ثریا جبین
’’میں شادی نہیں کروں گی‘‘۔
’’دیکھو بیٹا، شادی تو تمہیں کبھی نہ کبھی تو کرنی ہی پڑے گی ۔پھر یہ رشتہ کیا برا ہے ؟ ’’لڑکا وجہیہ و شکیل ہے۔ خاندانی لوگ ہیں۔ امی نے کہا۔’’اور عمر ؟ یہ بھی بتادیجئے‘‘؟
’’بس تم سے کوئی دس برس بڑا ہوگا ۔ میرے والدین نے بھی تو مجھ سے بارہ سال بڑے تمہارے پاپا سے شادی کرادی تھی ۔ ’’ہاں ممی مجھے معلوم ہے۔ پاپا کی صورت شکل دیکھ کر آپ کے ماں باپ فدا ہوگئے تھے اور شائد آپ بھی اور آج آپ کیسی زندگی گزار رہی ہیں۔ پاپا ہینڈسم ضرور ہیں لیکن کتنے تیز مزاج ہیں۔ آپ کے ساتھ ان کا سلوک کیسا ہے ؟ بچپن سے ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ پاپا آپ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ۔ آخر کیوں ؟ آپ میں کیا کمی ہے ؟ اتنا سب کچھ تو کرتی ہیں آپ۔ ان کی خدمت، اطاعت پھر بھی ان کے دل میں آپ کیلئے ذرا برابر جگہ نہیں۔ آپ کے ماں باپ نے سوچا ہوگا بڑی عمر کا لڑکا ہے ۔ کمسن بیوی کو خوش رکھے گا ۔ مگر یہاں تو الٹا معاملہ ہے۔ ’’سب عورتوں کی تقدیر ایک سی نہیں ہوتی‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے کہ میں یہ رسک لے لوں؟ نہیں ممی مجھے معاف کریئے۔ میں نے آپ کو کبھی خوش نہیں دیکھا۔ پاپا کی ایک محبت بھری نظر سے آپ محروم رہیں۔ ذہنی اذیتیں سہہ کر بھی ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ ’’میری بات چھوڑو۔ اگرتم شادی سے انکار کروگی تو تمہارے پاپا پورا غصہ مجھ پر اتاریں گے ۔ بیٹا اب مجھ میں برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔ میرے دکھ کو اورنہ بڑھاؤ۔ امی نے لاچار ہوکر کہا ۔
علینہ نے جب سے ہوش سنبھالا، ماں کو باپ کے ظلم کا شکار ہوتے دیکھا۔ معصوم بچی کا دل دہل جاتا ۔ جب وہ بلک بلک کر روتی تو طمانچوں سے اس کے گالوں پر انگلیوں کے نشان بنادیئے جاتے ۔ وجاہت اپنے آرام کے وقت کسی کی مداخلت برداشت نہ کرسکتے تھے ۔ رات میں بچی روتی تو ان کی نیند خراب ہوجاتی ۔ سارا غصہ بیوی پر اتارتے۔ دونوں بچیاں باپ کی محبت کی بھوکی تھیں۔ وہ ان کے قریب آنے سے ڈرتی تھیں۔ وجاہت جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے دونوں بچیاں سہم جاتیں۔ علینہ کو اسکول جانے کا بڑا شوق تھا ۔ باپ سے کہنا تو فضول تھا ۔ ماں نے ہمت کر کے قریب کے اسکول میں شریک کرادیا۔ دسویں جماعت تک کے عرصہ میں کئی بار ایسا ہوا کہ اس کی تعلیم منقطع کردی گئی ۔ ماں آڑے آتیں ۔ بدلے میں گالیاں سنتیں۔ یہ سب دیکھ کر علینہ کو بڑا دکھ ہوتا۔
علینہ کی ماں روحینہ علی متوسط خاندان کی خاتون تھیں۔ تین بھائیوں کی چھوٹی بہن ماں باپ کی بے حد لاڈلی ۔ بہت خوبصورت تو نہیں لیکن دلکش خد وخال کی مالک تھیں۔ بے حد سمجھدار اور سلیقہ مند ہونے کی وجہ سے گھر سے باہر خاندان میں بھی ہر دل عزیز تھیں۔ اٹھارا سال پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ خاندان کی طرف سے ان کے رشتہ کے تقاضے شروع ہوگئے ۔ ماں اپنے میکہ والوںکے حق میں تھیں تو باپ اپنے رشتہ دار لڑکے کو داماد بنانا چاہتے تھے ۔ گھر میں روزانہ اس بات کو لے کر بحث و مباحثے ہوتے لیکن نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے۔
اسی اثناء میں روحینہ علی کے لئے ایک رشتہ آیا ۔ وجاہت حسین ایک مقامی فرم میں ملازم تھے ۔ اپنے نام ہی کی طرح وجہیہ تھے ۔ بس عمر میں بارہ سال کا فرق تھا ۔ روحینہ کے گھر والے ان کی سحر انگیز شخصیت سے مرعوب ہوگئے ۔ سب نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔ روحینہ نے جب ان کی فوٹو دیکھی تو اپنی قسمت پر ناز ہونے لگا۔ یہ تو ان کے خیالوں سے زیادہ اسمارٹ تھے ۔
شادی جلد ہی طئے کردی گئی ۔ روحینہ کا یہ عالم کہ خوشی سے پیر زمین پر نہ پڑتے تھے ۔ وجاہت کے آگے پیچھے پھرتیں۔ وجاہت ان سے ہمیشہ روکھے پھیکے انداز میں بات کرتے ۔ چند ہی دنوں میں وجاہت کی شخصیت کے پرت کھلنے لگے ۔ ایک بار انہوں نے شوہر سے میکہ جانے کی خواہش کی ۔ وہ تو اس زعم میں تھیںکہ باآسانی اجازت مل جائے گی لیکن انہوں نے منع کردیا ۔پھر بھی روحینہ نے بڑی عاجزی اور پیار سے ضد کی ۔ وجاہت کو غصہ آگیا ۔ اچانک انہوں نے روحینہ کو ایک تھپڑ رسید کردیا ۔ روحینہ دکھ اور رنج کے مارے سکتہ میں آگئی ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وجاہت اس طرح کا برتاؤ کریں گے ۔ سارے خواب چور چور ہوگئے ۔اس خوبصورت چہرے کے پیچھے کیسا حیوان نما انسان تھا ۔ وہ ہر وقت ڈری سہمی رہنے لگی ۔اب تو ا کثر ذرا ذرا سی بات پر اسے خوب لتاڑتے۔ روحینہ کو دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر اپنے گھر والوں سے میری شکایت کی تو کھڑے کھڑے فارغ کردیں گے ۔ روحینہ ماں باپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی تھی ۔ جب وجاہت اس پر ستم کی انتہا کردیتا تو بھی وہ خاموش رہتی۔ وہ اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتا ۔ اپنی من مانی کرتا۔ بات بات پر ٹوکتا ۔ اب تو اس کی درندگی بہت بڑھ گئی تھی ۔ اسے پتہ تھا کہ یہ گائے رسی توڑ کر بھاگنے والی نہیں۔
شادی کے ایک سال بعد علینہ پیدا ہوئی ۔ بیٹی کی پیدائش پر وہ مورد الزام ٹھہرائی گئیں۔ ظلم و زیادتی کو انہوں نے اب اپنی تقدیر سمجھ لیا تھا اور تقدیر پر شاکر تھیں۔ میکہ میں تو شکایت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دو سال بعد ریما پیدا ہوئی۔ اس بار بھی بیٹی پیدا ہونے پر انہوں نے خوب فساد مچایا۔ روحینہ کے صبر اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تھا ۔ ایک وقت تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہو ۔ اب میں اس گھر میں نہیں رہوں گی ۔ دو لڑکیاں تھیں ، پانچ سال اور تین سال کی۔ وجاہت نے صاف کہہ دیا کہ وہ لڑکیوں کو جانے نہیں دیں گے ۔ اب وہ کیا کرتیں۔ ایسے ظالم باپ کے پاس وہ لڑکیوں کو کیسے چھوڑ سکتی تھیں۔ بس انہوں نے صبر کرلیا ۔
بچپن سے ہی علینہ ماں پر ظلم ہوتے دیکھتی آرہی تھی۔ وہ یہ سمجھ نہیں پاتی کہ باپ اپنی کن محرومیوں کا بدلہ لے رہے ہیں۔ اب وہ سن شعور کو پہنچ چکی تھی ۔ جب بھی اس کے پاپا ممی پر ہاتھ اٹھائے جاتے وہ سامنے آجاتی اور اب تو وہ صاف کہنے لگی تھی کہ اب اگر آپ نے ممی پر ہاتھ اٹھایا تو میں برداشت نہیں کروں گی ۔ گھر کے ایسے حالات دیکھ دیکھ کر علینہ نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ شادی نہیں کرے گی لیکن باپ کہاں ماننے والے تھے ۔ وہ تو اسے جلد سے جلد رخصت کردینا چاہتے تھے ۔ وہ دراصل اس کی صاف گوئی سے خائف رہنے لگے تھے ۔ ماں کی وہ ڈھال بنی ہوئی تھی ۔ علینہ لاکھ چاہنے پر بھی شادی سے انکار نہ کرسکی۔ اب وہ اپنے گھر سے رخصت ہورہی تھی ۔ آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے ، اس کا دل ماں کی طرف سے ہولا جارہا تھا ۔ اس کے جانے کے بعد پاپا ماں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے ۔ کوئی روکنے والا بھی تو نہ ہوگا۔
خیالات کی آندھی چلی آرہی تھی۔ جیسے تیسے وہ سسرال پہنچی ۔ وہاں رات بھر مختلف رسومات ہوتی رہیں۔ علینہ رونے دھونے اور تھکن سے نڈھال ہورہی تھی۔ رات ایک بجے وہ کمرے میں پہنچادی گئی ۔ اس کے دل و دماغ میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ ’’کہیں یہ شخص بھی میرے باپ جیسا نکلا تو ‘‘۔ اس نے اپنے دل میں مضبوط ارادہ کر لیا وہ کبھی اپنے شوہر کو خود پر حاوی نہیں ہونے دے گی ۔ ماں کی کم سختی اور شرافت کا نتیجہ دیکھ لیا۔ وہ ا پنی سوچوں میں گم بیٹھے بیٹھے بے خبر سو گئی ۔ صبح اچانک ہڑبڑاکر اٹھی ۔ شوہر نے نہایت ملائمت سے کہا آپ واش روم جاکر فریش ہوجائیے۔ میری بہنیں آپ کی منتظر ہیں۔
علینہ خاموشی سے اٹھی اور واش روم میں گھس گئی ۔ شاور لے کر جب وہ باہر آئی تو دونوں نندوں نے اسے تیار کیا اور باہر بڑے ہال میں لے گئیں اور ناشتہ کی میز پر بٹھادیا ۔ ناشتہ بڑا پرتکلف تھا ۔ گھر کے سب لوگ محبت اور اپنائیت کا اظہار کر رہے تھے ۔ علینہ کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہورہے تھے ۔ اس کے برعکس یہاں تو اس پر محبتیں لٹائی جارہی تھیں۔ اسے اہمیت دی جارہی تھی ۔ شوہر بھی نرم مزاج دکھائی دیتے تھے۔ ۔
شادی کو دو ماہ گزرچکا تھا ۔ علینہ اب بھی گھر میں سب سے ریزرو رہتی ۔ علینہ کو اس کے شوہر الطاف نے اپنے گھر کے تعلق سے کئی باتیں بتائیں۔ اس نے خواہش کی کہ وہ اپنے گھر کو امن و خوشی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے تمہارے تعاون کی بے حد ضرورت ہے ۔ وہ بولے جارہا تھا ۔ علینہ خاموش بیٹھی اس کے الفاظ پر غور کر رہی تھی۔
’’میری بات سن رہی ہو‘‘۔ اس نے زور سے کہا ۔’’ ہاں … ہاں ۔ وہ گھبرائی۔ (بس دیکھ لیا کتنا جلدی غصہ آتا ہے ۔ میرا باپ بھی ) ’’علینہ پلیز میری بات کا برا نہ ماننا ۔ میں نے اپنا دل کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ میں بڑا صاف گو اور صاف دل کا ہوں۔ تمہیں اگر تھوڑی سی بھی تکلیف پہنچے تو مجھے بتا دینا۔ ویسے میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔ تم بھی میرا ساتھ دوگی نا ؟
’’ضروردوں گی ۔ علینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘۔
شادی کو تین ماہ ہوچکے تھے ۔ علینہ پوری طرح مطمئن تھی ۔ اس دوران وہ الطاف کے ساتھ ماں کے گھر بھی گئی تھی ۔ علینہ کی ممی دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوتیں۔ایک دن الطاف نے پوچھا ۔ اب بتاؤ ۔ تم مجھ سے خوش ہو ؟ میں تمہاری کسوٹی پر پورا اُترا یا نہیں ؟ ’’مجھے شرمندہ نہ کیجئے ۔ ’’میرے پاپا کی وجہ سے مجھے ہر مرد سے نفرت ہوگئی تھی ۔ شادی تو میں کرنا ہی نہیں چاہتی تھی لیکن زبردستی کردی گئی ۔ ایک خوف سا میرے دل پر ہر وقت سمائے رہتا لیکن یہاں آکر میری سوچ بدل گئی ۔ اب دیکھ لیا ۔ اللہ نے میری قسمت کتنی خوبصورت بنائی ہے۔ اس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔ مجھے ساس کی شکل میں ماں ، بھائیوں جیسے دیور ، بہن کی شکل میں نند مل گئی ۔ ’’اور میں ؟ کس شکل میں ملا ؟ الطاف نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ’’آپ کی شکل میں تو مجھے ساری خوشیاں مل گئیں‘‘۔ شادی کے بارے میں میری سوچ بہت غلط تھی۔ ممی کہتی تھیں کہ سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ جب میری شادی طئے ہوئی تھی تو میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میری زندگی میں باپ جیسا مرد کبھی نہ آئے۔ ’’ اب کیا دیکھا ؟ ‘‘ ’’یہی کہ میری دعا قبول ہوئی ۔ اللہ نے میری سن لی‘‘۔ ’’اسی بات پر اچھی سی چائے پلادو‘‘۔ ’’ضرور ۔ چائے کے ساتھ گرم گرم پکوڑے بھی بنادوں؟ ‘‘’’نیکی اور پوچھ پوچھ ‘‘۔ علینہ مسکرانے لگی ۔ اسے ایسا لگا جیسے ہوا کے خوشگوار جھونکوں سے اس کی زندگی معطر ہوگئی ہو۔