیکن حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے اور کئی بچے یا تو پیدائشی معذور ہیں ‘ یا فائرنگ کے تبادلہ میں معذور ہوئے ہیں یا حملوں میں بم دھماکوں میں معذور ہوئے ہیں ان کیلئے کوئی اسکول نہیں ہے اور نہ ہی نابینا یا ذہنی معذور بچوں کیلئے ہی کوئی اسکول ہے ۔ ان کی بازآبادکاری مراکز بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہی حال منشیات کی لعنت کا شکار بچوں کا بھی ہے ۔ ضرورت ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان کی فلاح و بہبود کیلئے موثر ہوں ان پر عمل آوری بھی کی جائے ۔ یہ تمام فکرمند حلقوں کیلئے ایک چیلنج ہے ۔ وزیر اعظم ہند نے کچھ دن قبل کشمیر مسئلہ پر ورکنگ گروپس قائم کئے تھے ۔ ان میں ایک ورکنگ گروپ کے صدر نشین جناب حامد انصاری ہیں اور انہوں نے بھی تمام بچوں کی بازآبادکاری کی سفارش کی ہے ۔