محمد جسیم الدین نظامی
سیاست اور مکروفریب کا یارانہ کافی پراناہے، بلکہ یوکہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ مکرو فریب ،وعدہ فراموشی اور جھو ٹے پروپیگنڈے میں مہارت ہی ایک کامیاب سیاست دا ں کی پہچان ہے…. موجود ہ سیاست کو اس حقیقت کی زندہ مثال کے طور پر دیکھا جاسکتاہے ..جہاں نعرہ ’’وکاس ‘‘لگایا جاتا ہے اور کام’’ وِناش‘‘ کا کیا جاتاہے ،بات ترقی اور ڈیولپمنٹ کی جاتی ہے اور صورتحال تنزلی اوراورابتری کی بدترین تصویر پیش کرتی نظر آتی ہے… جہاں انتخابی شوروغل ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور رائے دہی کے ایام قریب آتے ہی وہی نعرہ ’’شمشان قبرستان اورپاکستان ‘‘ پر آکر رک جاتاہے … بات ملک کی ترقی اورکرپشن سے نجات سے شروع ہو تی ہے اور ووٹنگ سے پہلے وہی بات یکلخت ہندواورہندتوا پرجاکر اٹک جاتی ہے…. نعروں کے بدلتے ہوئے مفہوم اورسیاسی وعدوں کی بدلتی ہوئی تعبیر یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ برسراقتدار زعفرانی پارٹی کے سامنے اپنابنیادی ایجنڈہ ’’فرقہ پرستی‘‘ کو استعمال کرنے کے سوا دوسراکوئی آپشن ہی نہیں ہے… تقسیم کرو اور راج کرو‘‘انکی سیاسی اورنظریاتی مجبوری بن چکی ہے … یہی وجہ ہے کہ اب بی جے پی قائدین کھلے عام یہ اعلان کرنے سے نہیںڈرتے کہ ’’کرنا ٹک کا الیکشن سڑکوں اور پینے کے پانی کے مسائل سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہے‘‘ .. .اک بی جے پی لیڈر اعلان کرتا ہے کہ ’’کرناٹک الیکشن لارڈ رام اورنعوذبااللہ ،اللہ کے درمیان مقابلہ ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس کو جتا نا چاہتے ہیں رام کو یا اللہ کو‘‘…بی جے پی رکن پارلیمان شوبھا کرندلاجے ٹوئٹ کرتی ہیں کہ ،’’ ہندوں کو بی جے پی کو ووٹ دینا چاہئے ورنہ کرناٹک میں انہیں زندگی گذارنا مشکل ہوجائگا،کیونکہ کانگریس کرناٹک کو ’’اسلامی جمہوریہ ‘‘ میں بدلنے کی کوشش کررہی ہے‘‘.. اب وزیرا عظم نریندرمودی بھی رائے دہی کے قریب انتخابی مہم میں کو دچکے ہیں،دیکھئے اب کی بار ترقی کے نام پرکس کو کامیاب بنائنگے ،قبرستان شمشان ،ہندو مسلما ن یا پاکستان کو…چونکہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم شدت اختیار کرگئی ہے۔ اوریہ ظاہر کرنے کے لئے وہ لنگایت طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں، ان کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے یدی یورپا کو عہدہ چیف منسٹری پر فائز کرنے کے خواہاں ہیں … کانگریس اور بی جے پی دونوں لنگایت طبقہ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور سیاسی تجزیہ کاروںکے مطابق،یہ عنصر 2018 اسمبلی انتخابات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 12 مئی کو کرناٹک اسمبلی انتخابات کی رائے دہی ہوگی جس کے نتائج 2019 ء کے عام انتخابات پر ضرور اثرانداز ہوں گے، جہاں تک کرناٹک کے عوام کا تعلق ہے قومی سطح پر جو رجحان ہوتا ہے اس کے برعکس رائے دیتے ہیں۔ 2009 میں جبکہ سارا ملک ایل کے اڈوانی کی زیرقیادت بی جے پی کو مسترد کررہا تھا، کرناٹک نے بی جے پی کی جھولی میں لوک سبھا کی 19 نشستیں ڈال دیں اور 2014 ء میں جب سارے ملک میں مودی لہر جاری تھی 17 پارلیمانی نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی دلائی۔ کرناٹک کے عوام نے 1989 ، 1994 ، 1999 اور 2004 میں بھی ملک کے دیگر ریاستوں کے برعکس فیصلے دیئے۔ بی جے پی کرناٹک میں جیت کو جنوبی ہند میں داخلہ کا دروازہ تصور کررہی ہے۔ وہ ہر حال میں کرناٹک میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہاں ہے تاکہ جنوبی ہند کی دوسری ریاستوں بشمول تلنگانہ، آندھراپردیش اور کیرالا میں کامیابی حاصل کرسکے لیکن ان ریاستوں میں کامیابی کا حصول بی جے پی کے لئے بہت مشکل ہے۔ اگر بی جے پی کو کرناٹک میں کامیابی حاصل ہوتی ہے (جسکے امکانات کم ہیں) تو وہ نہ صرف جنوبی ہند کی ریاستوں میں اقتدار کی سمت آگے بڑھے گی بلکہ اترپردیش کے پارلیمانی حلقوں گورکھپور اور پھولپور میں ہوئی شرمناک شکست سے ہوئے نقصان کی پابجائی بھی کرسکے گی۔ تاہم کرناٹک میں بی جے پی کو بڑی کامیابی ملنے کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ رائے دہی کے لئے بچے کچے دنوں میں وہ عوام کا مذہبی استحصال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے کامیابی مل سکتی ہے لیکن کرناٹک میں سدارامیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت کا موقف فی الحال بہت مضبوط ہے۔ بی جے پی اس کے حوصلے پست کرنے اور اسکے خلاف اپنائی گئی اب تک کی اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوگئی ہے۔ کانگریس اس ریاست میں اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس سے سارے ملک میں کانگریس کے احیاء اور روشن ماضی کی واپسی میں زبردست مدد ملے گی۔ 2019 کے عام انتخابات میں اس کا موقف غیرمعمولی طور پر ہوگا۔ دوسری اپوزیشن جماعتیں اسے زیادہ سے زیادہ نشستیں دینے پر راضی ہوجائیں گی۔ کانگریس کے لئے یہ اسمبلی انتخابات اس لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ بی جے پی نے اکثر ریاستوں سے اس کے اقتدار کا خاتمہ کردیا ہے۔ پنجاب اور میزورام میں اس کی حکومتیں ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کی جنتادل (ایس) بادشاہ گر کا کردار ادا کرے گی۔ اگر اس پارٹی کو 50 نشستوں پر بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ایچ ڈی کمارا سوامی چیف منسٹر شپ کے دعویدار ہوں گے۔ اس سے علاقائی جماعتوں کو ایک نئی طاقت اور توانائی حاصل ہوگی۔ جہاں تک چیف منسٹر سدارامیا کا سوال ہے اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ انھوں نے ایس سی ۔ اقلیت اتحاد کے ذریعہ ریاست میں مضبوط حکمرانی کی۔ انھوں نے بی جے پی کو فرقہ وارانہ اور ذات پات کی سیاست کے جواب میں لنگایت کو ایک علیحدہ مذہبی شناخت، علیحدہ کنڑا پرچم اور ترانہ سامنے لایا ہے۔ ایک روپئے فی کیلو چاول، طلباء و طالبات کے لئے مفت دودھ، انڈے، لیاپ ٹاپس اور بس پاسیس، صرف 10 روپئے میں پاک صاف کھانے کی فراہمی سے متعلق اندرا کینٹین جیسی فلاحی اسکیمات نے سدارامیا کو غریبوں کے لیڈر کی حیثیت سے اہم مقام دلایا ہے… دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی کے وزرات اعلی کے امیدوار یدی یورپا بھی زیادہ حرکت میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ 2008 میں جس طرح انھوں نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا، اس بار وہ جوش اور جذبہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سدارامیا بمقابلہ یدی یورپا لڑائی دکھائی دے رہی ہے۔ اب سیاسی تجزیہ نگاروں اور عوام کی نظریں مودی پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ یہ دیکھنے کے خواہاں ہیں کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم میں وزیراعظم نریندر مودی کیا گل کھلائیں گے؟ آیا جنوبی ہند کی ریاست میں ان کی انتخابی مہم کا اثر ہوگا بھی یا نہیں؟ گجرات میں بھی بی جے پی کی حالت بہت خراب تھی لیکن انتخابی مہم کے آخری مراحل میں مودی کے کود پڑنے کے بعد وہاں حالات بی جے پی کے حق میں گئے اور بی جے پی بڑی مشکل سے وہاں اپنی عصمت لٹنے سے بچا سکی…ویسے بھی گجرات مودی کی ریاست ہے، اس ریاست میں بی جے پی کے رہنما پہلے ہی سے کہنے لگے تھے کہ ریاست میں مودی کی ناک کٹنے نہیں دیں گے۔ اگر مزید 10 تا 15 نشستوں پر کانگریس امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوتی تو مودی ے ساتھ ساتھ امیت شاہ کی بھی ناک کٹ جاتی … بی جے پی رہنماؤں کو امیت شاہ جیسے رہنماؤں کی تقاریر کے کنڑا میں ترجمہ کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ایک مرحلہ پر امیت شاہ نے تو عہدہ چیف منسٹری کے بی جے پی امیدوار یدی یورپا کو ہندوستان کا سب سے بدعنوان چیف منسٹر قرار دیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی اور جے ڈی ایس (جنتادل سیکولر) میں خفیہ معاملت ہوگئی ہے۔ خاص طور پر چامندیشوری میں جہاں سے چیف منسٹر سدارامیا انتخابات لڑرہے ہیں وہاں سخت مقابلہ درپیش ہے۔ اگرچہ چیف منسٹر سدارامیا نے بااثر لنگایت طبقہ کو اقلیتی موقف دینے کا اعلان کردیا لیکن مرکز کی بی جے پی حکومت نے اسے منظوری دینے سے انکار کردیا۔ حالانکہ مرکز اس تجویز کو منظوری دیتا تو لنگایت سے تعلق رکھنے والوں کو ملازمتوں اور تعلیم کے شعبوں میں تحفظات کے ثمرات حاصل ہوتے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر سدارامیا مہاراشٹرا ایکی کرن سمیتی اور آزاد امیدواروں کی تائید و حمایت سے حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہوتے ہیں تو بی جے پی اور جنتادل (ایس) مل کر مخلوط حکومت بناسکتے ہیں جو کہ امیت شاہ کا پلان B ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیوے گوڑا اور ان کے بیٹے ایچ ڈی کمارا سوامی تشکیل حکومت میں کانگریس کی مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن عہدہ چیف منسٹری کے لئے وہ سدارامیا کی ہرگز تائید نہیں کریں گے۔ ان تمام باتوں کے بعد سدارامیا کا کہنا ہے کہ ریاست میں ان کی قیادت میں کانگریس کو ہی کامیابی حاصل ہوگی اور کانگریس حکومت بنائے گی…کیونکہ اصل حریف بی جے پی کے پاس انکے خلاف کوئی موثر موضوع ہی نہیں کہ وہ اسے انتخابی موضوع بناتے ہوئے انہیں شکست دے سکے .. اسی لئے بی جے پی قائدین اورآر ایس ایس گھوم پھر کر ا س الیکشن کو بھی فرقہ ورانہ خطوط پر منقسم کرتے ہوئے اسے ہندو مسلم الیکشن بنانے پرتلی ہوئی ہے۔