کدھر جارہے ہیں ہم (خانہ کعبہ جنوری 2015ء کے پہلے ہفتہ میں)

پروفیسر شمیم علیم (امریکہ)

ایک سیلاب تھا انسانوں کا ۔تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مرد عورت، بچے، دو مہینہ کے بچے سے لے کر 100 سال تک کے بوڑھے، کوئی چل رہا تھا، کوئی بھاگ رہا تھا، کوئی گھسیٹا جارہا تھا، چھوٹے معصوم بچے، کوئی ماں کی گود میں، کوئی باوا کے کاندھوں پر کوئی اماں باوا کے ساتھ بھاگتے ہوئے، افراتفری کا عالم تھا۔ ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
بہت سے ضعیف اور بیمار وہیل چیر پر نظر آرہے تھے۔ کچھ مرد اور کچھ عورتیں اپنے عزیزوں کا بوجھ کھینچ کر راحت محسوس کررہے تھے تو کچھ لوگوں نے کرایہ پر وہیل چیر حاصل کرلئے تھے۔ ان بزرگوں کی آنکھوں میں ایک سکون تھا، ایک خوشی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں خدا کے گھر کا دیدار کرلیا۔
دنیا کے ہر حصے سے لوگوں کے گروپس موجود تھے۔ کوئی سفید کوئی کالا، کوئی پیلا، کوئی چپٹا، تندرست موٹے تازے، کمزور نحیف لیکن سب مردوں کا لباس ایک جیسا، دو سفید چادریں، ایک جسم کے نیچے کے حصے کو چھپائے ہوئے دوسری اوپر کے نیم برہنہ جسم پر، البتہ خواتین الگ الگ لباس میں تھیں۔ اکثر برقعے میں کوئی عبایہ میں تو کوئی شرٹ شلوار، کرتے پائجامہ میں لیکن سب کے سر ڈھکے ہوئے ایک بال بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر شخص کی زبان پر صرف اللہ کا نام تھا، اللہ کا کلام تھا۔

یہ کونسا جادو تھا۔ یہ کوئی طاقت تھی، جو ہر انسان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی لیکن کوئی نظر تو نہیں آرہا تھا، یہ کوئی غیبی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ تو صرف لوگوں کی آواز تھی جو بول رہے تھے لبیک اللہم انسانی عقل حیران تھی کہ یہ گروہ در گروہ ساری دنیا سے کیوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے لمبے لمبے سفر کی تکالیف پھر بھی چہروں پر ایک سکون، ایک مسکراہٹ، ایک احساس خوشی، کیوں آتے ہیں یہ لوگ یہاں، کیا پاتے ہیں؟ ہاں یہ خدا کا گھر ہے، لیکن خدا صرف اس گھر میں تو نہیں رہتا، وہ تو ہر گھر میں رہتا ہے۔ ہر دل میں رہتا ہے۔ ضرورت ہے اسے ڈھونڈنے کی۔
دنیا میں کوئی اور مذہب ایسا نہیں جو اپنے چاہنے والوں کو اس طرح ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے، سال کے بارہ مہینے، دن کے چوبیس گھنٹے، یہاں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے، کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ مکان خالی نہیں رہتا۔
خانہ کعبہ میں اس قدر ہجوم کہ لوگوں کو عبادت کے لئے اندر جانا بھی مشکل تھا۔ مغرب سے پہلے ہی مسجد کے دروازے بند کردیئے گئے تھے، کیونکہ اندر اتنے لوگ تھے کہ مزید لوگوں کی گنجائش نہ تھی۔ دور دور سے آئے ہوئے لوگ حیرت بھری نظروں سے ان بند دروازہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے لئے باہر صحن میں جگہ تلاش کرلی۔ عشاء کے بعد لوگوں نے باہر آنا شروع کیا، تب باہر والوں کو اندر جانے کی جگہ ملی۔ ساری رات طواف کرکے وہ فجر کو باہر نکلے۔ نہ نیند کا غلبہ، نہ بھوک کا احساس صرف ایک خوشی کہ طواف کرلیا۔

یہاں آکے سب اپنی تکلیف بھول جاتے ہیں۔ اپنے خداوند کریم سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اپنے عزیز و اقارب کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور پھر اپنے گناہوں سے پاک ہوکر خانہ کعبہ سے باہر نکلتے ہیں۔

لیکن بہت سے لوگ جب واپس اپنی دنیا میں جاتے ہیں تو پھر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں جس کا انہوں نے خدا سے وعدہ کیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی پرانی روش پر آجاتے ہیں۔ جھوٹ ، بے ایمانی، سود خوری، غنڈہ گردی، کیونکہ اب ان کی آنکھوں کے سامنے خانہ کعبہ نہیں پیسوں کا خزانہ ہے۔ دنیا کے آرام و آسائش کا ۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان پر امارت کا ٹھپہ لگا سکے۔ اپنے محلوں کو اپنے عیش و آرام کو دیکھ کر نہ صرف وہ خوش ہوتے ہیں، بلکہ خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہیں یہ سب عیش و آرام خانہ کعبہ کی زیارت کے بدولت حاصل ہوئے اور پھر وہ اسی جوش و خروش کے ساتھ دوبارہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ پھر رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے رات رات بھر جاگ کر دعائیں کرتے ہیں اور پھر پہلے کی طرح خوشی خوشی واپس ہوکر اپنی زندگی کے کاروبار میں لگ جاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ خیال بس گیا ہے کہ حج اور عمرہ ان کے گناہوں کو دھوکہ دیتا ہے لہٰذا بہت سے باہمت اشخاص پھر سے ایک نیا اکاؤنٹ کھول لیتے ہیں۔
کاش! لوگ حج اور عمرہ کی حقیقت کو سمجھ سکتے۔ اس کے پیغام کو سمجھ سکتے، یہ ایک لائف سرٹیفکیٹ نہیں جو ہر سال خدا کے دفتر میں داخل کیا جائے۔ یہ تو ایک عہد ہے جو ایک بار کیا جاتا ہے، یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے، سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا خدا انسانوں کے دلوں میں ہے۔ غریبوں کی جھونپڑوں میں ہے۔ بیماروں کی تیمار داری میں ہے۔ یتیم اور مسکینوں کی آہوں میں ہے۔ خدا سے ملنے کے لئے خانہ کعبہ کی ضرورت نہیں ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر اَست