محمد مصطفی علی سروری
پنجاب اور ہریانہ کی ہائیکورٹ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ایک عجیب فیصلہ صادر کیا ۔ عدالت نے انجنیئرنگ کے ایک طالب علم سے کہا کہ ’’وہ عدالت پر رحم کرے اور مزید کوئی درخواست داخل نہ کرے ، ساتھ ہی عدالت نے مزید کہا کہ ’’وہ انجنیئر نہ بنے اور ملک پر رحم کرے‘‘۔
جی ہاں قارئین آپ نے بالکل درست پڑھا ہے ، ایک عدالت خود انجنیئرنگ کے طالب علم سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ عدالت اور اپنے ملک پر رحم کرے اور سب سے اچھی بات تو یہ ہوگی وہ انجنیئرنگ کرنے کا خواب ہی چھوڑدے۔ تفصیلات کے مطابق ہریانہ میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (NIT) کے انجنیئرنگ کے ایک طالب علم نے پنجاب ہریانہ کی مشترکہ ہائیکورٹ میں ایک درخواست داخل کرتے ہوئے عدالت سے اپیل کی کہ اس کو اپنا انجنئرنگ کورس پورا کرنے کیلئے ایک آخری موقع دیا جائے اور بیاک لاگ (وہ پرچے جس میں طالب علم فیل ہے) لکھنے کی اجازت دی جائے ۔ قارئین سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس طالب علم نے سال 2009 ء میں NIT کروکشیر میں داخلہ لیا اور چار برس کی پڑھائی کے بعد بھی اس نے اپنے سارے امتحانات پاس نہیں کئے ، یونیورسٹی نے اس کو اپنے بیاک لاگ پاس کرنے مزید چار سال کا وقت دیا اور یوں آٹھ برس بعد بھی اس نے اپنے انجنیئرنگ کے سارے پرچے پاس نہیں کئے اور اب بھی اس طالب علم کو ا پنے 17 پرچے پاس کرنے ہیں اور یونیورسٹی قواعد کے مطابق اس کو مزید کوئی موقع نہیں دیا جاسکتا تھا ، اس لئے اس طالب علم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی کہ اس کو انجنیئرنگ کے پرچے پاس کرنے کیلئے مزید ایک سال کا موقع دیا جائے ، عدالت نے واضح کردیا کہ جو طالب علم 9 برسوں میں انجنیئر نہیں بن سکا ،وہ مزید ایک سال میں بھی یہ امتحان پاس نہیں کرسکتا ہے ۔ ہائیکورٹ نے اس طالب علم کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں سے اس کو کوئی ہمدردی نہیں ہے کیونکہ ایسے لوگ قوم کے وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ جو شحص 9 برسوں میں اپنے امتحانات پاس نہیں کرسکا اب وہ 17 پرچے ایک سال میں کیسے پاس کرسکتا ہے۔ اگر طالب علم کو پڑھائی سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو وہ کچھ اور پڑھائی کرلے مگر انجنیئرنگ نہ کرے ۔ (بحوالہ انڈیا ٹوڈے 28 نومبر 2018 ئ)
کیا آج کے دور میں انجنیئرنگ کی تعلیم اپنی اہمیت کھوچکی ہے ؟ جی نہیں انجنیئرنگ کی تعلیم کی آج بھی اہمیت ہے اور انجنیئرس کو آج بھی بہترین ملازمتیں مل رہی ہیں۔ ہندوستان کے باوقار انجنیئرنگ کی تعلیم دینے والے اداروں میں (IIT) کا شمار ہوتا ہے ۔ تعلیمی سال 2018-19 ء کے اختتام سے پہلے کیمپس تقررات کے مرحلے میں جن کمپنیوں نے (IIT) کے پاس اؤٹ بچوں کو اپنے نوکریاں دینے کا پیشکش کیا ہے ، ان میں مائیکرو سافٹ ، گوگل، ، ایپل ، اسرو، اوبر، او این جی سی جیسی بین الاقوامی اور بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہے ۔ اخبار فینانشیل اکسپریس کی 3 ڈسمبر 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق آئی آئی ٹی روڑکی (Rorkee)کے کیمپس میں (215) طلباء کو ان کے کورس کی تکمیل سے پہلے ہی جاب آفر مل گئے ۔ایک بین الاقوامی ملٹی نیشنل کمپنی نے یہاں کے طالب علم کو دیڑھ کروڑ کی تنحواہ کی پیشکش کی ہے جبکہ اندرون ملک طلباء کو 47 لاکھ کی اوسط تنحواہ کا پیشکش کیا گیا ہے ۔ آئی آئی ٹی ممبئی میں اعظم ترین تنخواہ 1.14 ایک کروڑ چودہ لاکھ ایک ایم این سی کمپنی مائیکرو سافٹ نے آفرکی ہے جبکہ اندرون ملک کی کمپنیوں نے بھی یہاں سے انجنیئرنگ کامیاب کرنے والے طلباء کیلئے نوکریوں کی پیشکش کی ہے ۔
ان دو خبروں کے ذریعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انجنیئرنگ کی تعلیم ہر ایک کیلئے موزوں نہیں ہے اور موزوں اہل امیدوار انجنیئرنگ کرلیتے ہیں تو ان کیلئے ملازمت کا حصول بھی مشکل نہیں رہتا ہے ۔ مسلم سماج میں عام طور پر اپنے بچوں کو انجنیئرنگ کی تعلیم دلوانا ایک سماجی ضرورت بھی بنادی گئی ہے کہ لوگ کیا کہیںگے اور فلاں فلاں تو کچھ بھی نہیں ہے اور ان کے بچے انجنیئرنگ کر رہے ہیں تو ہمارے بچوں کیلئے بھی انجنیئرنگ کرنا صروری ہے وغیرہ۔ قارئین ا یک اور اہم بات یہ ہے کہ (IIT) جیسے اداروں میں بھی صرف ایسے ہی طلباء کو انجنیئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے جو اس فیلڈ میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور محنت کر کے پڑھائی کرتے ہیں۔ IIT جیسے اداروں میں بھی پہلے برس کے دوران ہی ایسے طلباء کو خارج کردیا جاتا ہے جن کا تعلیمی مظاہرہ اطمینان بخش نہیں ہوتا ہے۔ یعنی تعلیمی ادارے صرف تعلیم فراہم کرتے ہیں اور اگر طلباء نہیں پڑھ رہے ہیں تو اس کے لئے تعلیمی ادارے نہیں بلکہ سرپرست ہی ذمہ دار ہیں ۔ کیا سرپرست اپنی اس اہم ذمہ داری سے واقف ہیں۔
آج کے طلباء تو اسکول اور کالج کو بھی پابندی سے جانا نہیں چاہتے ہیں۔ 30 نومبرجمعہ کے دن مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں کالج کے طلباء نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا ۔ اخبار انڈین اکسپریس نے یکم ڈسمبر 2018 ء کو ایک خبر شائع کی ۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ کالج کے طلباء 65 فیصد لازمی حاضری کے اصول سے چھٹی چاہتے تھے اور حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان طلباء کو بھی امتحان لکھنے کی اجازت دی جائے جن کی حاضری 65 فیصد سے کم ہے۔ والدین کی اپنے بچوں کے تعلق سے دلچسپی ان کے مستقبل کو سنوار بھی سکتی ہے اور والدین کا بیجا لاڈ ان کے بگاڑ کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔ 3 ڈسمبر 2018 ء کو بزنس کی دنیا کی ایک معروف میگزین Forbes نے ایک ایسے سات سال کے امریکی بچے کے متعلق اسٹوری شائع کی جس نے کھلونوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے صرف ایک سال کے دوران 22 ملین ڈالر کمالیئے۔ جی ہاں قارئین دنیا کے بہت سارے بچوں کی طرح ریان نے بھی کم عمری میں کھلونوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا مگر ریان کے والدین ریان کے کھلونے کھیلنے دیکھنے پرکھنے کے ویڈیوز بناکر تین سال قبل 2015 ء میں Youtube پر اپ لوڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، ان تین برسوں کے دوران ریان کی عمر سات برس ہوگئی ، اب ریان مارکٹ میں آنے والے ہر نئے کھلونے پر اپنا تبصرہ پیش کرتا ہے ۔ بچوں کے کھلونوں پر ایک بچے کا تبصرہ یہ اتنا دلچسپ اور پرکشش کام بن گیا کہ فوربس میگزین کے تخمینہ کے مطابق جون 2018 ء تک بارہ مہینوں کے دوران Youtube نے ریان کو 22 ملین ڈالر کی ادائیگی کی۔ Ryan Toys Review نام کے یوٹیوب چیانل کو تقریباً پونے دو کروڑ لوگوں نے سبسکرائب کیا ہے ۔ ریان اپنے ویڈیوز میں کھلونوں کو ان کے اصل پیاک کئے ہوئے ڈبوں سے کھول کر ان کو کیسے کھیلا جاتا ہے اور وہ کھلونے کتنے اچھے اور کتنے معیاری ہے بتلاتا ہے۔ بس اس طرح کے چھوٹے چھوٹے ویڈیوز بناکر ریان نے دنیا بھر میں نہ صرف مقبولیت حاصل کرلی بلکہ سات سال کی عمر میں Youtube پر سب سے زیادہ کمانے والے کا موقف بھی حاصل کرلیا ہے۔
ریان نے کھلونوں کے علاوہ بچوں کے لئے کھیل کھیل میں آسان سائنس پر بھی ویڈیوز بنائے ہیں اور کروڑوں لوگوں نے ان ویڈیوز کو دیکھا اور پسند کیا ۔ ریان کے ویڈیو بنانے کی ابتداء کیسے ہوئی اس کے متعلق برطانوی اخبار (Mail ) نے 3 ڈسمبر کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ایک مرتبہ ریان خود یوٹیوب پر ایک کھلونے کے متعلق ویڈیو دیکھ رہا تھا ، تب اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ یوٹیوب پر کیا میں بھی اپنے کھلونے دکھلا سکتا ہوں ، بس یہیں سے ریان کے یوٹیوب سفر کی شروعات ہوئی ۔ماں باپ نے ریان کی دلچسپی کو دیکھ کر اس کی مدد کی اور آج ریان دنیا بھر کی خبروں میں چھایا تو ہے ہی اور ساتھ اس کے پاس اتنا بینک بیالنس جمع ہوچکا ہے کہ وہ آرام سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔
جو والدین اور سرپرست اپنے بچوں کو اسکول و کالج میں داخل کرواکر ساری تعلیم و تربیت اب ان کے ذمہ سمجھتے ہیں، وہ برطانیہ کے چیف انسپکٹر آف اسکول کے اس بیان کو پڑھیں جس میں انہوں نے کہا کہ بچوں کی کھانے پینے کی عادتیں ، ورزش اور بیت الخلاء کو جانے کی تربیت دینا گھر والوں کا کام ہے ۔ اسکول کے ٹیچر کا کام تو صرف تعلیم دینا ہے ، تفصیلات کے مطابق برطانوی بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کیلئے اسکولس میں Anti-Obesity پروگرام مسلسل ایک برس تک چلایا گیا ۔ ایک سال بعد تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ موٹاپے سے بچاؤ کیلئے اسکول میں بچوں کو دی جانے والی تربیت کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ برطانوی چیف انسپکٹر آف اسکول کے مطابق بچوں کو اسکول میں اچھے کھانے کے فوائد اور ورزش کی اہمیت کے متعلق بتلایا جاسکتا ہے لیکن اچھے کھانے اور ورزش کی عادت ڈالنا گھر والوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ برطانوی چیف انسپکٹر آف اسکول محترمہ امانڈا اسپل میان کے مطابق اسکولس والدین کا نہ تو رول ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی متبادل (بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام 2 ڈسمبر 2018 ء )
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کیلئے نہ صرف موزوں ترین تعلیم کی نشاندہی کریں بلکہ ہر قدم پر بچوں کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور خاص کر یہ سمجھ لیں بچوں کے تربیت خود ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین سے اپنے بچوں کی تربیت میں ذرا سی چوک ہوجائے تو کتنے خطرناک نتائج نکلتے ہیں، اس کا اندازہ سبھی کو ہونا چاہئے۔
دہلی کے ایک ریسیڈنشیل اسکول میں دسویں جماعت کی دو لڑکیوں نے اسکول میں لپ اسٹک اور آئی لائینر کا استعمال کیا۔ ان لڑکیوں کو لپ اسٹک اور آئی لائینر استعمال کرنے سے جب ہاسٹل کی وارڈن نے منع کیا اور تبنیہ کی تو ان لوگوں نے وارڈن سے جھگڑا کرلیا اور ایک دوسرے واقعہ میں جب انہیں پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا گیا توان لوگوں نے سر درد کا بہانہ کر کے اگلے دن آنے مہلت مانگی اور اگلے دن اسکول سے اپنے بیاگ لیکر بھاگ نکلی (3 ڈسمبر 2018 ء اخبار انڈین اکسپریس کی رپورٹ)
قارئین یہ تو والدین اور سرپرستوں کا کام ہے کہ وہ ا پنے بچوں کو اسکول میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا سکھائیں اور جب گھروں میں یہ کام نہیں ہوگا تو لازمی طور پر مسائل سڑکوں اور بازار میں آئیں گے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدین اور سرپرستوں کی اولاد کی تربیت کے معاملے میں مدد فرمائے اور بچوں کیلئے صحیح کیریئر کے انتخاب سے لیکر صحیح تعلیم کی فراہمی میں ان کی مدد فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
sarwari829@yahoo.com