کتنے چہرے ہیں تمہارے کوئی جانے کیسے

رشیدالدین

نتیش کی گھر واپسی …بہاری نے کی باہری سے دوستی
وندے ماترم کے لزوم پر پھر گرمائی سیاست

’’آپ کو بہاری چاہئے یا باہری‘‘ ڈھائی سال قبل بہار اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار نے عظیم تر اتحاد کی جانب سے یہ نعرہ لگایا تھا ۔ باہری سے مراد وزیراعظم نریندر مودی تھے لیکن موقع پرستی کے بدترین مظاہرہ کے ذریعہ وہی بہاری اور باہری ایک ہوگئے۔ بہاری ہونے پر فخر کرنے والے نتیش کمار نے بہاریوں کو ہاتھ دے کر باہری کا دامن تھام لیا۔ بہاری اور باہری کا یہ اتحاد دیرپا ثابت نہیںہوسکتا کیونکہ بہاری نتیش کمار نے کبھی بھی چیف منسٹر کی حیثیت سے میعاد مکمل نہیں کی بلکہ ہر دو سال میں ساتھیوں کو تبدیل کرنا ان کی عادت خاصہ بن چکی ہے۔ ایسے میں باہری اور بہاری پھر کب جدا ہوجائیں کہا نہیں جاسکتا۔ 12 برسوں میں نتیش کمار 6 مرتبہ چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف لے چکے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد محض ایک بہانہ ہے۔ لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی پر سی بی آئی مقدمہ کا بہانہ بنایا گیا جبکہ بی جے پی کے پاس جانا پہلے ہی سے طئے تھا۔ چند ماہ سے نتیش کمار اور مودی میں قربت کے اشارے مل رہے تھے۔ سارے سیاسی ڈرامہ کے اسکرپٹ رائٹر اور ڈائرکٹر مودی اور امیت شاہ ہیں۔ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انجام دیا گیا اور صرف 16 گھنٹوں میں نتیش کمار بی جے پی کی تائید سے دوبارہ چیف منسٹر بن گئے ۔ کرپشن کے نام پر نتیش کمار نے سیکولرازم اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ہم نے اسی کالم میں نتیش کمار کی بی جے پی سے دوبارہ دوستی کی پیش قیاسی کی تھی جو آج درست ثابت ہوگئی ۔ نتیش کمار نے سیکولر طاقتوں کو ایسے وقت کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ جارحانہ فرقہ پرستی مودی حکومت کی سرپرستی میں سر ابھارچکی ہے۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ کا رامناتھ کووند کے جائزہ لیتے ہی وزیراعظم نے کہا کہ بی جے پی نظریات کے سفر کا یہاں سے آغاز ہے۔ نتیش کمار نے سرجیکل اسٹرائیک ، نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور پھر صدارتی امیدوار کی تائید کے ذریعہ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا اور اپنے بہاری بڑے بھائی لالو پرساد کو چھوڑ کر باہری (مودی) کے ساتھ چلنے کا راستہ ہموار کرلیا۔

بہار اسمبلی کی انتخابی مہم میں مودی اور نتیش نے ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا۔ مودی کو ہٹلر اور فاشسٹ کہتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی کو بہار کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ مودی نے نتیش کمار کے DNA میں خرابی جیسا افسوسناک ریمارک کیا تھا لیکن آج دونوں ایک ہوچکے ہیں، ان میں ہٹلر کون ہے اور کس کے DNA میں خرابی ہے ، اس کا فیصلہ عوام کریں گے۔ 2015 ء میں مہاگٹھ بندھن نے سیکولرازم کے نام پر ووٹ مانگے تھے اور عوام کا فیصلہ مخالف مودی اور مخالف بی جے پی آیا تھا۔ مرکز سے ایک لاکھ کروڑ سے زائد کے پیکیج کے اعلان کے باوجود عوام نے عظیم تر اتحاد کو اقتدار کے قابل سمجھا لیکن نتیش کمار نے اتحاد میں رخنہ پیدا کرتے ہوئے بہار کے رائے دہندوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ انہوں نے ملک میں سیکولر طاقتوں کے اتحاد کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ یہ ڈرامائی تبدیلیاں اچانک نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے تاکہ 2019 ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی کا کوئی مقابل نہ رہے۔ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن جماعتیں 2019 ء میں مودی کے مقابل نتیش کمار کو عوام سے روبرو کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے ۔ مودی ۔امیت شاہ جوڑی نے اپوزیشن کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔ اپوزیشن اتحاد جنہیں دولہا بنانا چاہتا تھا، وہی مودی کے باراتی بن بیٹھے۔ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا، یہ تو سچ ہے لیکن نتیش کمار نے اقتدار اور کرسی کیلئے اتنی مرتبہ اصولوں سے انحراف کیا کہ ان کا شمار موقع پرست سیاستدانوں میں سرفہرست ہوچکا ہے ۔ کسی بھی شخصیت کی پہچان اس کی اصول پسندی ہوتی ہے لیکن ایسے قائدین کو کیا کہیں گے جن کیلئے ابن الوقت کا جملہ بھی معمولی پڑ جائے گا ۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں اور سنگھ پریوار کی سرگرمیوں سے مقابلہ کی ضرورت ہے، نتیش کمار نے سنگھ پریوار کو مستحکم کرنے کا کام کیا ہے۔ خود کو سوشلسٹ تحریک سے وابستہ کرنے والی نتیش کمار کا یہ جرم بہار اور ملک کے عوام کے نزدیک ناقابل معافی ہے۔

بی جے پی سے اتحاد یوں تو نتیش کمار کیلئے کوئی نیا تجربہ نہیں ہے ۔ 17 برس تک وہ بی جے پی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ آخر کار اس طویل رفاقت میں ان کے اثر کو قبول کرنا فطری ہے۔ لہذا 17 سال بعد نتیش کمار کی گھر واپسی ہوگئی ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ 17 سال کی دوستی کے بعد نریندر مودی کو وزارت عظمی کا امیدوار بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے 2013 ء میں نتیش کمار نے علحدگی اختیار کرلی تھی لیکن آج ایسے وقت مودی کے ساتھ ہوگئے جب وہ وزیراعظم ہیں۔ 2013 ء کا فیصلہ درست تھا یا آج کا فیصلہ صحیح ہے؟ نتیش کمار آج فرضی اور نام نہاد سیکولر ہوگئے یا پھر نریندر مودی حقیقی سیکولر ہوچکے ہیں ؟ ان سوالات کا جواب نتیش کمار کو دینا ہوگا۔ گجرات فسادات کے بعد نتیش کمار مرکز کی این ڈی اے حکومت میں برقرار رہے لیکن وزارت عظمیٰ کیلئے مودی کے نام پر اعتراض کیا تھا۔ کیا آج مودی کی تمام خامیاں خوبیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں؟ 17 سال بعد گھر واپسی اور بی جے پی کی تائید سے 17 گھنٹوں میں حکومت کی تشکیل دراصل عوامی فیصلہ سے مذاق ہے۔ لالو پرساد کے فرزند ڈپٹی چیف منسٹر کے استعفیٰ کے مسئلہ پر ہوا کھڑا کیا تھا اور طئے شدہ پروگرام کے مطابق انچارج گورنر کو مغربی بنگال سے راتوں رات طلب کر کے استعفیٰ اور بی جے پی کی تائید کا ڈرامہ رچا گیا۔ حلف برداری کو انتہائی راز میں رکھا گیا ۔ میڈیا کو شام 5 بجے کی اطلاع دی گئی لیکن صبح 10 بجے حلف برداری تقریب منعقد کی گئی ۔ دراصل نتیش کمار کو عوامی احتجاج کا اندیشہ تھا اور وہ لالو پرساد کو کسی بھی قانونی کارروائی سے روکنے الجھائے ہوئے تھے۔

بہار کے رائے دہندوں نے عظیم اتحاد کو 5 سال تک حکمرانی کا حق دیا تھا۔ اگر بی جے پی کے ساتھ جانا ہی تھا تو نتیش کمار دوبارہ خط اعتماد حاصل کرتے ۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی پارٹی میں شمولیت کا اختیار حاصل ہے لیکن عوامی فیصلہ کا مذاق اڑانے کا حق حاصل نہیں ۔ اصول پسندی کا تقاضہ یہی ہے کہ نتیش کمار استعفیٰ دیکر دوبارہ عوام سے رجوع ہوں اور بی جے پی اتحاد کے نام پر نیا خط اعتماد حاصل کریں۔ سیکولرازم کے نام پر دیئے گئے ووٹ کو بی جے پی کی گود میں ڈالنے کا حق آخر کس نے دیا ہے۔ بی جے پی سے بار بار عاشقی اور آنکھ مچولی کے بجائے بہتر ہوگا کہ نتیش کمار پارٹی کو بھی بی جے پی میں ضم کردیں۔ اس طرح بار بار جمہوری اور سیکولر اصول مذاق کا موضوع بننے اور توہین سے بچ جائیں گے ۔ عوام کا کہنا ہے کہ جو شخص بہاریوں کا نہ ہوسکا وہ باہری کا کیسے ہوگا ؟ نتیش کمار شائد اپنا بیان بھول گئے کہ ’’مٹی میں مل جاؤں گا لیکن بی جے پی کے ساتھ نہیں جاؤں گا‘‘۔ نتیش کمار نے چند دن قبل اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کیلئے اپوزیشن امیدوار کی تائید کا اعلان کیا تھا۔ این ڈی اے میں واپسی کے بعد نتیش کمار کا موقف کیا رہے گا۔ بہار کے سیاسی حالات چند گھنٹوں میں کچھ اس طرح تبدیل ہوئے جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ خود بی جے پی انتخابات سے خوف زدہ ہے ، لہذا اس نے فوری طور پر نتیش کمار کی تائید کردی۔ اگر بہار میں بی جے پی مضبوط ہوتی تو وہ تائید کے بجائے نئے انتخابات کو ترجیح دیتی۔ نتیش کمار کو جس انداز میں دوبارہ حلف دلایا گیا، اس سے ریاستی گورنر کے دستوری رول پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ قواعد کے مطابق بڑی پارٹی کو تشکیل حکومت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے لیکن گورنر نے اس سے انحراف کیا، لہذا یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جاسکتا ہے۔ ریاستی گورنر نے مرکز کی کٹھ پتلی کا رول ادا کرتے ہوئے دیگر گورنرس کے رویہ کو مشکوک بنادیا ہے۔ موجودہ حالات میں اگرچہ بی جے پی بظاہر مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن ملک آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔

شائد مستقبل میں ایل کے اڈوانی کی یہ پیش قیاسی درست ثابت ہوگی جس میں انہوں نے ملک کے دوسری مرتبہ ایمرجنسی کی طرف بڑھنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ بہار میں سیکولر طاقتوں کو نقصان پہنچانے کے فوری بعد امیت شاہ نے اپنی ریاست گجرات میں کانگریس کو کمزور کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے تین ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں شامل کرلیا گیا ہے اور سونیا گاندھی کے بااعتماد سیاسی مشیر احمد پٹیل کو راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ ملک میں ہندوتوا طاقتوں کے استحکام کے دوران وندے ماترم کے لزوم کا مسئلہ پھر ایک مرتبہ تنازعہ کا شکار بن چکا ہے ۔ مدراس ہائیکورٹ نے تمام سرکاری اور خانگی اسکولوں میں وندے ماترم کو لازمی قرار دیا ہے ۔ اس فیصلہ کے فوری بعد مہاراشٹرا حکومت وندے ماترم کے لزوم کیلئے قانون سازی کی تیاری میں ہے۔ وندے ماترم کا لزوم یقینی طور پر مسلمانوں کے عقیدہ کے برخلاف ہے۔ اس گیت کے الفاظ شریعت اور اسلامی عقیدہ سے ٹکراتے ہیں لہذا علماء کی متفقہ رائے اس گیت کے خلاف ہے۔ ہندوتوا طاقتیں وقفہ وقف سے وندے ماترم کو لازمی قرار دینے کی کوشش کرتی رہیں لیکن اب تو عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس متنازعہ فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں فوری اپیل دائر کی جانی چاہئے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عدالتی فیصلہ کو چند دن گزر گئے لیکن مسلم جماعتیں اور تنظیمیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ انہیں صورتحال کے سنگین ہونے سے قبل خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔ نتیش کمار کی موقع پرستی پر لکھنو کے شاعر حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
کتنے چہرے ہیں تمہارے کوئی جانے کیسے
روز دکھاؤگے تم شعبدہ بازی کب تک