گلبرگہ 26 جولائی (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) صدر انجمن ترقی اُردو گلبرگہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حال ہی میں انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ اور کنڑا اخبار پرجاوانی کے ذریعہ دو سیٹھ ایم ایل ایز کے ساتھ این اے حارث ایم ایل اے نے یہ خبر شائع کرائی کہ اُردو میڈیم سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے حصول میں پریشانی ہوتی ہے اور ان طلبہ کو کنڑا اور انگلش آتی نہیں۔ لہذا اُردو میڈیم مدارس کو کنڑا یا انگلش میڈیم اسکول میں تبدیل کردیا جانا چاہئے۔ ان تینوں ایم ایل ایز (جن کا تعلق ریاستی حکمراں کانگریس پارٹی سے ہے) کا یہ الزام درست نہیں ہے کہ اُردو میڈیم کے طلبہ کو کنڑا اور انگلش نہیں آتی۔ ان حضرات نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ یہ تو صرف مدارس کی بات ہے اس کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو ان نمائندوں کی ذمہ داری میں آتے ہیں۔ تنویر سیٹھ، فیروز سیٹھ اور این اے حارث صاحبان نے کبھی اپنے حلقہ کے اُردو مدارس کے معائنہ کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ان مدارس کا حال جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کرتے تو اُردو مدارس کو کنڑا یا انگلش اسکول میں بدلنے کی تجویز پیش نہیں کرتے۔ انھیں چاہئے کہ وہ اپنے حلقہ کے اردو مدارس کو جائیں اور دیکھیں کہ ان مدارس میں تعلیم کا کیا حال ہے اور ان میں زیرتعلیم بچوں کو کنڑا اور انگلش کیوں نہیں آتی۔ آتی ہے تو کتنی آتی ہے؟ حقیقت خود بخود سامنے آجائے گی۔ ان تینوں ایم ایل ایز سے انجمن ترقی اُردو گلبرگہ نے اپیل کی ہے کہ وہ فوراً اپنے حلقہ کے اردو مدارس کا معائنہ کریں۔ اگر دیکھیں کہ وہاں انگلش اور کنڑا ٹیچرس نہیں ہیں تو ان ٹیچرس کا انتظام کریں۔ فرنیچر نہیں ہے تو فرنیچر فراہم کریں، عمارت اچھی نہیں ہے تو عمارت بنانے میں تعاون کریں۔ یہ شکایتیں اکثر اخباروں میں آتی ہیں کہ بعض مدارس میں طلبہ کافی تعداد میں ہیں مگر اساتذہ کی کمی ہے اور بعض مدارس میں طلبہ کی تعداد کم ہے۔ مگر اساتذہ ضرورت سے زیادہ ہیں۔ اس طرح کی انتظامی اُمور سے متعلق کئی شکایتیں ہیں جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کرنے کے کام تو یہ ہیں۔ مگر کیا کہیں ان ایم ایل ایز کو جو حقیقت جانے بغیر اُلٹی سیدھی تجاویز پیش کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ ایم ایل ایز اس حقیقت سے بھی واقف نہیں کہ حکومت کرناٹک نے جماعت اول سے انگریزی اور کنڑا کو نصاب میں شامل کیا ہے۔ انگلش کی نصابی کتاب اول جماعت سے دی جارہی ہے۔ کنڑا کی کتابیں سوم جماعت سے دی جاتی ہیں۔ اب یہ بات اہم ہے کہ ان مضامین کو پڑھانے کیلئے اساتذہ کا انتظام ہے یا نہیں معلوم کریں۔ اساتذہ کا انتظام ہونے کے باوجود بچے ان دو زبانوں سے محروم ہورہے ہیں تو قصوروار کون ہے؟ معلم یا متعلم؟ اس لئے انجمن ترقی اُردو گلبرگہ کی اپیل ہے کہ منتخبہ عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ اُردو داں عوام بھی اپنے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں۔ اگر تعلیم میں کچھ کمی محسوس ہورہی ہو تو صدر مدرسہ سے ملیں اور ان سے خواہش کریں کہ وہ مدرسہ کے انتظامی اُمور کے ساتھ ساتھ بچوں کی بہتر تعلیم کی جانب بھی توجہ دیں۔ جناب تنویر سیٹھ، فیروز سیٹھ اور این اے حارث کے علاوہ تمام مسلم ایم ایل ایز اور ایم ایل سی سے انجمن کی گذارش ہے کہ وہ اُردو زبان اور اُردو تعلیمی اداروں کے تحفظ اور معیار تعلیم کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ روزگار کے حصول میں اُردو والے جتنا پریشان ہیں اتنا کنڑا والے بھی ہیں۔