کریم نگر سے متعلق چیف منسٹر کے صرف اعلانات

کریم نگر ۔ 6 اکتوبر (سید محی الدین) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مستقر ضلع کریم نگر اور اس کے کئی منڈلس میں منعقدہ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ضلع کریم نگر سے بے حد لگاؤ ہے۔ ضلع کے عوام کے ان (کے سی آر) پر احسانات ہیں۔ چیف منسٹر نے ریاست میں ضلع کریم نگر کو ایک مثالی ضلع بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ کے سی آر نے کہا تھا کہ وہ کریم نگر کے عوام کے احسانات کے تلے دبے ہوئے ہیں اور اگر میری کھال کے جوتے بناکر عوام کو پہنادوں تب بھی احسان ادا نہ ہوگا۔ چیف منسٹر نے ضلع کلکٹریٹ میں عہدیادروں کے ساتھ جائزہ اجلاس کے دوران میڈیا نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے شہر کریم نگر کو ریاست کا خوبصورت ترین ضلع بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ مانیر ڈیم کو برنداون گارڈن کی طرز پر خوبصورت بنانے کا تیقن دیا تھا اور یہاں ایک تیرتا ہوا ہوٹل بنانے کا تیقن بھی دیا تھا۔ یہاں مقدس منادر اور قلعوں کی تزئین نو کرتے ہوئے ضلع کو خوبصورت بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا، تاہم ٹی آر ایس کو برسراقتدار آئے 16 ماہ کا عرصہ بیت چکاک ہے، لیکن چیف منسٹر نے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔ آج شہر میں کریم نگر کی کوئی سڑک بہتر ہے نہ کوئی گلی بڑے بس اسٹانڈ سے نکلنے کے بعد کوئی بس شیلٹر نہیں ہے، مسافرین کو بارش اور دھوپ سے بچنے کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے۔ شہر میں بڑے کارپوریٹ دواخانے تو ہیں یہاں مریض ٹھیک تو ہوجاتا ہے تاہم دواخانہ سے نکلنے پر مریض کی مالی حالت خراب ہوجاتی ہے۔ ضلع کریم نگر کے سرکاری دواخانوں کو حیدرآباد کے نمس دواخانہ کے طرز پر ترقی دینے کے سی آر نے وعدہ کیا تھا تاہم ان سرکاری دواخانوں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ ان دواخانوں میں کئی امراض کے ڈاکٹرس نہیں ہیں، کوئی عصری سہولتیں ہیں۔ گندگی کے ڈھیر یہاں دکھائی دیتے ہیں۔ مخلوعہ جائیدادیں پر نہیں کی جارہی ہیں۔ سرکاری دواخانہ کا ضلع پریشد چیرپرسن بورڈ کی صدر اور ضلع کلکٹر نے دورہ کئے تاہم دواخانہ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ شہر کریم نگر کے کئی ڈیویژنس میں بڑے شاپنگ مالس، شاپنگ سنٹرس، کئی اونچی اونچی عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں، لیکن پارکنگ کا انتظام نہیں جہاں پر موٹر سائیکلوں، کاروں کو کھڑا کیا جاسکے جس کے سبب عوام کو بھاری جرمانے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوک ستہ کی جانب سے پارکنگ کامپلیکس کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم بے سود، ترکاری، گوشت مارکٹ، میں صفائی کا انتظام نہیں ہونے سے یہاں بدبو پھیلی رہتی ہے۔ بلدیہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہوچکا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مقامی رکن اسمبلی، رکن پارلیمنٹ، میر بلدیہ اور دیگر برسراقتدار قائدین کے بیانات، اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن عمل کچھ بھی نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی انجام ہی کیوں نہیں کی جارہی ہے۔