غضنفر علی خان
جنوبی ہندوستان کے انتخابات میں عوام نے منقسم کسی بھی پارٹی کو حکومت بنانے کا حق نہیں دیا۔ یہاں کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ آئندہ بھی نہ صرف جنوبی ہندوستان بلکہ سارے ہندوستان میں ووٹرس اب کسی ایک پارٹی کو اقتدار نہیں سونپیں گے۔ حالیہ انتخابات میں کسی پارٹی کو حکومت سازی کا یکا و تنہا مستحق نہیں سمجھا۔ کانگریس نے ساری طاقت لگادی۔ پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے سینکڑوں مرتبہ یہ کوشش کی کہ یہاں پر ووٹوں کی تقسیم نہ ہو۔ کانگریس پارٹی ملک میں سیکولر طاقتوں کو متحد کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور 224 رکنی اسمبلی میں 78 سیٹوں پر قبضہ کیا۔ اس سے پہلے ہوئے چناؤ میں کانگریس پارٹی نے وہاں استعمال کردہ ووٹوں میں سے 38 فیصد ووٹ حاصل کئے اور اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ استعمال ہونے والے ووٹ میں یہ حکومت بنانے کے لئے کافی ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی اگر ہوتی تو وہ کچھ کرپاتی۔ کانگریس پارٹی کے اس غیر مؤثر انداز نے ریاست کے عوام کو ایک انتہائی عجیب و غریب کیفیت کا شکار بنادیا۔ راہول گاندھی کی یہ کوشش تھی اپنے ہر بیان میں اپنی ہر تقریر میں وزیراعظم مودی کی ناقص کارکردگی ہی کو نشانہ بناتے رہے۔ 1977 ء میں بھی یہی صورتحال تھی۔ کانگریس پارٹی کی باگ ڈور گاندھی کو دیدی۔ دوسری طرف اب بی جے پی کے پاس ایک ایسا لیڈر مودی ہے جو وزیراعظم بننے سے پہلے بھی کانگریس پارٹی سے آزاد ایک نئے ہندوستان بنانے اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور اپنی چرب زبانی سے انتخابی مہم چلاتا رہا۔ اب کرناٹک میں مہم کے دوران کانگریس پارٹی نے بی جے پی کو نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں کی کیوں کہ عوام کو اپنی جانب رجوع کرنے کے ئے صرف مودی پر تنقید کافی نہیں ہوتی۔ راہول گاندھی نے کبھی اپنی پارٹی کے کارناموں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ فی الواقعی کانگریس پارٹی نے اپنے سارے عیوب کو چھپائے رکھنے کی کوشش کی۔ 1977 ء میں انتخابات میں کامیاب نئی تشکیل شدہ جنتا پارٹی نے بھی یہ غلطی کی تھی۔ متعدد بار صرف اندرا جی کی ناکامیوں پر زور دیا۔ شاہ کمیشن کی تشکیل کے سوا اخباروں میں کانگریس پارٹی اور حکومت کو گویا اپنا ہتھیار سنبھال لیا تھا۔ اندرا جی کو رسوا کرنے کی اس مہم میں جنتادل کے ہر بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے بیان بازی کا ذریعہ بنالیا تھا۔ لیکن تنقیدوں نے اندرا گاندھی کو پھر مقبول لیڈر بنادیا چنانچہ اس کے بعد ہوئے چناؤ میں سیاسی طور پر عوام کے اپنی جانب رجوع ہونے کا کانگریس پارٹی کو احساس ہوا اور اس کے بعد جو انتخابات میں اندرا گاندھی پھر سے ملک کے سیاسی اُفق پر چھاگئیں۔ اب بھی وہی روش اور گھسی پٹی ٹکٹک نے کانگریس پارٹی کو کرناٹک میں جہاں وہ برسر اقتدار تھی مودی کے خلاف مہم نے مودی جی کو فائدہ پہنچایا اور 104 سیٹوں پر وہ حکومت سازی کے موقف میں آگئے۔ اگرچیکہ مودی کی بی جے پی پوری طرح اقتدار پر قابض نہ ہوسکی تو کیا اس کا موقف کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران واقعی اثر انداز ہوا۔ یہ سوچنا چاہئے کہ آیا بی جے پی کو اس موقف میں لانے کانگریس پارٹی کی اپنی غلطیوں کا بہت زیادہ حصہ تو نہیں ہے۔ سیاست میں ہر وقت کوئی فیصلہ کرنے میں تاخیر سیاست کی بساط پر کسی کو لانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانے میں کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت ناکام رہی۔ دوسروں کی بُرائی کرنے سے زیادہ بہتر بات یہ ہوتی کہ بی جے پی کی کارکردگی ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ اب کرناٹک میں خود اپنی کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اس طرح کی غلطیوں کا اثر تھا کہ اسمبلی چناؤ میں کانگریس کی ہار کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان چناؤ کو ٹی وی چیانلس اور کانگریس لیڈرس نے اتنی اہمیت دی کہ عوام نے کانگریس کو دوسری بڑی پارٹی بنادیا۔ ان انتخابات صرف کانگریس پارٹی پرہی نہیں بلکہ ملک کی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ کرناٹک میں خواہ کوئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے سیاست کی بساط کو بھی اُلٹ پلٹ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کانگریس اور دیگر پارٹیاں یہ سمجھ لیں اب صرف نعرہ بازی یا دوسرے کی خامیوں کو بیان کرکے انتخابات نہیں جیتے جاتے۔ بی جے پی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شخصیتوں کی مقبولیت کو واحد ذریعہ سمجھ لینا بھی کافی نہیں ہے۔ مودی نے اپنی شخصیت کو اس حد تک عوام میں مقبول کردیا۔ دوسری کسی پارٹی میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو پارٹی کو انتخابی مہم میں برسر اقتدار لاسکے۔ مودی جی کو یہ اندازہ نہیں تھا ان کی کوششوں سے وہ کرناٹک میں حکومت کرسکیں گے۔ کانگریس پارٹی کی مہم صرف راہول گاندھی کے لئے سبق آموز بات ہے۔ وہ اپنی صد سالہ پارٹی کو شکست سے نہیں بچاسکے۔ ان نتائج نے پارٹیوں کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ نتائج میں ہر پارٹی کو اپنا ضمیر ٹٹولنے کی دعوت دیتے ہیں۔