کرشن چندر کی رپورتاژ نگاری

سلمان فیصل
اردو رپورتاژ نگاری کے بنیاد گزاروں میں سجاد ظہیر اور کرشن چندر کا نام سرفہرست ہے ۔ گویا کہ اردو رپورتاژ کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ رکھی گئی ۔ لہذا اردو کے اولین اور نمائندہ رپورتاژوں میں ترقی پسندی کی چھاپ صاف نظر آتی ہے ۔ ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد کی اشاعتوں نے اردو میں رپورتاژ نگاری کی راہ ہموار کی ہے ، کیونکہ یہ رودادیں ادبی پیرائے میں لکھی جاتی تھیں ۔ ہفتہ وار اخبار ’’نظام‘‘ میں حمید اختر کی ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کی رودادوں کو بشکل رپورتاژ بہت پسند کیا گیا ۔ لیکن اردو میں پہلا رپورتاژ جس تحریر کو تسلیم کیا گیا وہ کرشن چندر کا ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ ہے ۔ یہ رپورتاژ لاہور سے بہرام گلہ تک کے سفر کے روداد پر مبنی ہے ۔ گرچہ یہ روداد سفر ہے لیکن اس تحریر سے اردو میں رپورتاژ کی مستحکم بنیاد پڑتی ہے ۔ ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ ایک ایسا رپورتاژ ہے جس میں کرشن چندر کے شگفتہ انداز بیان اور دلکش پیرایہ اظہار کے نمونے جا بجا نظر آتے ہیں ۔ یہ کرشن چندر کی کتاب ’’طلسم خیال‘‘ میں 82تا 104 صفحات پر مشتمل ایک مختصر رپورتاژ ہے، جس میں کرشن چندر کی رومانی تحریروں کی سحر انگیزی ہے ۔ اس رپورتاژ کا اسلوب بہت رواں ، سلیس اور دلچسپ ہے ۔ یہ کرشن چندر کے اسلوب بیان کا کمال ہی ہے کہ ایک نشست میں اسے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اختتام پر قاری کا ذہن کشمیر کی وادیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔ سیر کشمیر کی جس کیفیت کو کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں بیان کیا ہے وہی کیفیت قاری پر بھی طاری ہونے لگتی ہے ۔ کرشن چندر نے رپورتاژ میں قدرت کے مناظر کی عکاسی کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق اور تاریخی افسانوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اس میں میر پور ، پونچھ اور بہرام گلہ کے بارے میں تاریخی معلومات بھی فراہم کی گئی ہے ۔ پونچھ اور بہرام گلہ کے قلعوں اور وادیوں کے بارے میں کرشن چندر کا جادو بھرا انداز بیان حقیقت کا منظر نامہ پیش کرنے لگتا ہے ۔ ان قلعوں اور وادیوں کے خوش نما مناظر کی عکاسی اور جزئیات نگاری بہت ہی فنکارانہ ہے جو دلوں کو مسحور اور ذہنوں کو محظوظ کرتی ہے ۔
کرشن چندر کا دوسرا رپورتاژ ’’پودے‘‘ ہے ۔ یہ ایک بیانیہ ہے جس میں خود کرشن چندر بحیثیت متکلم نہیں بلکہ ایک کردار کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔ یہ رپورتاژ 1945 میں حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس کی روداد پر مبنی ہے ۔ یہ رپورتاژ کانفرنس کے انعقاد کے بہت بعد یادداشت کی بنیاد پر لکھا گیا تھا ۔ کل 144صفحات پر مشتمل ’’پودے‘‘ کی اشاعت پہلی بار 1945 ء میں دیپک پبلشر جالندھر سے ہوئی ۔ سجاد ظہیر کا خطبہ صدارت بھی شامل کتاب ہے ۔ کرشن چندر نے 13 تا 32 صفحات پر مشتمل ایک طویل پیش لفظ بھی لکھا ہے ۔ یہ رپورتاژ نو عنوانات یعنی پوری بندر ، گاڑی میں ، حیدرآباد اسٹیشن ، حیدرگوڑہ ، اجلاس ، پرانا محل  بطخوں کے ساتھ ایک شام ، واپسی اور منزل پر مشتمل ہے ۔ ان مختلف عناوین کے تحت کرشن چندر نے مختلف واقعات ، مشاہدات  ، تجربات ، داخلی اورخارجی احساسات کی ترجمانی کی ہے ۔ اس رپورتاژ میں بھی کرشن چندر کی تخلیقی تحریروں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں بھی منظر کشی ہے ، جزئیات نگاری ہے ، کردار ہیں ، مکالمے ہیں ، غرض افسانوی تخلیقات کے عناصر اس میں ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ پیش لفظ میں کرشن چندر نے ترقی پسند مصنفین کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد کا احاطہ کیا ہے ۔ اس تحریک کی ابتداء اور اس کے ارتقاء پر کرشن چندر نے گفتگو کی ہے اور آخر میں اردو کے مسئلے پر یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے ۔پیش لفظ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’یہاں میں یہ بات نہایت صراحت سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھتا ہوں اور مجھے اس کی تاریخی ارتقاء کا مطالعہ ابھی تک اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ میں اسے صرف مسلمان قوم کی زبان نہ سمجھوں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زبان کے غالب حصہ پر ہر مسلم قوم کی تہذیبی چھاپ ہے اور ہندوؤں نے اس کی ترویج و اشاعت میں بھی مسلمانوں سے کم حصہ لیا ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلانے سے خود فریبی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ لیکن اس بدیہی امر کے باوجود اس بات کو بھی جھلا نہیں سکتا کہ ہندوؤں نے اور اس ملک کی دوسری قوموں نے بھی اردو کی اشاعت میں اسے پھیلانے  میں ، بڑھانے میں اپنانے میں ایک معتدبہ حصہ لیا ہے اور دوسری قومی زبانوں کی ترقی کے باوجود اور فرقہ وارانہ رجحانات کی افزائش کے باوجود اور اس بدنصیب ملک کی کوتاہ سیاست کے باوجود مسلمانوں نے اور ہندوؤں نے اور سکھوں نے اور دوسری قوموں نے سب نے مل کر اس کی ترقی کے لئے اپنے بہترین انسان کا لہو دیا ہے ۔
(پودے ، کرشن چندر ،دیپک پبلشرز ، جالندھر ، اپریل 1964، ص 28)
اس رپورتاژ میں سفر کی صعوبتوں ، قیام گاہ کی آسائشوں ، اجلاس کی کارروائیوں اور حسن شاموں کا تذکرہ بہت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے ۔ طنز و مزاح کی پھلجھڑیاں پھوٹتی نظر آتی ہیں ۔ ادیبوں اور شاعروں کی آپسی گفتگو اور نوک جھونک مزید برآں شگفتہ انداز بیان رپورتاژ کو مزید دلچسپ بناتا ہے ۔ اس میں جابجا ہندوستانی تہذیبی و ثقافت کے مناظر ، ہندوستانی طور طریقے اور آداب معاشرت کے نمونے جگہ جگہ نظر آتے ہیں ، لیکن اس دلچسپ انداز بیان اور ہنسی مذاق میں کرشن چندر اپنے مطلب کی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو ۔
’’راجہ شامراج کا محل ۔ پرانا محل ۔ شہر میں واقع ہے ۔ اونچی فصیل کے اندر ایک خوشنما باغیچہ ہے ۔ باغیچے میں ایک مور ناچ رہا تھا ۔ اتنی بڑی لائبریری اتنی اچھی لائبریری ہر موضوع پر کتابیں جنھیں غالباً آج تک کسی نے کھول کر پڑھا نہ تھا ۔ پوری لائبریری میں صرف دو بچے پڑھ رہے تھے ۔ یہ سنگ مرمر کے مجسمے تھے اور سنگ مرمر کی کتاب کھولے ہوئے اس پر جھکے ہوئے تھے ۔ اور نہ جانے کتنے سال سے اس طرح جھکے ہوئے اسی کتاب کے اسی صفحے کو پڑھ رہے تھے  ۔یہ سنگ مرمر کی کتاب ، یہ سنگ مرمر کے محل ، لیکن ہم لوگ یہاں کیا کررہے تھے ۔ ایک کمرہ اشتراکیت کے موضوع سے متعلق تھا ۔ یہاں ہزاروں کتابیں جمع تھیں ۔ مصاحب ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے گویا ہم تماشہ ہوں اور وہ تماشائی ۔ ان کی نظریں گویا کہہ رہی تھیں تمہارے ایسے سینکڑوں لوگ یہاں آتے ہیں اور دعوت کھا کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔ یہاں ہم ادیبوں کو بلاتے ہیں اور سرکس والوں کو بھی اور مداریوں کو ، اور مسخروں کو ، یہاں سیاح آتے ہیں اور بھک منگے بھی اور سیاست داں بھی ۔ ہمارے راجہ صاحب بہت اچھے ہیں ۔ لیکن ان کے اچھا ہونے سے آپ لوگ اچھے نہیں ہوسکے ۔ سردار صاحب آپ کی قمیض پھٹی ہوئی ہے ۔ آپ کی شیروانی کا بٹن غائب ہے ، سبطے میاں ۔ قدوس صاحب آپ نے یہ جھولا کیسے لٹکارکھا ہے ۔ مہندر بھائی آپ نے سر پر یہ جنگل سا کیا لگا رکھا ہے ۔ کرشن چندر آپ کی پتلون پر دس پیوند ہیں آپ لوگ یہاں کیا کھا کر ترقی پسندی کا دعوی کریں گے … سامنے مور ناچ رہا ہے‘‘ ۔
(پودے : ص 107)
اس اقتباس میں کرشن چندر نے سرمایہ داروں اور اشتراکیوں کا تذکرہ بہت فنکارانہ طریقے سے کیا ہے ۔ مختلف علامات کے استعمال کے ذریعے کرشن چندر نے سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی کئی باریکیوں کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے  ۔باتوں باتوں میں ہی کرشن چندر نے ترقی پسند ادیبوں کی حالت زار کو بھی پیش کردیا ہے ۔
’’صبح ہوتی ہے‘‘ کرشن چندر کا تیسرا رپورتاژ ہے ۔ یہ 1950 میں کتب پبلشر بمبئی سے شائع ہوا ۔ اس کتاب کا ایک بوسیدہ نسخہ دہلی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے ۔ غالباً اس کے بعد اس کی اشاعت ثانی نہیں ہوئی ہے ۔ یہ رپورتاژ کیرالا کے تریچور علاقے میں منعقدہ جنوبی ہند کے ممتاز ترقی پسند ادیبوں کی کانفرنس کی روداد پر مبنی ہے ۔ لیکن کانفرنس کی روداد بہت مختصر ہے جبکہ کیرالا کے سفر کی روداد اور وہاں کی وادیوں کا دلفریب و دلچسپ اور حسین بیان ہے ، رپورتاژ میں کرشن چندر نے کیرالا کے کسانوں اور مزدوروں کی کئی کہانیاں بیان کی ہیں جو کردار ہیں ہو حقیقی کردار ہیں ۔ اس رپورتاژ میں کیرالا کے مختلف اسفار کے دوران پیش آنے والے واقعات اور لوگوں سے حاصل ہوئی معلومات کی فراوانی ہے ۔ کرشن چندر نے بمبئی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں سیٹ کی بکنگ سے رپورتاژ کا آغاز کیا ہے ، جو کہ بہت دلچسپ ہے اور یہی دلچسپی قاری کو مزید پڑھنے پر اکساتی ہے ۔ یوں تو رپورتاژ میں کرشن کی سحر انگیز تحریر قاری کی قرأت میں یکسوئی کا ختم نہیں ہونے دیتی ہے اور قاری کے ذہن کا تجسس ہی اس تحریر کو آگے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ کرشن چندر نے کیرالا کے کئی مقامات کی منظرکشی کی ہے جس سے قاری کے ذہن میں کیرالا دیکھنے کی خواہش بھی ابھرتی ہے ۔ تریچور ، الوائی ، تری وندرم ، کوئی لون  ،الپی اور کنیا کماری سمیت کئی مقامات کا تذکرہ ہے ۔
دوران سفر کرشن چندر کی ملاقات کئی پادریوں سے ہوئی کرشن چندر نے ان ملاقاتوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے اور باتوں باتوں میں انگریزوں پر طنز بھی کیا ہے ۔ اس سلسلے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
میں نے پوچھا ’’فادر تمہیں شکار کا بہت شوق ہے؟‘‘
اسکا گول گول بچوں کا سا چہرہ کھل اٹھا بولا ’’تری میندوس‘‘
میں نے کہا ’’فادر تم فرانسیسی ہو کہ اطالوی؟‘‘
وہ بولا ۔ میں ڈچ ہوں ، مجھے یہاں آئے ہوئے تیس سال ہوگئے ۔
تیس سال اس حلقے میں گذر گئے ؟ میں نے گاڑی سے باہر اشارہ کیا۔
وہ سر ہلا کے بولا ۔ ہاں ، مجھے یہ جگہ بہت پسند ہے ، یہاں شکار بہت اچھا ملتا ہے ، ریچھ ، شیر ، چیتے ، سور ، ہرن ، ہر طرح کا شکار ملتا ہے مگر نہیں ملتا ہے تو بس ایک ہاتھی نہیں ملتا ہے ۔ اس علاقے میں ۔
میں نے کہا فادر! تم غلط کہتے ہو ، ہاتھی تو یہاں بھی ملتا ہے مگر تم نے کبھی اسے شکار کرنے کی کوشش نہیں کی ، تم ہمیشہ غریب آدمیوں کا شکار کرتے رہے اور ہاتھیوں کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا ورنہ ہاتھی تو ہندوستان ہی میں ملتا ہے اور نیچے جاؤ تو سیلون میں بھی ملے گا ، برما میں بھی اور ملایا میں بھی ، ہاتھی انڈونیشیا میں بھی ملتا ہے ، مگر ہاں اسکا رنگ سفید ہوتا ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ سفید ہاتھی بڑا متبرک ہوتا ہے اور بری مشکل سے ملتا ہے ، مگر میرا تو یہ خیال ہے کہ ایشیاء کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں یہ سفید ہاتھی نہ ملتا ہو ۔ حد تو یہ ہے کہ اب یہ سفید ہاتھی عرب ، عراق ، سیریا اور فلسطین کے ریگستانوں میں بھی ملنے لگا ہے ۔ جہاں جہاں تیل کے چشمے ہیں ، لوہے کی کانیں ہیں ، ربڑ اور چائے کے باغات ہیں وہاں یہ سفید ہاتھی پایا جاتا ہے‘‘ ۔
(صبح ہوتی ہے ، کرشن چندر کتب پبلشرز بمبئی ، 1950، ص 27-28)
کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں جگہ جگہ کئی حسین مقامات کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہے اور کرشن چندر کی یہ خاصیت ہے کہ وہ صرف مناظر ، تعمیرات اور واقعات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے نظریات اور عقائد کو بھی پیش کرتے ہیں ۔ اس منظرکشی کے دوران وہ ماضی کی یادوں کو کریدتے ہیں  ۔حال کا جائزہ لیتے اور حسین مستقبل کے لئے ان کے دل میں جذبات کے گہرے سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہیں ، کنیا کماری کے ساحل پر غروب آفتاب کا ایک حسین اور دلکش منظر ملاحظہ کیجئے۔
’’سورج کنیا کماری پر غروب ہورہا تھا۔ کنیا کماری جہاں مشرقی اور مغربی گھاٹ دونوں آکے مل جاتے ہیں ۔ کنیا کماری جہاں تین سمندر آکے گلے ملتے ہیں بحر عرب ، بحر بنگال ، بحر ہند ۔ اور یہ تینوں سمندر ایک عظیم الشان نیم دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں اور بیج میں زمین کی آخری نوک ہے اور کنیا کماری کی گلابی ریت پر تینوں سمندروں کی لہریں ایک دوسرے کے گلے مل کر مچل مچل کر رقص کررہی ہیں ۔
’’کنیا کماری کی آخری چٹان پر کھڑا ہو کے میں سامنے بحر ہند کو دیکھتا ہوں جو انسان کی ترقی کی طرح ناپید کنارہ ہے ۔ پھر اس مغرب کی سمت سے آنے والے بحر عرب کو دیکھتا ہوں جس نے آٹھ سو سال پہلے میرے ملک میں ایک انقلاب پیدا کردیا تھا ۔ جہاں سے ایک ہزار سال پہلے مسیح کے چیلے اس ساحل پر آئے تھے جہاں سے بارہ سو سال پندرہ سو سال پہلے ہند کی کشتیاں اور جہاز روم کو گئے تھے۔ روم اور وینس اور یونان کی سمت سے تہذیبیں ادھر سے ادھر آئی تھیں اور ادھر سے ادھر گئی تھیں اور مذہبوں ، خونوں اور تہذیبوں کی آمیزش ہوتی تھی ۔
پھر میں مڑ کر مشرق کی جانب دیکھتا ہوں ، بحیرہ بنگال مشرق کی ہوائیں لاتا ہے ۔ برما ، سیام ، ملایا ، ہند چینی اور چین کی فضائیں لڑاکے گیت گاتی ہوئی امڈتی چلی آتی ہیں ۔ وہاں بھی گیت ، دیش ، قومیں ، مذہب اور تہذیبیں چھینی گئی تھیں ۔ وہاں بھی کسانوں سے زمین ، مزدوروں سے کارخانے ہتھیالئے گئے تھے ۔ وہاں بھی بدیسی بندوقوں سے گیتوں کا گلا گھونٹا تھا  ادیبوں کے گلے پر چھری رکھی تھی ، اور ان کی کتابوں کو آگ لگائی تھی  ۔
تینوں سمندر مل گئے ۔ عرب ، ایران اور ہندوستان ایک ہوگئے ۔ ریت کے آخری ذروں پر بھی پانی کی موج ظفریاب آگئی اور ہنستے ہنستے کہنے لگی کام کرنے والوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا ۔ کوئی رنگ نہیں ہوتا ۔ کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ سب انسان ہوتے ہیں ۔ اور ساری دنیا کے وارث ہوتے ہیں‘‘ ۔
(صبح ہوتی ہے ، ص 116,117, 118)
یہ اقتباس صرف ایک منظرکشی پر مبنی نہیں ہے بلکہ کرشن چندر نے اس میں تاریخ کے سیکڑوں اوراق سمودئے ہیں ۔ کئی ملکوں کی تاریخ کا فلیش بیک سیکنڈوں میں پیش کردیاہے ۔ الغرض کرشن چندر جہاں صف اول کے ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں وہیں وہ رپورتاژ کے مستحکم بنیاد گزار بھی ہیں ۔ ان کے یہ تینوں رپورتاژ وہ ٹھوس بنیاد ہیں جن پر آگے چل کر اردو رپورتاژ کی پائیدار عمارت کی تعمیر عمل میں آتی ہے ۔ جب بھی رپورتاژ کا تذکرہ ہوگا تو سب سے پہلے کرشن چندر کے رپورتاژوں کا ذکر آئے گا ۔ یہ صرف رپورتاژ ہی نہیں بلکہ ترقی پسند مصنفین کی تاریخ کی ایک جھلک بھی ہے ۔ اس میں سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی کشمکش بھی نظر آتی ہے ۔ ہندوستان کے حسین مناظر کا تذکرہ ہے تو مزدوروں اور کسانوں کی حالت زار کو بھی بیان کیا گیاہے ۔ اس کے اندر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب بھی ہے ۔ گویا کہ کرشن چندر کے یہ تینوں رپورتاژ کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔