یوگا اور سوریا نمسکار …نئی شرانگیزی
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
رشیدالدین
اچھے دن اور سب کا ساتھ سب کا وکاس۔ ان وعدوں کے ساتھ عوام کو سنہرے خواب دکھاکر اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی ایک سال کے عرصہ میں اپنے خفیہ ایجنڈہ کے ساتھ بے نقاب ہوچکی ہے۔ ایک سالہ حکمرانی میں عوام کے چہروں پر مسکراہٹ تو نہیں آسکی لیکن جارحانہ فرقہ پرستی کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ ملک کو عدم استحکام اور ہر شعبہ میں انحطاط کے دوراہے پر کھڑا کردیا گیا۔ ایک سال کے عرصہ میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل نہ ہوسکی لیکن آرایس ایس اور سنگھ پریوار نے جو ایجنڈہ حوالے کیا، اس پر عمل آوری پر توجہ مرکوز ہے۔ وقفہ وقفہ سے نفرت کے پرچار اور عوام کو بانٹنے کے موضوعات کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی۔ یوگا اور سوریا نمسکار کے نام پر اب ایک نئی چھیڑخوانی کی گئی ہے۔ کیا سنگھ پریوار اقلیتوں کے صبر کا امتحان لے رہا ہے یا پھر انہیں مشتعل کرنے کی کوشش ہے؟ نریندر مودی ملک کو کس راستہ پر لے جاناچاہتے ہیں؟ ترقی، مساوات، مذہبی رواداری اور تمام طبقات کے ساتھ مساوی سلوک کیا یہی ہے جس کا وزیراعظم دنیا بھرمیں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ کیا دستور اور قانون کی پاسداری اور اس کی بالادستی کیلئے لیا گیا حلف یہی ہے کہ مذہبی آزادی سے متعلق دستوری حقوق کی دھجیاں اڑائی جائیں۔
نریندر مودی جو دنیا کے سامنے ایک مصلح کا نقاب لگائے پیش ہورہے ہیں، ان کی حکومت میں نفرت کے پرچارک بے لگام ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے جس وزیراعظم کی لگام ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کے ہاتھ میں ہو ، ان کی حکومت میں فرقہ پرست عناصر کا بے لگام ہونا کوئی عجب بات نہیں۔ رمضان المبارک کے آغاز سے عین قبل یوگا اور سوریا نمسکار کو اسکولوں میں لازمی قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک مضبوط بنانے کی سازش تیار کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 21 جون کو عالمی یوم یوگا منانے کی آڑ میں مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے اور ماہَ مقدس کے تقدس کو پامال کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ تمام اسکولوں میں یوگا پروگرام کے انعقاد اور سوریا نمسکار کے جبراً متعارف کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے عبادات کے خصوصی اہتمام کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس میں توحید اور خدا کی وحدانیت سے مسلمانوںکو مشرکانہ اعمال کی طرف موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوں تو اقوام متحدہ ہر سال 21 جون کو عالمی یوم یوگا کے طور پر مناتا ہے لیکن نریندر مودی سرکار نے جاریہ سال ہی اس یوم کو ملک بھر میں بڑے پیمانہ پر منانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ گزشتہ سال اس طرح کی تقاریب کا خیال کیوں نہیں آیا؟ مقصد صاف ہے کہ مذہبی جذبات کو ہوا دی جائے تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر کوئی غلطی کر بیٹھیں جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوجائے۔ یوگا اور سوریا نمسکار کی وکالت کرنے والے خود اس کے پابند نہیں۔ سنگھ پریوار کے کتنے قائدین ایسے ہیں جو یوگا اور سوریا نمسکار سے دن کا آغاز کرتے ہیں۔ صرف جاریہ سال اور وہ بھی رمضان المبارک کے دوران اس کیلئے اصرار کرنا محض شرانگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس یوم کو منانے کی دلیل پیش کرنے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ اقوام متحدہ ہر سال اور بھی عنوانات سے عالمی یوم مناتا ہے۔ اس کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی۔
ہر سال 14 فروری کو اقوام متحدہ والینٹائنس ڈے (یوم عاشقاں) کے طور پر مناتا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو بھی اس دن کا اہتمام کرنا چاہئے ، برخلاف اس کے والینٹائنس ڈے کی نہ صرف شدت سے مخالفت کی جاتی ہے بلکہ تفریحی مقامات اور پارٹی کے مقامات پر توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کی جاتی ہے۔ جب یوم عاشقاں اقوام متحدہ مناتا ہے تو سنگھ پریوار کو منانے سے گریز کیوں؟ ہندوستانی اور ہندو تہذیب پر حملے کے بہانے اس یوم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے مذہبی جذبات متاثر ہوں تو اقوام متحدہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ ٹھیک اسی طرح یوگا اور سوریا نمسکار اسلامی تعلیمات سے راست طور پر ٹکراتے ہیں، پھر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کیوں نہیں؟ ان پر جبراً مسلط کرنے کا جواز کہاں سے پیدا ہوگیا۔ ہندوستان کے آئین اور دستور کی مثال دنیا کا کوئی اور ملک پیش نہیںکرسکتا، جس میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے دین پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا حق دیا گیا ہے۔ اس طرح شریعت پر عمل آوری مسلمانوں کا دستوری حق ہے اور کوئی بھی طاقت اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ ایسے 100 نریندر مودی اور 1000 پروین توگاڑیہ و اشوک سنگھل بھی دستوری حق کو ختم نہیں کرسکتے۔ اگر ہندوستان میں بی جے پی پانچ سال کے بجائے 50 برس بھی حکمرانی کرلے اور اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے پھر بھی وہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔ حکومت ایک طرف کہہ رہی ہے کہ یوگا اور سوریا نمسکار لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے تو دوسری طرف سنگھ کے عناصر اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت دستور ہند کی پابند ہے تو اسے مسلمانوں کو اس پروگرام سے استثنیٰ کا اعلان کرناچاہئے ۔
سوریا نمسکار اور یوگا توحید اور شرک سے متعلق ایک سنگین مسئلہ ہے اور مسلمان کسی بھی صورت میں خدا کی وحدانیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ بقول علامہ اقبال ’’مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند‘‘۔ جب کبھی اسلام ، مسلمانوں اور اکابرین امت کو نشانہ بنانا ہو تو چند ایسے ناپاک چہروں کو آگے کردیا جاتا ہے جن کے نام بظاہر مسلم ہیں لیکن ان کا گھر بت پرستی کا مرکز ہے۔ وہ شخص مسلمانوں اور علماء پر نکتہ چینی کا حق کیسے رکھ سکتا ہے جو خود سنگھ پریوار کے گھر کا داماد ہے۔ تاریخ اسلام اور آج تک بھی ہر دور میں اس طرح کے چند چہرے ضرور دکھائی دیں گے جو مسلمانوں کے نام پر کلنک ہیں۔ مسلمانوں کو یوگا پروگرام میں شرکت کیلئے راضی کرنے دلیل پیش کی جارہی ہے کہ 43 مسلم ممالک میں یہ یوم منایا جارہا ہے۔ 43 کیا اگر تمام 56 اسلامی اور مسلم ممالک بھی یوگا کو تسلیم کرلیں تب بھی ہندوستانی مسلمان اس یوم کو ہرگز نہیں منائیںگے کیونکہ مسلم ممالک مسلمانوں کیلئے کوئی مثال یا آئیڈیل نہیں بلکہ قران اور حدیث مسلمانوں کا دستور حیات اور نمونہ ہے۔ اگر ساری دنیا بھی یوگا کو تسلیم کرلے تب بھی ایک سچا مسلمان اور خدا کی وحدانیت کو ماننے والا اس کی مخالفت کرے گا۔ مسلم اور اسلامی ممالک نہیں بلکہ اسوۂ حسنہ مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘ اس فرمان الٰہی کے خلاف دنیا کا کوئی بھی فرمان آئے گا تو مسلمان اسے جوتے کی نوک پر رکھ دیں گے کیونکہ اس کا اختیار خود دستور ہند نے دیا ہے۔ یہ اختیار صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو ہے۔ بعض نام نہاد اور لیٹر ہیڈ پر چلنے والی تنظیمیں اور خود کو ترقی پسند کہنے والے افراد حکومت کی تائید میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ شریعت اسلامی کے مقابلے نریندر مودی کو ترجیح دی جائے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے حقیر مفادات کیلئے آخرت کو تباہ کرنا ہردور میں مفاد پرستوں کا شیوہ رہا ہے۔ یہ نام نہاد تنظیمیں مسلمانوں کو یوگا میں شرکت کرتے ہوئے اشلوک کے بجائے اللہ تعالیٰ کا نام لینے کا مشورہ دے رہی ہے۔ پہلی بات یہ کہ کوئی سچا مسلمان کسی شرکیہ عمل میں شریک نہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ کہ نام نہاد مسلم دانشوروں کا یہ مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مورتی کے آگے ہاتھ جوڑکر ٹھہرا رہے اور دل میں اللہ کا نام لے۔ یوگا کے آسن اور سوریا نمسکار خالص شرکیہ اعمال ہے جسے مسلمان ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔ نمسکار کا مطلب سر جھکانا اور مسلمان سوائے اللہ کے کسی اور کے آگے سر نہیں جھکا سکتا۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے مخصوص ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے سوریا نمسکار سے انکار کرنے والوں کو سمندر میں ڈوب جانے کا مشورہ دیتے ہوئے شرانگیز بیان دیا۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو ہم گاندھی جی کے وہ الفاظ یاد دلانا چاہتے ہیں جو آزادی کے بعد کہے گئے تھے۔ گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد کا درس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جانے کیلئے صرف ایک ملک نیپال اور دوسرا سمندر ہے جبکہ مسلمانوں کے 43ممالک ہیں‘‘۔ اب یوگی ادتیہ ناتھ طئے کرلیں کہ انہیں کہاں جانا پسند ہے۔ دراصل ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے مرکز میں اقتدار ملتے ہی بے قابو ہوچکے ہیں۔ وہ جانتے نہیں کہ ملک کے عوام کی اکثریت سیکولرازم اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتی ہیں اور مٹھی بھر نفرت کے سوداگروں کے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ نریندر مودی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی نے عوام کو مایوس کردیا لیکن وعدوں کی عدم تکمیل اور ناکامیوں کی پردہ پوشی اور حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے وقتاً فوقتاً اس طرح کے جذباتی مسائل کو چھیڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان تمام سرگرمیوں پر نریندر مودی بدستور خاموش ہیں۔ انہوں نے حساس مسائل پر خاموشی میں منموہن سنگھ کا ریکارڈ صرف ایک سال میں توڑ دیا ہے۔ نفرت کا پرچار کرنے اور اشتعال انگیزی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی نے آج تک کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی۔ خود ان کی کابینہ میں موجود وزراء نے دستور اور قانون کے برخلاف بیان بازی کی لیکن نریندر مودی ان کی سرزنش تک نہیں کرسکے۔ آخر مودی اپنی خاموشی اور مون ورت کب توڑیں گے؟ ملک کے عوام بیان بازی اور تیقنات کے بجائے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر ماہ میں دو مرتبہ عوام کو من کی بات بتانے والے وزیراعظم کو ملک کی سلامتی اتحاد ، یکجتہی اور مذہبی رواداری کے مخالفین کی سرگرمیوں پر من کی بات عوام تک پہنچانی چاہئے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آگئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آگئے
rasheeduddin@hotmail.com