غضنفر علی خان
شرم آتی ہے کہ آج ہمارے ملک میں کتنی معصوم بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر اور اس کے بعد ان کے دردناک قتل کے واقعات ہورہے ہیں۔ کٹھوا ، اناوا اور تازہ ترین واقعہ ایٹاہ میں ہوا۔ ابھی تک تو بالغ لڑکیوں کیساتھ زبردستی منہ کالا کرنے کے واقعات سننے میں آتے تھے، اب معصوم اور نابالغ لرکیوں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ ، شیطانی فعل بڑھ رہا ہے۔ آج کے ہندوستان میں زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا بینکوں کو دھوکہ دینا، کروڑ ہا روپئے کا گھپلا کر کے ملک چھوڑ کر بھاگ جانا تو عام بات تھی لیکن آج پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں اسکول جانے والے بچوں اور بچیوں کی زندگی اور انا کی عزت و آبرو بھی خطرہ میں ہے۔ صرف خطرہ میں نہیں ہے بلکہ بدکاری کے بعد انہیں ماردیا جاتا ہے ۔ آج تک جتنے معصوموں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے ان کے والدین روتے ، سسکتے ، بلبلاتے پھر رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ان کے لڑکے یا لڑکیوں کی خون میں لت پت نعشیں ہی ان کی وراثت ہے۔ جب سے بی جے پی اقتدار پر آئی ہے ایسے ہولناک واقعات کا ایک سلسلہ ہے کہ چل پڑا ہے۔ اقوام عالم میں ہندوستان کا امیج گرتا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی زنا اور قتل کے ان پے در پے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کو صرف اقتدار عزیز ہے۔ باقی رہا سوال ملک و قوم کا تو بی جے پی حکومت کا رویہ یہ ہے کہ ’’سب جائیں چولہے بھاڑ میں ‘‘ ہم تو اقتدار پر رہیں گے۔ کبھی حکومت نے کسی واقعہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اپنی چھان بین وہی سی بی آئی سے تحقیقات، وہی غم زدہ خاندانوں کو چند لاکھ روپئے کا معاوضہ دینا بہت ہوا تو کوئی تحقیقاتی کمیشن بٹھانا اس سے بڑھ کر آج تک اتنے واقعات کے باوجود مودی حکومت نے کبھی آگے قدم نہیں بڑھایا ۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ ایسے شرمناک واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں ہورہے ہیں جہاں بی جے پی حکمراں ہے یا بی جے پی شریک حکومت ہے ، جس کی تازہ مثال کٹھوا جموں و کشمیر سے ملتی ہے۔ یہاں آصفہ نامی لڑکی کو مندر میں بند رکھ کر متعدد بار اس کی عزت لوٹی گئی ۔ یہ آٹھ سالہ لڑکی بھلا کیا جانے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ کئی دنوں تک حبس بیجا میں رکھ کر اسے انتہائی اذیتناک موت دی گئی ۔ اپنی تحقیقات وہی بعض ریاستی وزراء کے استعفے لیکن جس کی گود اجڑنی تھی وہ تو اجڑگئی ، لڑکی کے ماں باپ کس سے فریاد کریں ، کس کے آگے گڑگڑائیں کہ ان کی چہیتی بیٹی کا ظالموں نے کیا حشر کیا ۔ اناو (یو پی میں) بھی دردناک واقعہ ہوا۔ ابھی عوام اس صدمہ سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ اترپردیش ہی کے ایٹاہ شہر میں ایک 7 سالہ لڑکی کی اذیت ناک موت اور آبرویزی کا واقعہ پیش آیا جس میں شادی کی تقریب میں شامیانہ لگانے والے ایک مزدور نے اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کو کسی غیر آباد مقام پر لے جاکر پہلے اس سے منہ کالا کیا اور بعد میں رسی سے اس کا گلا گھونٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یہاں بھی وہی ہوا ہے ، وہی کارروائی ، وہی پولیس کی چھان بین ، وہی میڈیا میں سنسنی خیز انکشافات ، وہی بریکنگ نیوز لیکن لڑکی کے ماں باپ تو اپنا سب کچھ کھوچکے ان کی زندگی بھرکی پونچی لوٹ لی گئی ۔ ایٹاہ اور فرخ آباد میں ہنگامہ ہوا اور معاوضہ کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہمارے ہندوستان میں جان کی قیمت مقرر ہوگئی ہے ۔
ہر جرم کیلئے یہاں رقم مختص کردی گئی ہے ۔ وہ دن بھی شاید مودی حکومت میں ہمیں دیکھنا پڑے گا جبکہ قتل کی قیمت بطور معاوضہ ادا کر کے حکومت اپنا دامن بچائے گی ۔ آج کے ہندوستان میں کوئی جرم کوئی گناہ برا نہیں سمجھا جارہا ہے ۔ آج ہندوستان میں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوئی حکومت نہیں کوئی اقتدار رکھنے والا نہیں ہے ۔ یہ معصوم بچیوں کے ساتھ منہ کالا کرنے والوں، معصوم اسکول کے بچوں کا دن کے اجالے میں قتل کرنے والے چلتی بس میں آبرو لوٹنے والوں کا دیش بن گیا ہے ۔ بی جے پی تو بڑے فخر کے ساتھ اقتدار پر آئی تھی ۔ اس کے بڑے بلند بانگ دعوے تھے ۔ کرپشن کو ختم کرنے کا عہد کیا گیا تھا ۔ کرپشن نہ صرف جاری ہے بلکہ پورے حوصلہ اور تسلسل سے جاری ہے۔ کہیں اس کے ختم ہونے کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ مودی جی نے کہا تھا کہ ’’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘‘ نہ کھانے کی بات پر اس لئے زور دینا فضول ہے کہ کسی ملک کے وزیراعظم کا پاک و صاف ہونا اتنی بڑی بات نہیں ہوتی جتنی اہم اور بڑی بات سارے ملک ، ساری ملک کے پاک و صاف اور دیانت دار ہونے کی بات ہوتی ہے ۔ اکیلے مودی جی اگر دودھ کے دھلے ہوں بھی تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی حکومت میں شامل تمام لوگ اس طرح ہوں گے ۔ لہذا ’’میں نہ کھاؤں گا ‘‘ کا نعرہ اسی طرح کھوکھلا ہے جس طرح وزیراعظم کا ایک اور نعرہ ’’بیٹی بچاؤ‘‘ ہے۔ مودی جی کے دور میں تو ملک کی بیٹیاں سب سے زیادہ برآبرو ہوگئیں ہیں۔ سب سے زیادہ خطرات تو ان ہی کو لاحق ہے۔ پہلے والدین اپنی بالغ لڑکیوں کی عزت اور نیک نامی کیلئے فکر مند رہا کرتی تھیں۔ اب ہائے مودی جی آپ کے دور میں تو ہر گھر کی معصوم اور کھلونوں سے بہلنے والی بیٹی کو یہ تک نہیں معلوم کہ کب کہاں اور کیوں اس کے ساتھ ایسی زیادتی ہوئی اور اس کے بعد انہیں جہاں بدکاری ہوئی ہو اس کو موت کے گھاٹ اتارا جائے گا ۔ محض مودی صاحب ایک چاکلیٹ کے لئے لڑکی اپنی زندگی کھودیتی ہے ۔ آج کے ہندوستان میں سچ تو یہ ہے کہ کوئی حکومت نہیں ہے ، یہاں صرف جنگل راج ہے ۔
بہو بیٹیوں ماؤں اور بہنوں کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اب بی جے پی حکومت کے دور میں سبھی نہ سہی کچھ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دیش کی بیٹیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جانا چاہئے ۔ یہ اس لئے ہوگیا ہے کہ آج قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ہی قانون کی پاسداری نہیں رکھتیں۔ آج کی حکومت کے دور میں اثر رکھنے والے ہر بڑے مجرم کو جیل میں وی آئی پی سہولتیں فراہم ہوتی ہیں اور ہر غریب کو ہی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ آج جرم کے زمرے Catagories بن گئے ہیں۔ یہاں قاتل جرم بھی وجود میں آگئے ہیں ، پھر انصاف کیسے ہوگا اور کون کرے گا ۔ دن بدن یہ احساس زور پکڑتا جارہاہے کہ ملک میں اس وقت کوئی حکو مت نہیں ہے ۔ وزیراعظم خود کو ہندوستان کا پردھان منتری سے زیادہ ایک عالمی لیڈر سمجھنے لگے ہیں ، وہ اوسطاً مہینے میں صرف 10 دن ہندوستان میں رہتے ہیں یا ملک کے مسائل پر غور و فکر کی انہیں توفیق ہوتی ہے۔ ملک میں کیسے کیسے واقعات ہورہے ہیں ، کیسے معصوم بچیوں کے قتل عبث واقعات ہورہے ہیں،انہیں اس سے کیا لینا دینا ہے۔ اپنے لاڈلے کو یو پی کا چیف منسٹر بنادیا اور اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں ان کے چہیتے یوگی ادتیہ ناتھ چیف منسٹر ہیں تو کس کی کیا مجال کہ کوئی جرم کرسکے۔ حالانکہ یہی یوگی ادتیہ ناتھ کا اترپردیش ہے کہ جہاں ے سے دردناک واقعات ہورہے ہیں جس پر سارے ملک میں احتجاج ہورہے ہیں۔ ایک آگ ہے کہ آہستہ آہستہ دہک رہی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب کہاں اور کیسے یہ آگ دھم سے دھماکہ بن کر پھیل جائے اور بی جے پی کا یا زیادہ صحیح بات تو یہ ہے کہ مودی جی کا سیاسی بھرم اس آگ میں بھسم ہوجائے۔