اوباما دورہ کے درپردہ مقاصد
دہلی میں اروند کجریوال کو سبقت
رشیدالدین
ہندوستان میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے قیام کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی راہ میں کچھ زیادہ ہی پیشرفت دیکھی جارہی ہے۔ وہ امریکہ جس نے گجرات فسادات کے پس منظر میں مودی کو ویزا دینے سے انکار کیا تھا، وزیراعظم بنتے ہی مودی کی تعریف میں پل باندھنے لگا ہے۔ نریندر مودی جو ویزا سے انکار کے مسئلہ پر امریکہ سے ناراض دکھائی دے رہے تھے، کرسی سنبھالتے ہی امریکہ اور اس کے صدر بارک اوباما پر وارے نیارے ہونے لگے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں 4 ماہ کا وقفہ اہمیت کا حامل رہا۔ 2002 ء گجرات فسادات کے بعد سے نریندر مودی اور امریکہ کہ درمیان دوریاں 12 برس تک برقرار رہیں لیکن اقتدار سنبھالتے ہی 4 ماہ میں مودی امریکہ پہنچ گئے۔ 26 مئی کو اقتدار سنبھالنے کے 4 ماہ بعد ستمبر میں نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا اور اس کے ٹھیک 4 ماہ بعد یوم جمہوریہ تقاریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بارک اوباما ہندوستان آئے۔ الغرض برسوں کی دوری چند ماہ میں قربت میں بدل گئی۔ ظاہر ہے کہ جب تک دونوں ممالک کے مفادات یکساں نوعیت کے نہ ہوں ، اس وقت تک قربت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علمبردار کی طرح مودی کے امریکہ میں داخلہ پر امتناع عائد کرنے والا ملک آخر کیا بات ہوگئی کہ مودی کے ویژن کی ستائش پر مجبور ہوچکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس کو کس کی ضرورت ہے ؟ دوستی اور تعلقات میں استحکام کیا دونوں کی مجبوری ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب امریکہ سے قربت اور دوستی کسی ملک کیلئے منافع کا سودا ہوا کرتی تھی ۔
اب ہندوستان دنیا بھر میں ایک بڑی طاقت کے طور پر تیزی سے ابھر رہا ہے اور خود ساختہ عالمی طاقتوں کی نظریں ہندوستان پر ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکہ سمیت دوسری طاقتوں کیلئے ہندوستان سے دوستی ان ممالک کے مفاد میں ہے۔ معاشی ، تجارتی شعبوں میں ترقی کے علاوہ سائنس و ٹکنالوجی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں ہندوستانیوں نے جس طرح اپنی صلاحیت و قابلیت کا لوہا منوایا ، امریکہ کو مجبور کردیا کہ ابھرتی مضبوط معیشت کا دامن تھام لے تاکہ اپنے اقتصادی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ یوم جمہوریہ کی تقاریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرنے والے بارک اوباما پہلے امریکی صدر ہیں اور ان کی آمد خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ہندوستان کی تائید حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب وہ دن نہیں رہے جب ہندوستان میں امریکی اداروں کی سرمایہ کاری کا انتظار کیا جائے بلکہ اب تو ہندوستانی کمپنیاں امریکہ میں سرمایہ کاری کے موقف میں ہیں اور امریکی نظم و نسق ہندوستانی کمپنیوں کیلئے ریڈ کارپٹ استقبال کیلئے بے چین ہے۔
گزشتہ دنوں ہندوستان کے ایک سفارت کار نے جو امریکہ میں اہم سفارتی عہدہ پر ہیں، ملاقات میں بتایا کہ اب ہند۔امریکہ دوستی کا معاملہ یکطرفہ نہیں رہا بلکہ لو اور دو کا معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی ادارے امریکی شہروں میں سرمایہ کاری کے ذریعہ روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں اور امریکی معیشت کے استحکام میں ان کا اہم رول ہے۔ امریکہ کی ترقی میں ہندوستانی ٹیلنٹ کی اہم حصہ داری کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس پس منظر میں اوباما کی جانب سے مودی کے دعوت نامہ کو فوری قبول کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہندوستانی ٹیلنٹ کی آج دنیا بھر میں مانگ ہے اور ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستانی ٹیلنٹ (ذہانت) نے اپنی پہچان بنائی، اس کا سہرا اصلاحات کے اس عمل کو جاتا ہے ، جس کا آغاز ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیر فینانس کی حیثیت سے کیا تھا اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے 10 برسوں تک اسے آگے بڑھایا ۔ منموہن سنگھ کی شروع کردہ اصلاحات کے ثمرات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ نریندر مودی کا کارنامہ نہیں، جس طرح کہ بی جے پی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ علاقہ میں ہندوستان کی مدد سے اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے 4 ماہ میں اوباما اس قدر پر جوش ہیں کہ انہوں نے نریندر مودی کے ساتھ ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘ میں شرکت سے اتفاق کرلیا۔
ریڈیو پر مودی کے ساتھ آکر وہ دور دراز علاقوں اور دیہی عوام تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مواصلات کی ترقی کے اس دور میں امریکی صدر کے ریڈیو پر ماہانہ خطاب کی روایت ابھی بھی برقرار ہے جسے نریندر مودی نے اختیار کیا ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ علاقہ میں چین کو بے اثر کرنا چاہتا ہے اور مودی کی آؤ بھگت اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح ہندوستان کو بھی حلیفوں کی صف میں کھڑا کردیں۔ ہندوستان کو اپنا ہمنوا بناکر چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندوستان کو امریکہ کی اس چال سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔ امریکہ کے مقاصد کی تکمیل میں آلہ کار بننے کے بجائے اسے غیر جانبدار پالیسی پر گامزن رہنا چاہئے جوکہ ہندوستان کی روایت رہی۔ ہندوستان کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے حشر سے سبق لے۔ کس طرح امریکہ نے پاکستان کو ضرورت کے تحت استعمال کر کے چھوڑ دیا ۔ امریکہ سے دوستی کے بدلے پاکستان کو عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ امریکہ اور چین کی محاذ آرائی میں ہندوستان کو فریق بننے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہندوستان اگر یہ تصور کر رہا ہے کہ امریکہ سے دوستی پاکستان پر اثر انداز ہونے میں مددگار ثابت ہوگی تو یہ اس کی بھول ہے۔ امریکہ سے دوستانہ باہمی تعاون ترقی کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ملک کے اقتدار اعلیٰ کو گروی رکھنے اور علاقائی یکجہتی پر سودے بازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اوباما اپنی دوسری میعاد کے اختتام سے قبل عوامی مقبولیت کھونے لگے ہیں۔ وہ کسی بھی طرح نریندر مودی کیلئے فائدہ مند نہیں ہوسکتے ۔
دوسری طرف دہلی میں انتخابات کیلئے عوامی فیصلہ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے ، اہم سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم پر ساری طاقت جھونک دی۔ 49 روزہ حکومت کے بعد اقتدار چھوڑنے والی عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال سے مقابلہ کیلئے بی جے پی پارٹی میں کوئی معتبر اور عوام کیلئے قابل قبول چہرہ نہیں مل سکا۔ لہذا انا ہزارے ٹیم سے تعلق رکھنے والی کرن بیدی کو میدان میں اتارا گیا ۔ بی جے پی میں دہلی کی سطح پر صاف ستھرے کردار کے حامل افراد کی کمی صاف طورپر دکھائی دے رہی ہے اور دہلی کے رائے دہندے بھی بی جے پی کی پریشانی سمجھ چکے ہیں۔ پارٹی کی بے بسی اور مجبوری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ کل تک پارٹی ، پالیسیوں اور قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے والی سابق آئی پی ایس عہدیدار کو نہ صرف پارٹی میں شامل کیا گیا بلکہ دوسرے ہی دن چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر اعلان کیا گیا۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد مختلف ریاستوں میں مودی مقبولیت کی لہر پر الیکشن لڑنے والی بی جے پی دراصل دہلی میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔ اس لئے کرن بیدی کو آگے کردیا گیا۔ اگر جیت ہو تو مودی کے نام اور ہار ہو تو شکست کا ٹوکرا کرن بیدی کے سر ہوگا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ کرن بیدی کے نام کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی منظر یکطرفہ ہوجائے گا
اور عوام والہانہ استقبال کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کرن بیدی کو مایوسی ہاتھ لگی۔ اس مایوسی کو کامیابی میں بدلنے کیلئے کرن بیدی نے انتخابی مہم کو زعفرانی رنگ دیدیا۔ آر ایس ایس کو قوم پرست تنظیم اور ملک کو متحد رکھنے کی ذمہ دار قرار دینا، مجاہد آزادی لالہ لاجپت رائے کے مجسمہ کو بی جے پی کا کھنڈوا پہنانا دراصل مخصوص طبقہ کے ووٹ متحد کرنے کی کوشش ہے۔ انتخابی مہم کے پہلے مرحلہ میں عام آدمی پارٹی کا پلڑا بھاری ہے اور اوپنین پول اروند کجریوال کے حق میں منظر عام پر آئے ہیں۔ بی جے پی داخلی مسائل کا شکار ہے جبکہ کانگریس نے دہلی میں واپسی کیلئے اجئے ماکن کی صورت میں طاقت جھونک دی ہے۔ اروند کجریوال کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ کسی بڑے قائد حتیٰ کہ کرن بیدی نے ان سے راست مقابلہ کی جرات نہیں کی اور بی جے پی کے ایک مضبوط گڑھ سے بیدی نے مقابلہ کو ترجیح دی۔ اس کے برخلاف سیاسی میدان میں نووارد ہونے کے باوجود کجریوال نے 15 برس کی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے انہیں شکست دی تھی۔ کجریوال سے مقابلہ کیلئے کوئی اہم قائد تیار نہیں تھا لہذا بی جے پی اور کانگریس نے غیر معروف امیدواروں کو میدان میں اتارا۔
بی جے پی نے کجریوال سے مقابلہ کیلئے پہلے کرن بیدی اور پھر شاذیہ علمی کا نام آگے کیا تھا لیکن کسی میں مقابلہ کا حوصلہ نہیں تھا لہذا اب بی جے پی عزت بچاؤ مہم پر ہے۔ مبصرین کے مطابق ابتدائی رجحانات سے بی جے پی کیلئے گزشتہ کی تمام نشستوں کو بچا پانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ اروند کجریوال عوامی مسائل کی بنیاد پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ان کی شبیہہ عوام میں ایسی ہی ہے جیسا کہ ان کی پارٹی کا نام ہے۔ عوامی سطح پر ان کی مقبولیت کا فائدہ ضرور عام آدمی پارٹی کو ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے لئے دہلی کے انتخابات ایسڈ ٹسٹ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آئندہ دو برسوں میں اسے اترپردیش ، بہار جیسی بڑی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا سامنا ہے۔ جموں و کشمیر میں تشکیل حکومت کے خواب کے بکھرجانے سے بی جے پی کو دھکا لگا اور وہ دہلی کے چناؤ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، اس نے چیف منسٹر کے چہرے کیلئے انا ٹیم کے فرد کو حاصل کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انا ہزارے دراصل اپنی ٹیم میں بی جے پی کے ہمدرد تیار کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیم سے وابستہ ایک اہم شخصیت نے انکشاف کیا کہ کرپشن کے خلاف جدوجہد کے دوران انا ہزارے نے ساتھیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ بی جے پی کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کریں۔ دہلی کی صورتحال پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
کرے بھی کوئی تو اب کس پہ اعتبار کرے
کسی زباں پہ کوئی حرف معتبر ہی نہیں