مجید خان
جناب مستنصر احمد صاحب، سابق چیف کمشنر انکم ٹیکس میرے مضامین دلچسپی سے پڑھا کرتے ہیں اور ان پر مفید تبصرے بھی کیا کرتے ہیں۔ کجریوال بھی انکم ٹیکس افسر تھے۔ غالباً اس محکمہ کی دھاندلیاں دیکھ کر وہ رشوت ستانی کے خلاف اناہزارے کے مقبول ترین عوامی احتجاج میں ان کے ساتھ ہوگئے۔ اس میں میری نظروں میں نہ تو انا کی اہمیت ہے نہ کجریوال کی۔ ان لوگوں نے صحیح وقت دبے ہوئے عوامی غصے کے سیلاب کے دروازے کھول دیئے۔ انہوں نے سچی بھوک ہڑتالیں شروع کیں اور عوام پر اپنے عزائم اور اشتہارات کا عملی ثبوت پیش کیا۔ یہ دونوں رشوت بھری زندگیوں سے اتنے بیزار ہوگئے تھے کہ اپنی جانوں تک کی قربانیاں دینے کیلئے تیار تھے۔
سچی بھوک ہڑتالیں وہ ہیں جہاں پر یہ لوگ مرنے کیلئے تیار رہتے ہیں مگر آج کل حکومتیں کسی کو مرنے نہیں دیتی ہیں۔ زور زبردستی سے ان کے مرن برت کو برخاست کیا جاتا ہے۔ ایک ہی شخص ہے جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ پیشہ وری مرن برتی تھا اور مطالبات منوانے کا یہ طریقہ اپناتا تھا مگر مرنے کا ارادہ قطعی نہیں تھا۔ غالباً وہ اس امید میں جی رہا تھا کہ انا ہزارے حکومت اس کے مرن برت کو ختم کردے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور وہ مر گیا۔ آخری وقت تک بھی اس کا ارادہ جینے کا تھا مرنے کا نہیں۔ اس کو اس کے ساتھی بھوک ہڑتال ختم کرنے نہیں دیئے اور مطالبات جب منظور ہوگئے تو دیکھئے کہ یہ شخص جینے کے انتظار میں مر چکا تھا۔ اگر اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو غالباً ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے اور بوٹی سری راملو تو بے خوف مرگیا اور آندھرا بالآخر بن ہی گیا اور وہ آنجہانی ہوکر رہ گیا۔
مگر انا اور کجریوال نے سر پر کفن پہن کر اپنا احتجاج شروع کئے تھے۔ وہ لوگ جب عوامی تائید کے سمندر منڈلاتے ہوئے دیکھے تو ان کو یقین ہوگیا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے ایک صاف و شفاف سیاسی انقلاب لانے کا۔ اناہزارے اور کجریوال میں جتنا عمر کا فرق ہے اتنا ہی فکروصبر کا۔ کہاں 75 سالہ انا اور ان کے عزائم اور کہاں کجریوال کے جنگی خطوط پر اقدامات۔ انہوں نے انا ہزارے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی ایک سیاسی پارٹی عام آدمی پارٹی کے نام سے قائم کی تاکہ اغراض و مقاصد ان کے منتخب کئے ہوئے انتخابی نشان سے صاف طور پر ظاہر ہیں جھاڑو۔ ان کا خیال ہیکہ سیاست اتنی گندی ہوچکی ہیکہ اب اس کو صفائی کی ضرورت ہے اور سارے ہندوستان میں جھاڑو بردار حمایتیوں کا تانتا بنتا جارہا ہے۔ ان کے وقت وقت پر دیئے وہ بیانات قابل غور ہیں اور انہیں نئی پارٹی کی حکمت عملی کا اظہار کرتی ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی دو بڑی اور قدیم پارٹیوں کو انہوں نے چوروں اور دلالوں کی پارٹی کہا ہے۔ جھاڑو عورتوں کے ہاتھوں سے نکل کر نوجوانوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ ہم کو جھاڑو کی سیاست اور جھاڑو کی نفسیات پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔
ان کے کٹر مخالفین بھی دل ہی دل میں ان کے خیالات سے کچھ حد تک تو متفق ہوں گے۔ اپنی جماعتوں کی وابستگیوں اور وفاداریوں کی وجہ سے کھلے عام ان کی تائید کر نہیں کرسکے مگر رشک ان کی کامیابیوں پر کئے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔ نوجوان اور ان جوشیلے لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں اور جوق در جوق نئے لوگ اس سے وابستہ ہوتے جارہے ہیں۔ گوکہ یہ سیاسی انقلاب ناقابل یقین ہے مگر قدیم اور مشہور سیاسی پارٹیاں بظاہر اس کو ایک عارضی عجیب و غریب واقعہ کہہ رہی ہیں مگر ان کے حرکات و سکنات سے ان کی کھلبلی، وحشت اور ہڑبڑاہٹ عیاں ہے۔ ’’ہر فرعونے را موسیٰ‘‘ کے مصداق۔ ظالم کی سرکوبی کیلئے کوئی نہ کوئی نیک بندہ پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ جتنی بھی مشہور سیاسی جماعتیں قومی سطح پر ہوں یا پھر علاقائی وہ سب اقتدار کے بازاری خریدار ہیں۔ کیا وہ عام لوگوں کے بہی خواہ اور دوست ہیں۔ منشور تو سبھی کے دل لبھانے والے ہیں اور لوگوں کی طمع کا استحصال کرتے ہوئے ان کو چھوٹے موٹے کھلونے دیکر یا پھر پیسے دیکر منتخب تو ہوجاتے ہیں مگر عوام پر ایسے مظالم ڈھاتے رہتے ہیں۔ مقامی غنڈہ گردی سے لیکر قومی سطح پر انسداد فرقہ پرستی بل کی مخالفت کرنا کونسی انسان دوستی ہے۔ جذبات سے کھیلنا، لوگوں کو مشتعل کرنا اور پھر اپنی پالی ہوئی خانگی غنڈوں کی فوج سے دہشت گردی مچانا اور اپنا الو سیدھا کرنا تو ان کا خفیہ منشور رہا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہیکہ ہر ہندوستانی ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہے مگر حالات سے معاہدے کرتا گیا۔ سمجھوتے کرتا گیا مگر اندر ہی اندر انتقام کی ایسی آگ بھڑکی جو انگریزوں کے خلاف بھی اتنی نہیں تھی۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی چیدہ چیدہ ہوا کرتی تھی مگر سارا ہندوستان بڑی پارٹیوں علاقائی پارٹیوں کو علامتی جھاڑو سے سبق سکھانا چاہتا ہے۔ یہی رفتار سے اس مہم کو عوامی تقویت ملتی رہے گی جو نظر آرہی ہے تو پھر کھاپٹ سیاستدانوں کو سر چھپانے جگہ نہیں ملے گی۔ ہندوستانیوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے شخصی پرستی۔ یہاں سے ہٹ کر ہم کو چاہئے کہ خیال پرستی اور نئے گروہ کے انقلابی عقائد و تصورات پر عمل کریں۔ اسی لئے اروند کجریوال کے چہرے کو ہٹا کر تحریک کے پیروکار عام زبان اور دلکش و دلچسپ نعرے عام کریں۔ مثلاً کجریوال کا یہ کہنا کہ موجودہ سیاست داں چور اور دلال ہیں۔
تھوڑے دن اور یہ نعرے لگیں تو کانگریس اور بی جے پی کی عرفیت یہی ہوجائے گی۔ میڈیا کی طاقت کو سمجھنا اور اس سے نپٹنا آسان کام نہیں ہے۔ ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا اور اس نومولود جماعت پر ایسے ایسے پیچیدہ حملے میڈیا کی طرف سے کئے جارہے ہیں جن کو یہ ناتجربہ کار نمائندے صحیح طریقے سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ حالیہ مثال پر ہی غور کیجئے پرشانت بھوشن کا کشمیر کے تعلق سے بیان جو اسے نجی خیالات کا اظہار کے اور اس نوزائیدہ پارٹی کے ذمہ داروں کو عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ سیاسی کہنہ مشق بھیڑیے تو شکار کرنے کی تاک ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور غیرضروری مصیبتوں میں ان کو گھیر لئے اور یہ معصوم اس کے نرغے میں آ ہی گئے۔ ہماری دعائیں ہیں کہ قدرت اس نیک ارادوں کی جماعت کو نظربد سے محفوظ رکھے۔ ان کے مخالفین عوامی جذبات کو بھڑکانے میں ماہر ہیں اور ایسی باتوں اور حرکات کا سوشیل میڈیا کے ذریعہ ایسا انتقامی پروپگنڈہ کریں گے جو ان ہی دوست باز لوگوں میں نفاق پیدا کرے گا۔ سب سے پہلا وار جو کریں گے اس کا ڈھکا چھپا تعلق سماج کے مختلف فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا۔
ساری سیاسی جماعتیں عوام میں ناجائز مقبولیت جو اصلی نہیں بلکہ بازاری اور مصنوعی ہوتی ہے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر ساری غوروفکر و حکمت عملیاں اپنی پارٹیوں کو اقتدار میں رکھنے کیلئے کام کرتی ہیں۔ عوام کے فلاح کے کام کو کوئی ترجیح نہیں دیتا۔ شخصیت پرستی کی انتہاء ان کی مہم سے واضح ہوجاتی ہے۔ نہ تو یہ عوامی تحریک ہے نہ پارٹی کی بلکہ صرف ایک خطرناک انسان کی سرپرستی ہے جس کی تقاریر میں فرقہ پرستی کی جھلک علانیہ نظر آتی ہے۔ بابا رام دیو کے استقبالیہ جلسے میں اس نے اشارہ کیا کہ لوگوں کو گوشت نہیں کھانا چاہئے یعنی گائے کے گوشت کے امتناع کے بعد یہ اگر وزیراعلیٰ بن جائے تو مرغیوں کو ذبح کرنے پر بھی پابندی لا سکتا ہے۔ حال میں ماہرین نفسیات کی ایک کانفرنس احمدآباد میں ہوئی تھی اور سب لوگ شاکی تھے کہ نان ویجیٹیرین مینو تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی قومی کانفرنس میں ممنوع تھا۔ دبے الفاظ میں مندوبین شکایت کررہے تھے مگر گجرات میں یہ ممکن ہے۔
ایسے وقت عام آدمی کی تحریک کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ عام آدمی پارٹی اپنی شکایت پر بہت زیادہ زور دیتی ہے۔ بی جے پی اس کے برعکس ہے اس کے ذمہ دار عہدیدار بھی اپنی حکمت عملی سے واقف نہیں ہیں کیونکہ اس کے پیچھے آر ایس ایس کی قدیم سوچ کارفرما ہے جو مودی کے ذہن و دماغ میں ہے غالباً ارون جیٹلی اور سشماسوراج بھی اس سے واقف نہیں ہیں۔ بی جے پی شروع ہی سے ایک سیاسی معمہ رہی ہے۔ یہ اپنے آپ کو جمہوری روایات کی پابند جماعت نتاتی ہے مگر ان کی باگ ڈور ایک غیرجمہوری فاشسٹ جماعت میں ہے جس کی کارکردگی جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔اس طرح کے تذبذب میں 7 دہے گذر گئے اور عام لوگوں نے یہ محسوس کیا ان کی مشکلوں سے انگریزوں سے حاصل کردہ جمہوریت بالآخر ہٹ کر سیاسی جماعتوں اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھ میں چلی گئی اور ہر پارٹی صرف ملک کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا چاہ رہی تھی۔ تمام سیاسی پارٹیاں سیاست اور جمہوریت کا حلیہ ہی بدل دیتی ہیں اوراس میں عام آدمی اور اس کی آواز غائب ہی ہوگئی تھی۔
اب جمہوریت کو عام آدمی پارٹی ایک بار پھر سے زندہ کررہی ہے اور اشتراکی جمہوریت کی نئی اصطلاح کا استعمال ہورہا ہے۔ منتخبہ نمائندوں کی اپنی جمہوریت کے برخلاف جنگل کی آگ کی طرح یہ تحریک سارے ہندوستان میں پھیل رہی ہے اور ایک سروے کے مطابق 44 فیصد لوگ اس کی تائید میں ہیں۔
کانگریس اور بی جے پی دو بڑی پارٹیوں کے خیموں میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کس کا پلہ بھاری ہوگا۔ میری امیدیں اس نئی انقلابی تحریک سے وابستہ ہیں جو کم از کم مودی جیسے خطرناک شخص کی راہوں میں ضرور روڑے اٹکائیں گے اور یہی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔