محمد ریاض احمد
ہندوستانی جمہوریت کیلئے یہ ہفتہ انتہائی صبر آزما رہا ۔ پارلیمنٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی مکہ بازی اور آندھرا سے تعلق رکھنے والے رکن لگڑاپاٹی راجگوپال کی جانب سے مرچ اسپرے کا استعمال تلگو دیشم رکن وینوگوپال ریڈی کے ایوان میں چاقو نکالنے کے واقعہ نے ساری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت ، پارلیمنٹ ، پارلیمانی اقدار و عظیم روایات کو شرمسار کردیا ۔ اس واقعہ کے دوسرے دن دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والے اروند کجریوال نے اسمبلی میں جن لوک پال بل کی ابتدائی مرحلہ میں ہی ناکامی پر اپنی حکومت کا استعفے پیش کردیا ۔ اس طرح عام آدمی کی منتخب کردہ عام آدمی پارٹی حکومت کا زوال بھی ملک کے عام آدمی کیلئے کسی سانحہ سے کم نہیں ۔ یہ دونوں واقعات ہندوستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جہاں تک پارلیمنٹ میں حکمراں کانگریس کے خارج کردہ رکن لگڑاپاٹی راجگوپال کے ایوان میں مرچ اسپرے استعمال کرنے کا سوال ہے اسے بلاشبہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں دہشت گردی کا واقعہ ہی کہا جائے گا ۔ پارلیمنٹ کو سیاستداں بڑے فخر سے مقدس مندر کا نام دیتے ہیں لیکن تلنگانہ بل کی پیشکشی کے موقع پر ایوان میں ارکان نے جس طرح کی نازیبا حرکتیں کی ہیں اس سے ہمارے ملک کے سیاسی اقدار میں آئی گراوٹ کا اندازہ ہوتا ہے اس واقعہ نے ساری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ دوسری طرف دہلی اسمبلی میں کانگریس کی تائید سے چلنے والی عام آدمی پارٹی حکومت نے جن لوک پال بل کو بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے ناکام بنادئے جانے کے بعد استعفے دے دیا ۔ اگرچہ لوک پال بل کی تائید نہ کرتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی نے اروند کجریوال کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا لیکن دونوں بڑی جماعتیں یہ بھول گئیں کہ آپ نے رشوت خوری ، بدعنوانی، سیاست سے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کو نکال پھینکنے اور غریب عوام کو تمام تر سہولتیں فراہم کرنے کی خاطر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور شاندار کامیابی حاصل کی ۔ دہلی اسمبلی میں لوک پال بل کی تائید 27 اور مخالفت 42 ارکان نے کی جس سے یہ واضح ہوگیا ہیکہ کانگریس اور بی جے پی کسی بھی طرح رشوت خوری و بدعنوانی کا انسداد نہیں چاہتے ۔ بقول اروند کجریوال ان دونوں جماعتوں کو خوف ہیکہ اگر دہلی اسمبلی میں لوک پال بل منظور ہوتا ہے تو ان کے نصف سے زیادہ قائدین رشوت خوری ، بدعنوانی اور مجرمانہ پس منظر رکھنے کے نتیجہ میں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے ۔ اروند کجریوال اور ان کی پارٹی نے لوک پال بل پیش کرنے اور اس کی ناکامی کی صورت میں مستعفی ہونے کا فیصلہ یوں ہی نہیں کرلیا تھا بلکہ یہ فیصلہ بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا گیا ۔ انھیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ 70 رکنی دہلی اسمبلی میں جہاں بی جے پی کے 31 اکالی دل کا ایک ، کانگریس کے 8 اور عام آدمی پارٹی کے 28 امیدوار ہیں دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو کر بل کی پیشکشی کو روکیں گی یا پھر اسے ناکامی سے دوچار کردیں گی ۔ آپ کا خدشہ بالکل درست ثابت ہوا ۔ کانگریس نے حسب روایت تائید کے باوجود وعدہ خلافی کی اور بی جے پی نے کانگریس کی راہ اختیار کی تاہم کجریوال اور ان کے ساتھی اتنے بیوقوف نہیں ہیں وہ یہی چاہ رہے تھے کہ بدعنوانی کے مسئلہ کو پس پشت ڈالنے والی کانگریس اور بی جے پی کا خفیہ ساز باز منظر عام پر آجائے چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ کانگریس اور بی جے پی عوام کے سامنے پوری طرح بے نقاب ہوچکی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے کسی ایک مقصد کیلئے ہی کجریوال حکومت کے مستعفی ہوجانے کی راہ ہموار کی ۔ اب کانگریس اور بی جے پی اس بات کا رونا رورہے ہیں کہ اس بل کو ایوان اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل مرکزی حکومت سے منظوری حاصل نہیں کی گئی جبکہ ان کی اس حرکت کے پیچھے کارفرما وجوہات کے بارے میں دونوں جماعتیں اور ان کے قائدین اچھی طرح واقف ہیں ۔ اگر یہ بل اسمبلی میں منظور ہوجاتا تو ان جماعتوں کے تقریباً اہم سیاستداں ، وزراء اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مالیہ فراہم کرنے والے صنعت کاروں کے خلاف تحقیقات شروع ہوجاتیں ۔ اروند کجریوال اور ان کی حکومت کا استعفی دراصل بدعنوانی ، اقربا پروری اور رشوت خوری کی غلاظت میں لپیٹے ہوئے سیاسی نظام کو صاف کرنا ہے اور آپ اس صفائی کا آغاز گذشتہ سال ڈسمبر میں دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہئوے کرچکی ہے ۔ انتخابات کے بعد دہلی میں بی جے پی 31 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن اس نے حکومت تشکیل دینے کی ہمت نہ کی جبکہ کانگریس نے اپنے 8 ارکان اسمبلی کی تائید کا پیشکش کرتے ہوئے آپ کو تشکیل حکومت پر آمادہ کیا ۔ اس کیلئے آپ نے باقاعدہ عوام سے پوچھا کہ اسے حکومت بنانی چاہئے یا نہیں ؟ عوام نے مثبت رائے دی اس طرح دہلی میں جسے 1993 میں ریاست کا درجہ دیا گیا ایک غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی حکومت تشکیل پائی ۔ اروند کجریوال کی پارٹی نے دہلی اسمبلی انتخابات میں پہلی مرتبہ حصہ لیتے ہوئے ملک کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ عام آدمی کے ذہنوں میں انقلاب برپا کردیا جبکہ آپ کی جھاڑو نے بدعنوان سیاستدانوں کی طبیعت ہلکی کردی ۔ کجریوال نے گذشتہ سال 28 ڈسمبر کو دہلی کے ساتویں چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا تھا تقریب حلف برداری بھی ہندوستانی تاریح کی سب سے منفرد تقریب رہی ۔ وہاں کوئی خاص یا اہم آدمی نہیں تھا بلکہ سب عام آدمی ہی تھے ۔ اس غیر معمولی کامیابی کے بعد 128سالہ قدیم کانگریس اور 34 سال پرانی بی جے پی کے قائدین اس بات پر فکرمند ہوگئے کہ دہلی میں تو آپ نے بازی مارلی ہوسکتا ہے کہ مجوزہ لوک سبھا انتخابات میں ان کے سیاسی ارمانوں پر عام آدمی پارٹی پوری طرح جھاڑو پھیردے ۔ ویسے بھی ایک ماہ قبل کئے گئے سروے میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو جس نے 545 لوک سبھا نشستوں میں سے 350 نشستوں پر اپنے امیدوار ٹھہرانے کا اعلان کیا ہے 7 حلقوں میں کامیابی حاصل ہوگی لیکن تازہ ترین سروے میں انکشاف کیا گیا ہیکہ دہلی ، اترپردیش ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹرا ، کرناٹک اور گجرات سے عام آدمی پارٹی کے 20-30 امیدوار کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر اروند کجریوال ابھی سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملک کے طویل دورہ پر نکلتے ہیں تو ان کی جھاڑو یاترا کے نتیجہ میں بدعنوان سیاسی جماعتیں بالخصوص کانگریس اور بی جے پی کے ارمانوں پر جھاڑو پھرسکتی ہے اس لئے کہ پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت 32 فیصد ووٹ حاصل کرے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ جہاں تک عام آدمی پارٹی کو گرانے کا سوال ہے اس میں سب سے اہم رول ریلائنس گروپ آف انڈسٹریز کے صدر نشین و منیجنگ ڈائرکٹر مکیش امبانی کا رہا ہے ۔ ایل این جی کی قیمتوں کو لے کر اروند کجریوال کی حکومت نے مکیش امبانی وزیر پٹرولیم ویرپا موئیلی اور مرلی دیورا کے خلاف دہلی پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی ہے ۔ مکیش امبانی کے بارے میں مشہور ہیکہ وہ حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں اپنی دولت کے ذریعہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ خود اروند کجریوال کا کہنا ہیکہ جب ان کی حکومت نے مکیش امبانی کی گردن پر ہاتھ ڈالا کانگریس اور بی جے پی متحد ہوگئیں اور اس کے نتیجہ میں لوک پال بل کو شکست ہوگئی ۔ اروند کجریوال کے مطابق آج کانگریس اور بی جے پی نے مکیش امبانی کے دباؤ پر ہی ان کی حکومت گرائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’مکیش امبانی وہ شخص ہے جو اس ملک کی حکومت چلاتا ہے ۔ مکیش امبانی نے کہا کہ کانگریس میری دکان ہے میں جب چاہوں کانگریس میں جا کر جو مرضی خرید سکتا ہوں‘‘ ۔ 45 سالہ اروند کجریوال نے استعفی کے بعد عوام سے اپنے خطاب میں 58 سالہ مکیش امبانی کی پول کھول کر رکھ دی ۔ انکا کہنا ہیکہ مکیش امبانی یو پی اے حکومت چلارہے تھے اور پچھلے ایک سال سے وہ مودی کے پیچھے گھوم رہے ہیں ۔ مکیش امبانی دراصل کانگریس اور بی جے پی کے فینانسر ہیں ۔ یہی وجہ ہیکہ مودی آج ہیلی کاپٹر میں بیٹھے ملک کا دورہ کررہے ہیں ان کی بڑی بڑی ریالیاں منعقد کی جارہی ہیں ۔ آخر ان کے پاس اس کیلئے رقم کہاں سے آئی ۔ کجریوال کی یہ بات بالکل درست لگتی ہے ۔ اس لئے کہ دھیرو بھائی امبانی کے بڑے بیٹے مکیش امبانی سیاسی سازباز کے ذریعہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر کو کوڑیوں کے مول لوٹ رہے ہیں جبکہ غریب عوام کو انتہائی مہنگے داموں میں گیس فروخت کی جارہی ہے ۔ سیاستدانوں اور صنعتکاروں بالخصوص مکیش امبانی کے درمیان سازباز کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل قدرتی گیس کی قیمت فی ایم بی ٹی یو 2.34 ڈالرس تھی اسے 4.20 ڈالرس کردیا گیا اور اب یکم اپریل سے عوام پر بوجھ ڈالنے اور مکیش امبانی کی دولت میں اضافہ کرنے کیلئے کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت بی جے پی اور کارپوریٹ اداروں کی ملی بھگت سے گیس کی قیمت 8.40 ڈالر فی MBTU کرنے جارہی تھی لیکن 1989 میں آئی آئی ٹی کھڑکپور سے میکانیکل انجینئرنگ کی تکمیل کرتے ہوئے 1992 تک ٹاٹا اسٹیل جمشیدپور میں کام کرنے والیاروند کجریوال نے اس امکانی چوری کو بے نقاب کردیا ۔ کولکتہ کی مدر ٹریسا مشنریز اف چیارٹیز کیلئے بھی کام کرنے والے کجریوال اچھی طرح جان گئے کہ ہندوستان میں سیاستداں اور صنعت کار کس طرح ملک کی دولت لوٹ رہے ہیں چونکہ انھوں نے 1995-96 کے دوران انڈین روینو سرویس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے جائنٹ کمشنر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھی اس لئے ہندوستان کے غریب عوام کو کیسے لوٹا جارہا ہے وہ اچھی طرح جان گئے ۔ فروری 2006 میں ریونیو ڈپارٹمنٹ سے مستعفی ہو کر سماجی خدمت میں مصروف ہوئے کجریوال ہمیشہ سے ہی انقلابی ذہن کے حامل رہے ۔ 1999 میں انھوں نے جوابدہ حکمرانی کو یقینی بنانے پر پورتن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی ۔ 2000 تا 2005 آئی ٹی آئی تحریک میں سرگرم حصہ لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی حکومت نے 2005 میں قانون حق معلومات منظور کیا ۔ 2006 میں میگسے ایوارڈ حاصل کرنے والے کجریوال نے 2011-12 میں لوک پال بل کیلئے انا ہزارے کی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور پھر 26نومبر 2013 کو عام آدمی پارٹی شروع کی ۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات میں مسلسل 3 مرتبہ چیف منسٹر رہی شیلا ڈکشٹ کو ہراکر سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کرنے والے کجریوال کو اچھی طرح پتہ ہیکہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مکیش امبانی کو سلاخوں کے پیچھے نہیں دیکھ سکتیں جبکہ امبانی کے بارے میں وہ جو بھی کہہ رہے ہیں بالکل درست ہے ۔ اس لئے کہ عدن یمن میں 1957 دھیرو بھائی امبانی کے گھر پیدا ہوئے مکیش امبانی 1970 تک بھی بھولیشور ممبئی میں دو بیڈروم کے ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے لیکن آج وہ مسلسل 6 برسوں سے ہندوستان کے دولت مند ترین شخص ہیں ۔ دولت مندوں کی عالمی فہرست میں ان کا 19 واں مقام ہے ۔ ان کی نجی دولت 19.6 ارب ڈالرس بتائی جاتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنی دولت مکیش امبانی نے کیسے جمع کرلی ۔ بہرحال اروند کجریوال نے رشوت خوریاور بدعنوان سیاستدانوں میں ایک ہیبت طاری کردی ۔ عوام سے خطاب کے دوران انھوں نے ببانگ دہل کہا کہ کانگریس اور بی جے پی کو ڈر ہونے لگا تھا کہ آپ نے مکیش امبانی ، مرلی دیورا اور ویرپا موئیلی کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی اب شردپوار اور کمل ناتھ کے ساتھ دیگر سیاستدانوں کی باری بھی آسکتی ہے ۔ جہاں تک دہلی میں آپ کی 49 یومی حکمرانی اور کارگذاری کا سوال ہے اس نے بعض ایسے کام کئے ہیں جو کانگریس اور بی جے پی نے 70 برسوں میں نہیں کئے ۔ ہر خاندان کو ماہانہ 20 ہزار لیٹر مفت پانی کی سربراہی ، برقی شرح میں 50 فیصد کمی ، رشوت خور عہدہ داروں کے خلاف کارروائی ، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے حسابات کی آڈٹ ، غریبوں کے ہاتھوں اسپتالوں کا افتتاح ، ایسے کارنامہ ہیں جسے عام آدمی بھلا نہیں سکتا ۔ امید ہیکہ اروند کجریوال اپنی ساری طاقت دہلی اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں جھونک دیں گے ۔ اگر آپ 20 تا 30 نشستیں بھی حاصل کرتی ہے تو وہ بادشاہ گر کا رول ادا کرتی ہے ۔ دیانت داری اور بے ایمانی کی اس لڑائی میں بدعنوان اندرون طور پر متحدہ ہوچکے ہیں اس کے باوجود کجریوال کی جھاڑو عام آدمی کی طاقت کے بل بوتے پر ان کی پٹائی شروع کردے تو ممکن ہیکہ بدعنوانی کی گندگی سے ہندوستانی سیاسی نظام کسی قدر پاک ہوجائے۔
mriyaz2002@yahoo.com