کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

کشمیر… محبوبہ مفتی کی مشکلات میں اضافہ
اترپردیش… سیکولر ووٹ کی تقسیم کا اندیشہ

رشیدالدین

ملک کی دو اہم ریاستوں میں برسراقتدار جماعتیں بحران جیسی صورتحال کا شکار ہیں۔ دونوں پارٹیوں میں بحران کی شدت آگے چل کر پھوٹ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی اور اترپردیش میں سماج وادی پارٹی میں اچانک بغاوت کا پرچم بلند ہوچکا ہے۔ اگرچہ دونوں ریاستوں کے حالات اور بغاوت کی وجوہات مختلف ہیں لیکن جو بات مشترک ہے، وہ یہ کہ دونوں ریاستوں میں چیف منسٹر کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ دونوں ریاستوں میں بغاوت کرنے والے قریبی اور بااعتماد قائدین ہیں۔ جب کبھی برسر اقتدار پارٹی اپنے اصولوں سے انحراف کرتی ہے تو اس طرح کی صورتحال پیدا ہونا یقینی ہے۔ کشمیر میں دو ماہ سے کرفیو اور ہلاکتوں نے حکومت کے خلاف ناراضگی پیدا کردی ہے۔ سرینگر لوک سبھا حلقہ کی نمائندگی کرنے والے پی ڈی پی ایم پی طارق حمید نے لوک سبھا اور پارٹی دونوں سے استعفیٰ دیدیا۔ طارق حمید کا استعفیٰ پی ڈی پی کیلئے زبردست جھٹکہ ہے کیونکہ ان کا شمار پارٹی کے بانیوں اور مفتی محمد سعید کے قریبی رفقاء میں ہوتا ہے ۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014 ء عام انتخابات میں وہ نیشنل کانفرنس کے قدآور فاروق عبداللہ کو ہراکر منتخب ہوئے۔ طارق حمید کا استعفیٰ دراصل وادی کے عوامی جذبات کی ترجمانی ہے۔ طارق حمید نے اچانک یہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ پی ڈی پی ۔بی جے پی اتحاد کے بعد سے ہی وہ قیادت سے ناراض تھے۔ انہوں نے بی جے پی سے اتحاد کی پہلے دن سے ہی مخالفت کی تھی۔

اب جبکہ دو ماہ سے زائد عرصہ سے عوام گھروں میں محروس ہیں اور عیدالاضحیٰ کی نماز کی تک اجازت نہیں دی گئی، ان حالات میں طارق حمید کے پاس استعفیٰ کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ دراصل پی ڈی پی کے زوال کا آغاز ہے اور بی جے پی سے اتحاد خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ طارق حمید نے صحیح نشاندہی کی کہ وادی میں آر ایس ایس ایجنڈہ پر عمل کیا جارہا ہے اور محبوبہ مفتی سرینڈر ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اور قائد مظفر حسین بیگ نے محبوبہ مفتی کو استعفیٰ کا مشورہ دیا تھا۔ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی کی گرفت کمزور ہوچکی ہے اور بی جے پی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ آزادی کے 70 سال گزرنے کے بعد کشمیر میں اقتدار کا سنگھ پریوار کا خواب پورا ہوا۔ اتحاد کے وقت پی ڈی پی قیادت نے عوامی رائے کو نظرانداز کردیا تھا ۔ وادی کے عوام نے پی ڈی پی کو اکثریت اس لئے نہیں دی کہ وہ بی جے پی سے ہاتھ ملالے۔ وادی کے عوام بی جے پی کو کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے۔ پی ڈی پی میں پڑی یہ دراڑ مزید گہری ہوسکتی ہے۔ محبوبہ مفتی کی مقبولیت کا گراف بھی گھٹ رہا ہے اور وسط مدتی انتخابات کی صورت میں وادی سے پی ڈی پی کا صفایا ہوجائے گا۔ محبوبہ مفتی اپنے سیاسی فیصلوں کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں، وہ یہ طئے نہیں کر پا رہی ہیں کہ عوام کے ساتھ جائیں یا پھر مرکز کے مشوروں پر عمل کریں۔ محبوبہ مفتی نے جس طرح مفتی سعید اور پارٹی کی روایات کو پامال کیا، اگر وہ بی جے پی میں ضم ہوجائیں تو عوام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

حکومت تو برائے نام اتحاد کی ہے اور محبوبہ مفتی چیف منسٹر ہیں لیکن ان کا ریموٹ کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے۔ محبوبہ مفتی محض کٹھ پتلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ بی جے پی سے اتحاد سے قبل پی ڈی پی کا جو ایجنڈہ تھا ، اس سے انحراف کرلیا گیا۔ بی جے پی کے اثر کے تحت محبوبہ مفتی یہ بات بھول گئیں کہ جس طرح کشمیر کو خصوصی موقف کا درجہ حاصل ہے، اسی طرح مسلمانوں کی شناخت بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ آر ایس ایس ، سنگھ پریوار صرف مسلمانوں کے جان و مال کے نہیں بلکہ ایمان کے دشمن بھی ہیں۔ ان سے دوستی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ملیٹنٹ برہان وانی کے انکاؤنٹر کے بعد وادی میں حالات خراب ہوئے لیکن حقیقت میں عوام اس وقت سے ہی ناراض تھے جس دن بی جے پی سے اتحاد کیا گیا۔ محبوبہ مفتی آخر کب تک بی جے پی کے اشاروں پر وادی کے عوام سے ناانصافی کریں گی۔ کشمیریت اور انسانیت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریت کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔ ملک کی واحد مسلم ا کثریتی ریاست سنگھ پریوار کو کھٹک رہی ہے اور اس ریاست کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے محبوبہ مفتی کا کاندھا مل چکا ہے۔ واحد مسلم اکثریتی ریاست دراصل ہندوستان کی شان ہے جسے دنیا بھر میں جنت ارضی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ وہاں کے عوام کی اس لئے بھی قدر و منزلت ہونی چاہئے کہ اکثریت کے باوجود انہوں نے ہندوستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ مرکز اور ریاست کی حکومتیں آخر کب تک کرفیو کے نفاذ اور طاقت کے استعمال کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق وادی میں حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نظم و نسق نام کی کوئی چیز نہیں۔ سیکوریٹی فورسس کے حوالے کرتے ہوئے وادی کے عوام کو نیم فوجی دستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ 2010 ء میں صورتحال بگڑنے پر فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ کشمیر کو خود اختیاری دینے میں تاخیر نہ کی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک وقت وہ آئے گا جب حکومت تو تیار ہوگی لیکن لینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ فاروق عبداللہ کی پیش قیاسی درست ثابت ہوئی اور آج حالات حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ دنیا کا وہ کونسا علاقہ ہوگا جہاں مسلسل 70 دن تک کرفیو نافذ رہا ہو۔ گزشتہ 10 جمعہ کے موقع پر نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔ 200 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہیں دی گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ 1821 ء میں ایک مرتبہ مسجد کو بند کیا گیا تھا۔ جمعہ اور عیدین کیلئے بھی اجازت نہ دینا کہاں کی انسانیت ہے۔

وزیراعظم نے مغربی بنگال کی انتخابی مہم میں ایک موقع پر اذان کے احترام میں تقریر کو روک دیا تھا اور مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے کہا تھا کہ تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے ۔ کیا وزیراعظم کو کشمیر میں نمازوں پر پابندی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وزیراعظم نے تو اس مرتبہ عیدالاضحیٰ کی مبارکباد بھی نہیں دی۔ شائد گاؤ رکھشکوں کو خوش کرنا مقصود تھا۔ وزیراعظم کی کشمیر مسئلہ پر خاموشی باعث حیرت ہے۔ کیا کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے؟ پھر ان کے دکھ درد کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ اپنے ہم وطنوں کو میٹھی بولی کے بجائے گولی اور پیلیٹ گن سے جواب دیا جارہا ہے۔ عوام کے احتجاج کے خوف سے کرفیو کو جاری رکھنے کا دعویٰ ہے۔ اگر ایسا رہا تو پھر یہ سلسلہ مہینوں تک رکنے والا نہیں۔ جب کبھی عوام کو موقع ملے گا ، وہ ناانصافیوں کے خلاف احتجاج ضرور کریں گے ۔ صورتحال بہتر بنانے کیلئے مرکز نے دو دن سرگرمی دکھائی۔ کل جماعتی وفد نے کشمیر کا دورہ کیا اور ان کی واپسی کے بعد پھر سناٹا ہوگیا۔ کل جماعتی وفد نے کیا تجاویز پیش کی اور ان پر حکومت کا موقف کیا ہے ، اس کی وضاحت ہونی چاہئے ۔ مرکز کو ابھی تک مصالحت کار نہیں ملے جو کشمیریوں سے بات کریں۔ 2010 ء میں دلیپ پڈگاؤنکر نے کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے سفارشات پیش کی تھی لیکن ان کی رپورٹ کو برفدان کی نذر کردیا گیا۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھایا ہے ۔ نریندر مودی کو دنیا بھر کی فکر ہے لیکن کشمیریوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مرکز کو چاہئے کہ پہلے اپنا محاسبہ کریں، پھر دوسروں پر انگلی اٹھائے۔ کشمیر کے حالات صدر راج کے نفاذ کے لئے فٹ کیس ہیں لیکن چونکہ حکومت کو بچانا ہے لہذا صدر راج کے نفاذ کا سوال نہیں اٹھتا۔ اگر کسی دوسری ریاست میں اس طرح کی صورتحال ہوتی تو کیا مرکز خاموش رہتا ؟ وادی میں 80 سے زائد اموات واقع ہوئیں، ہزاروں زخمی ہوئے ، 150 سے زائد اپنی بینائی سے محروم ہوئے ، پھر حکمرانوں کو رحم نہیں آرہا ہے اور وہ کرسی سے چمٹے ہوئے ہے۔ محبوبہ مفتی تو ایک خاتون ہیں اور قدرت نے خواتین میں جو ممتا دی ہے، اس کا اظہار کبھی تو ہونا چاہئے ۔ دیر سے ہی سہی سرینگر کے رکن پارلیمنٹ طارق حمید کی حمیت جاگی ہے ۔

دوسری طرف اترپردیش میں چاچا بھتیجہ کی اقتدار کیلئے رسہ کشی نے سماج وادی پارٹی کی ساکھ متاثر کردی ہے۔ ایسے وقت جبکہ اسمبلی انتخابات کیلئے ایک سال سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے ، اس طرح کے اختلافات بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو نے اکھلیش یادو کو پارٹی کے ریاستی صدر کے عہدہ سے ہٹاکر اپنے چھوٹے بھائی شیوپال یادو کو ذمہ داری دی۔ اس فیصلہ سے ناراض اکھلیش نے اپنے چچا کے اہم قلمدانوں کو چھین لیا۔ آخر کار شیوپال یادو نے وزارت سے استعفیٰ دے کر پارٹی میں بحران پیدا کردیا تھا۔ جمہوریت میں خاندانی حکمرانی اور اقتدار میں موروثیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ملائم سنگھ یادو نے اترپردیش کو اپنی جاگیر تصور کرلیا ہے اور خاندان کے چند افراد ریاست پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ملائم سنگھ اگرچہ اختلافات کی یکسوئی کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن یہ کام موجودہ حالات میں آسان نہیں۔ یقینی طور پر بعض بیرونی طاقتیں اس بحران کو ہوا دے رہی ہیں۔ عوام نے سماج وادی پارٹی کو بہتر حکمرانی کیلئے ووٹ دیا تھا ، نہ کہ خاندانی راج کیلئے ۔ جہاں کہیں اقتدار کو ایک خاندان تک مربوط کیا گیا وہاں زوال ہوگیا۔ بی جے پی اترپردیش میں مسلم اور دلت ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور سماج وادی پارٹی داخلی اختلافات کے ذریعہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کر رہی ہے۔ 2014 عام انتخابات میں بی جے پی نے یو پی میں 71 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس اعتبار سے ریاست میں بی جے پی کا موقف مستحکم ہے۔ سماج وادی پارٹی کو حکومت کی برقراری کیلئے مسلم اور دلتوں کی تائید ضروری ہے لیکن اختلافات کی صورت میں یہ ووٹ منقسم ہوسکتے ہیں۔ کانگریس کے یوراج راہول گاندھی نے بھی مہم میں شدت پیدا کردی ہے۔ بی ایس پی اپنے وجود کو منوانے کی جدوجہد میں ہے۔ ایسے میں مسلم اور دلت ووٹ ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس میں تقسیم ہونے کا اندیشہ ہے۔ عوامی توقعات پر کھرا اترنے میں ناکام اور کرسی سے چمٹے قائدین کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے