کسی کا درد مل سکے تو لے اُدھار

 

محمد عبدالمجیب
ہماری امی صبر و شکر اور جذبۂ خدمتِ خلق کی اونچی مثال تھیں۔ بچپن کے بیشمار واقعات مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ محلے کی بڑی بوڑھی عورتیںامی کو دعائیں دیتی تھیں۔ ’’اللہ تیرا پیٹ ٹھنڈا رکھے،اللہ تجھے اچھا رکھے ، تیرے بال بچوں کا سکھ تجھے نصیب کرے ، تجھے ہر خوشی عطا کرے ، ہر بلاء و بیماری سے تجھے کوسوں دور رکھے وغیرہ‘‘۔
پانچ چھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود امی کو بوڑھی عورتیں ’’دلہن‘‘ کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھیں۔ حالانکہ امی کیلئے دلہن جیسا بناؤ سنگھار کہاں ممکن تھا ۔گھر کا سارا کام خود ہی کرتی تھیں۔ میلے کچیلے کپڑے اور پراگندہ بالوں میں پتہ نہیں دلہن کیسے نظر آتی تھیں۔ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک ہی شائد ان کے حسن کا راز تھا ۔
ایک دفعہ بازو والی خالہ اماں آئیں حسب عادت آواز لگائی ۔ دلہن … دلہن کدھر ہے …؟ اس وقت امی باورچی خانہ میں تھیں ،ہم سے کہا کہ دیکھو کون آئے ہیں۔ ہم نے کہا بازو والی خالہ اماں آئی ہیں۔ امی نے کہا انہیں بٹھاؤ اور پانی پلاؤ میں ابھی آتی ہوں۔ فوراً ہی حاضر ہوگئیںاور دریافت کیا کہئے خالہ اماں کیسے آنا ہوا ۔ خالہ اماں نے کچھ سکوت اختیارکیا ۔ پھر دھیمی آواز سے کہا ۔گھر میں آج جو سالن پکا ہے ۔ نمک مرچ اتنا زیادہ ہے کہ میرے حلق سے نہیں اترا۔ تیکھا پھیکا نوجوانوں کواچھا لگتا بیٹا۔ امی مسکرائیں اور کہا خالہ اماں آپ بیٹھئے میںابھی آئی ۔ کچھ ہی دیر میں باورچی خانہ سے بھینی بھینی خوشبو آنے لگی ۔ بمشکل آدھے گھنٹہ میں امی نے بھینڈی فرائی کردی ، دال تو پہلے سے موجود تھی ۔ دو تین روٹیاں بھی ڈال دیں اور دسترخوان آراستہ کرکے خالہ اماں کا ہاتھ ایک کٹورے میں دھلوادیا اور کہا کہ اب آپ آرام سے کھالیجئے ۔ امی کو محلے کی بوڑھی عورتوں کی فرمائش اور ذائقے خوب معلوم تھے اور وہ اپنے بال بچوں سے زیادہ امی پر فخر کیا کرتی تھیں۔ خالہ اماں نے جیسے ہی کھانا ختم کیا چائے حاضر ہوگئی ۔ پھر آناً فاناً دسترخوان اٹھاکر امی نے خالہ اماں سے کہا۔ اور سنایئے خالہ اماں

…!
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے اور دل سے جو دعا نکلتی ہے عرش تک پہونچتی ہے۔ خالہ اماں کی آنکھوں میں خوشی چمکنے لگی ، بظاہر اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے دعا دی ۔ اللہ تیرا پیٹ ٹھنڈا رکھے ۔ اور پھر چلی گئیں۔ ضمناً عرض کرتا چلوں۔ آج کی نوجوان نسل دعا کے تقدس کو بھی پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے، انتہائی دکھ اور شرم و ندامت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ مہینوں سے ایک سے زائد بچوں کے فونوں پر میں نے سنا ہے ۔ کچھ لڑکیاں دعا کر رہی ہیں۔ اے اللہ ہمارے والدین کو نیک توفیق عطا فرما ، انہیں ہماری معصوم محبت نظر نہیں آتی ۔ ان کی آنکھیں کھول دے اور ہماری محبت کو سمھنے کی صلاحیت دے ، اے اللہ والدین کرائیں تو شادی اور ہم کریں تو بربادی ، یہ کہاں کا انصاف ہے مولا۔ ہر لڑکی کے دل میں اپنے جیون ساتھی کو چننے کی تمنا ہوتی ہے ۔ ہمیں بھی اچھا جیون ساتھی دلادے اور جنہیں مل گیا ہے انہیں جلد سے جلد ملادے ۔ اے اللہ ہماری آرزوؤں اور ارمانوں کے بیچ ہمارے ماں باپ ، بہن بھائی ، رشتہ دار اور سماج کے لوگ حائل ہیں۔ سب کے بندھنوں سے ہمیں آزاد کردے اورہماری محبت کو کامیاب فرما ۔ کچھ اور لڑ کیاں ہنستے ہوئے آمین آمین کہتی ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں کچھ لڑکے اس طرح دعا کر رہے ہیں۔ ’’اے اللہ ہم دال کھانا، بھینڈی آلو کھا کھاکر تھک گئے ہیں ، ہمیں بریانی نصیب فرما ۔ نہاری پایوں کا اب دور نہیں رہا ، ہمیں چکن تندوری اور مٹن فرائی کھلادے۔ اے اللہ حلق تک کھاکر ڈکاریں لینے والوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارا بھی دل ترستا ہے، ہمیں بھی مرغ وہاں کھاکر ڈکاریں لینے والا بنادے ۔ پانی کے گھونٹ سے یہ سادہ کھانا نہیںکھایا جاتا ، ہمیں اچھی اچھی غذائیں کولڈ رنک کے گھونٹوں سے کھانا نصیب فرما اور کچھ لڑکے ہنستے ہوئے آمین آمین کہتے ہیں۔

ذرا سوچئے ! ہماری نوجوان نسل گمراہی ، ضلالت وجہالت کے دلدل میں کس طرح پھنستی چلی جارہی ہے ۔ فیس بک اور واٹس اپ میں دن رات مشغول رہنے والے نت نئے پیچیدہ فقہی و دینی مسائل ایک دوسرے کو پوسٹ کر رہے ہیں جن میں وضو اور طہارت کی سنتیں اور فرائض کا پتہ نہیں وہ عالمانہ بحث مباحثہ میں مصروف ہیں۔ خیر چھوڑیئے ۔ امت کے ان لوگوں پر رونے سے کیا فائدہ ۔ اللہ پاک انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم تربیت بھی نصیب فرمائے ۔ بات چل رہی تھی امی جان کی اور یہ کہاں سے آگئے کواب میں ہڈی۔
ایک دفعہ ہم لوگ ہوم ورک کرنے میں مگن تھے ۔ ہوم ورک زیادہ اور وقت کم تھا ۔ امی نے آواز لگائی ہم حاضر ہوئے تو کہا کہ سامنے والی آنٹی بلا رہی ہیں، ان کے گھر کوئی مردانہ نہیںہے ۔ ا نہیں میڈیکل سے کچھ دوائی اور سودا سلف لاکر دینا ہے۔ لاکر دیدو ۔ ایک مرتبہ ایک چھوٹی بچی آئی اورکہاکہ ہمیں فلاں جگہ کا رکشہ لاکر دیدو، امی جیسا جذبہ خدمت خلق ہمیں کہاں نصیب ہوگا ۔ ہم نے عذر جتادیا کہ ہمیں فرصت نہیں ۔ بہت پڑھائی کرنی ہے ، کچھ دیر بعد امی کو پتہ چلا تو بہت غصہ کیا اور دوڑایا کہ جاکر دیکھو اور پوچھو کہ رکشہ ملا کہ نہیں ۔ اگر نہیں ملا تو لاکر دو۔ ایک بار ہم اسکول سے تھکے ماندے گھر آئے تو امی نے ہمارا گرمجوشانہ استقبال کیا ۔ ہمیں پتہ تھا کہ آج ضرور کوئی کام لگنے والا ہے ۔ امی نے کہا جلد ہاتھ منہ دھولو کھانا تیار ہے اور دیکھو سامنے کی گھی والوں کے یہاں آج نل نہیں آیا ۔ بیچارے میٹھے پانی کیلئے پریشان ہیں ۔ کچھ پانی کے گھڑے بھر کے رکھی ہوں ۔ تم لوگ انہیں پہونچادو۔ ہم لوگوںنے آنا کانی کی تو پہلے پیار سے سمجھایا پھرغصہ سے کہا کہ تم لوگ اگر نہیں پہونچائے تومیں خود لیجاکر دوں گی ۔ اب انکار کی کہاں مجال تھی ۔ ہمارے گھر جب کوئی مہمان آتے اور اوڑھنے بچھونے کی قلت ہوتی توامی پہلے اپنا تکیہ اور کمبل انہیں دے دیتی تھیں۔ پھر مزید ضرورت پڑے تو ہمیں بھی ترغیب دیتیں کہ مہمان ایک دو دن کے ہیں اگر ہم کچھ تکلیف اٹھالیں گے تو کیا ہوگا۔ مہمان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرنا چاہئے ۔ امی ہمیں اکثر نصیحت آمیز قصے کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ یہ بات ہمارے اسکولی دوست احباب کو بھی معلوم تھی اور سبھی فرمائش کر کے کہانیاں سننے آیا کرتے ۔ ایک بار امی نے کہا ایک عورت اپنے بچے کے بارے میں بہت پریشان تھی ۔ اس کا بچہ میٹھا بہت زیادہ کھانا تھا ۔ لاکھ سمجھانے پربھی نہیں مانتا۔ وہعورت اپنے بچے کو ایک بزرگ کے پاس لے گئی اور درخواست کی کہ حضرت میرے بچے کو سمجھایئے کہ میٹھا زیادہ کھانے کا کیا نقصان ہے۔
حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے اماں ، ایک ہفتہ کے بعد آؤ ۔ وہ عورت بزرگ کا بہت احترام کرتی تھی ۔ یہ بھی نہیں پوچھا کہ ا یک ہفتہ بعد کیوں آؤں ، چپ چاپ چلی گئی ۔ آخر کار ایک ہفتہ بیت گیا ۔وہ عورت پھر سے اپنے بچے کو لیکر حضرت کی خدت میں پہونچی۔ تب حضرت نے بچے سے کہا ۔ دیکھو بیٹے۔ کسی بھی چیز کا کثرت سے استعمال نقصان دہ ہے ۔ میٹھا کھانا کم کردو۔ کردو گے نا بیٹے …؟ بچہ راضی ہوگیا۔ عورت نے حضرت سے پوچھا آٖ نے اس ایک جملہ نصیحت کیلئے ایک ہفتہ کا وقت کیوں لیا ۔ حضرت نے جواباً فرمایا ۔ دیکھو ماں ۔ میں خود میٹھا کھاتا ہوں ۔ اس لئے میں نے ایک ہفتہ تک اس کا پرہیز کیا اور اب بچے کو پابند کر رہا ہوں ۔ دراصل نصیحت کا اثر تب ہی ہوتا ہے جب خود اس پر عمل کر یں۔
(سلسلہ صفحہ 6 پر)