محمد ریاض احمد
جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں نوجوان آئی اے ایس آفیسر ڈی کے روی کی مبینہ خودکشی نے اس اہم ترین بلکہ سنگین مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے کہ کرپشن کے خلاف نبردآزما آئی اے ایس عہدیداروں کے ساتھ سیاستداں اور حکومت میں شامل عناصر کس طرح سلوک روا رکھتے ہیں حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ ان بہادر اور دیانتدار عہدیداروں کی زندگیاں بھی چھین لیتے ہیں۔ کرناٹک کے ضلع بنگلوروں میں آئی اے اے آفیسر ڈی کے روی کی نعش ان فلیٹ میں پنکھے سے لٹکتی پائی گئی ۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے لیکن ارکان خاندان اور حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس نوجوان حرکیاتی آئی اے ایس آفیسر کا قتل کیا گیا اس کا جرم صرف یہی تھا کہ وہ رشوت خوری کو قطعی برداشت نہیں کرتے تھے۔ دہلی میں آئی اے ایس حلقوں میں آج کل یہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ حکومتیں اور سیاستداں انہیں ایک مہرہ کی طرح استعمال کرنے کی خواہاں ہوتے ہیں اور جب وہ سیاستدانوں و عہدیداروں کی رشوت خوری بدعنوانی کے خلاف سیسہ پلائی ہوتی دیوار کی طرح ٹھہر جاتے ہیں تو ان کے تبادلے کردیئے جاتے ہیں
اس پر بھی وہ بدعنوان عناصر کا پردہ فاش کرتے ہوئے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں تب انہیں راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یعنی ایسے آئی اے ایس عہدیداروں کو ان کی دیانتداری اور فرض شناسی کی سزاء دی جاتی ہے۔ دہلی کے آئی اے ایس عہدیداروں کے حلقوں میں اس کیفیت کو ’’درمیانی شب کی دستک‘‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ سیول سرونٹس کو ان کی حد میں رکھنے کے لئے تبادلے سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں میں ایک طاقتور ہتھیار ہے اور وہ ہر ہتھیار اس وقت استعمال کرتے ہیں جب غلطی سے کوئی دیانتدار عہدیدار منظر عام پر آجاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک میں رشوت خوری، بدعنوانی اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کا سوال ہے اس کی جڑیں سارے نظام میں اس قدر پھیل گئی ہیں کہ اسے اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہوگیا ہے۔ بدعنوان عناصر اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے ایک طرح سے ہمارے نظام کو نگل لیا ہے اور ڈی کے روی گٹھ جوڑ کا تازہ ترین شکار ہیں۔ اس واقعہ میں ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں کا یکساں موقف ہے۔ کرناٹک میں کانگریس برسر اقتدار ہے۔ بی جے پی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے سی بی آئی تحقیقات پر زور دے رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈی کے روی خود بعض بی جے پی قائدین کی نظروں کا کانٹا بنے ہوئے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ سابق چیف منسٹر یدی یورپا اس فرض شناس آئی اے ایس عہدیدار کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ابتداء میں کانگریس کی ریاستی حکومت نے اس کیس میں سی بی آئی کی مداخلت کی دبے دبے الفاظ میں مخالفت کی جبکہ ریاست سے ہی تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر قانون سدانند گوڑا نے ڈی کے روی کی خودکشی کے واقعہ کی سی بی آئی تحقیقات سے متعلق قانونی رائے حاصل کرنے کا بہانہ بنایا۔ ایک بات ضرور ہے کہ روی کی مشتبہ حالت میں موت نے ریاست کی سدارامیا حکومت کی شبیہہ متاثر کی ہے۔ جس پر صدر کانگریس سونیا گاندھی نے اپنے چیف منسٹر سے اس ضمن میں رپورٹ طلب کی ہے۔ دوسری طرف ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر کا کہنا ہے کہ ڈی کے روی کی موت کو خودکشی کے ایک کیس کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ضلع میں طاقتور لینڈ مافیا کے خلاف سینہ سپر ہوگئے تھے جس کے باعث لینڈ مافیا خوف و دہشت میں مبتلا ہوکر بوکھلاہٹ کا شکار بن گیا تھا۔ اس طرح کے واقعات میں دیانتدار عہدیداروں کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ شاید ڈی کے روی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس عہدیدار کے خیال میں نوجوان آئی اے ایس آفیسر کی مشتبہ حالت میں موت کی آزادانہ تحقیقات کرائی جانی چاہئے تب ہی حقیقت سامنے آسکتی ہے۔ ورنہ قتل کے اس واقعہ کو ایک خودکشی کا واقعہ قرار دے کر اس کی فائل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردی جائے گی۔ ڈی کے روی اپنی موت کے باعث اُن عہدیداروں کی طویل فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے مختلف مافیاؤں کے خلاف سحت موقف اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیاں داؤ پر لگادیں۔ مفادات حاصلہ اپنے ناپاک عزائم اور مفادات کی تکمیل کی خاطر ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں سب سے پہلا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا تبادلہ کردیا جاتا ہے لیکن وہ بدعنوان عناصر کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتے تب ایسے عہدیداوں کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں۔
روی کی طبعی موت، قتل کے بعد نہ صرف کرناٹک بلکہ سارے ملک میں انسداد رشوت ستانی کے میکانزم کو مستحکم بنانے اور بدعنوانیوں کا پردہ فاش کرنے والے عہدیداروں کی شکایات کو ان کے حتمی نتیجہ پر پہنچانے کے عمل کو مضبوط بنانے کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انستداد رشوت ستانی کے لئے مرکز میں جو عہدے تخلیق کئے گئے تھے وہ تمام کے تمام تاحال مخلوعہ ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سنٹرل انفارمیشن کمشنر کا عہدہ بھی خالی ہے۔ اس طرح نئے سنٹرل ویجلنس کمشنر کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔ ہمارے ملک میں دیانتدار آئی اے ایس عہدیداروں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنا عام سی بات ہو گئی ہے۔ ایک نوجوان آئی اے ایس آفیسر اس بارے میں کہتا ہے کہ ملک میں سیاستداں خاص طور پر اقتدار پر فائز عناصر اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر من مانی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے خود اپنی مثال پیش کی اور بتایا کہ چند سال پہلے اس نے انہدامی مہم شروع کی لیکن سیاسی آقاؤں نے اس مہم کو روک دینے کا حکم دیا۔ بنگلور میں واقع اپنی رہائش گاہ پر مشتبہ حالت میں ڈی کے روی کے مردہ پائے جانے کے دو دن بعد ہی پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں اس بات کے اشارے دیئے ہیں کہ ایک دیانتدار عہدیدار کی حیثیت سے مشہور روی ہوسکتا ہے کہ مفادات حاصلہ کی بلیک میلنگ کا شکار بنایا گیا ہو۔ ڈیلی میل میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بنگلور پولیس کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایک نامعلوم شخص نے فون کرتے ہوئے ڈی کے روی کو ایک سی ڈی کے بارے میں بتایا تھا اور یہ سی ڈی پیر کو ان کے دفتر پہنچی تھی۔ پیر کو پولیس کے تحقیقاتی عہدیداروں نے روی کی بیوہ خسر ہنومنتار ایپا، ان کے دوستوں اور رفقاء سے تفصیلی بات چیت کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کو چند لوگوں نے روی کو فون کرتے ہوئے ایک سی ڈی کے بارے میں بتایا تھا جس کے بعد سے وہ غصہ آپے سے باہر ہوگئے تھے۔ پولیس اب فون کرنے والے نامعلوم افراد کی تلاش میں ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اتوار کو روی اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ناگار بھاوی میں واقع اپنے مکان سے کار میں جارہے تھے عین راستے میں کسی نے انہیں فون کیا جس پر روی نے کار روکا اور کچھ فاصلہ پر جاکر بات چیت کی، بات چیت سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ فون کرنے والے کے ساتھ بحث کررہے تھے۔ اس نامعلوم شخص نے اتوار کی شام روی کو پھر فون کیا وہ کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بتایا تھا کہ فون پر انہیں سنگین عواقب و نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پیر کی صبح بھی روی کو ایک فون آیا جس میں بتایا گیا کہ ان کے میز پر ایک سی ڈی پڑی ہوئی ہے اس سی ڈی کا بغور جائزہ لینے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ دفتر سے روانہ ہونے کے بعد روی جو ٹیکس چوری اور ریالٹی فرمس کے خلاف تحقیقات کررہے تھے شام میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ پولیس نے روی کا اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب روی کے خسر کا کہنا ہے کہ ان کے داماد اور بیٹی خوشگوار زندگی گذاررہے تھے ان میں کسی قسم کے اختلافات نہیں تھے بلکہ پولیس کے شبہات صرف اور صرف بکواس ہیں۔ ہنو منتار ایپا نے بعض مفادات حاصلہ کی جانب سے پھیلائی گئی ان افواہوں پر شدید برہمی ظاہر کی جس میں بتایا گیا تھا کہ خاندانی مسائل کے باعث روی نے خودکشی کرلی۔ ہنومنتاراٹپا نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جنتادل (ایس) کے امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کیا تھا لیکن ناکام رہے۔ سابق چیف منسٹر جگدیش شیٹر نے بھی روی کی موت کو خودکشی قرار دینے پر شدید برہمی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آخر آٹوپسی سے پہلے ہی پولیس کسی نتیجہ پر کیسے پہنچ سکتی ہے۔ کرناٹک کی آئی اے ایس آفیسرس اسوسی ایشن نے بھی روی کی مشتبہ حالت میں موت پر شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com