کب تلک خود کو بے خبر رکھیئے

رشیدالدین
جن کی آواز بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرچکی ہے، جن کے ’’دل نشین‘‘ انداز خطابت نے عوام کے دلوں کو فتح کیا۔ جب وہ عوام کے درمیان میں ہوں تو شعلہ نوائی کا انداز منفرد ہوتا ہے۔ الفاظ کے جس جادوگر نے اپنی تقاریر سے ملک کے سیاستدانوں میں نمایاں مقام اور شناخت بنائی۔ کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی زبان بند ہے؟ کس نے وزیراعظم نریندر مودی کو زبان بندی کیلئے مجبور کیا ؟ ملک اور بیرون ملک اپنے انداز خطابت کے جوہر دکھانے والی اس شخصیت کو ملک کے اتحاد اور سالمیت سے جڑے سنگین مسائل پر اظہار خیال سے کون روک رہا ہے۔ ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ سے بڑھ کر سنگین مسئلہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ نفرت کے سوداگر ملک کے مختلف علاقوں میں الگ الگ عنوانات سے عوام میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں

لیکن نریندر مودی ، حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے تماش بین کے کردار میں ہیں۔ دھرم اور مذہب کے سوداگر کھلے عام مذہبی جذبات کو مجروح اور مشتعل کرنے میں مصروف ہیں اور وزیراعظم بظاہر اپنی بے بسی کے ذریعہ درپردہ ان عناصر کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت تو بی جے پی کی ہے لیکن حکومت کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ گھر واپسی کے نام پر تبدیلی مذہب کی جس شرانگیز مہم کا آغاز کیا گیا، اس کے درپردہ عوامل اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ آر ایس ایس کی قیادت میں سنگھ پریوار خفیہ ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے۔ تبدیلی مذہب کی نفرت انگیز سرگرمیوں پر وزیراعظم ، پارلیمنٹ میں ایک لفظ کہنے تیار نہیں۔ برخلاف اس کے پارٹی کے بند کمرہ کے اجلاسوں میں مودی اس طرح کی سرگرمیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مودی کی کس بات پر بھروسہ کیا جائے؟ ملک میں منافرت پر روک لگانے لال قلعہ سے اعلان کرنے والے مودی کو درست مانا جائے یا اس وزیراعظم کو جو قانون ، دستور اور ملک کے سیکولر کردار کونقصان پہنچانے والوں کے خلاف لب کشائی سے گریزاں ہیں؟ تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر وزیراعظم سے بیان کا مطالبہ کرتے ہوئے 5 دن تک پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ رہی

لیکن نریندر مودی اپنا ’’مون ورت‘‘ توڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ آگرہ کے بعد اترپردیش کے مختلف علاقوں میں گھر واپسی کے نام پر تبدیلی مذہب کے پروگراموں کا اعلان کیا گیا۔ 25 ڈسمبر کو کرسمس کے دن علی گڑھ میں بڑے پیمانہ پر تقریب کا منصوبہ تھا لیکن اترپردیش حکومت کے سخت گیر اقدامات کے بعد پروگرام کی ناکامی کے خوف سے التواء کا اعلان کیا گیا ۔ ملائم سنگھ یادو کی سرپرستی میں چلنے والی سماج وادی پارٹی حکومت نے اس پروگرام کے بارے میں جو سخت موقف اختیار کیا، وہ دراصل مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنی حکومت بچانے کیلئے ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کے ذریعہ سنگھ پریوار اترپردیش میں صدر راج جیسی صورتحال پیدا کردے گا۔ ایسے میں انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ملائم سنگھ یادو کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، خود کو مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر پیش کرنے اور مسلمانوں کی تائید سے اقتدار میں بیٹھنے والے ملائم سنگھ نے پارلیمنٹ میں آگرہ میں مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر ہنگامہ کے دوران غیر ذمہ داری سے کام لیا۔ ایک طرف سارے ملک میں اس مسئلہ کو لیکر عوام میں بے چینی دیکھی جارہی تھی تو دوسری طرف ملائم سنگھ یادو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ان کی ریاست میں سب کچھ ٹھیک ہے۔

کرسمس کے دن فرقہ پرست تنظیموں نے جب عیسائیوں کو ہندو بنانے کا اعلان کیا تو ملائم سنگھ اور ان کی حکومت حرکت میں آگئی۔ اگر وہ مسلمانوں کے حقیقی ہمدرد ہوتے تو آگرہ کے واقعہ کو روک سکتے تھے۔ ان کی حکومت نے جبری تبدیلی مذہب کے خاطیوں کے خلاف کارروائی تک نہیں کی۔ اترپردیش میں حالیہ عرصہ میں مسلمانوں پر مظالم کے جس قدر واقعات پیش آئے ، وہ کسی بھی ریاست کے مقابلہ زیادہ ہیں۔ مظفر نگر فساد سمیت کئی واقعات کو روکنے میں سماج وادی حکومت ناکام ہوگئی۔ مظفر نگر کے متاثرین آج بھی امداد اور انصاف کو ترس رہے ہیں جبکہ خاطی آزاد گھوم رہے ہیں۔ ملائم سنگھ نے مسلم ووٹ کی سیاست کرنے کی کوشش کی لیکن سنگھ پریوار نے جبری تبدیلی مذہب کی مہم چھیڑ کر ملائم سنگھ کو اقتدار سے محرومی کے بارے میں اندیشہ کا شکار کردیا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے بابری مسجد کے قریب کار سیوا کو روک کر مسلمانوں کی ہمدردی لوٹنے والے ملائم سنگھ نے بعد میں بابری مسجد کی شہادت کے اصل ذمہ دار کلیان سنگھ کو گلے لگایا تھا۔ اترپردیش ہی کیا ملک کے مسلمان اور سیکولر عوام اسے کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر قومی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک کا رول انتہائی غیر ذمہ دارانہ رہا۔ آگرہ میں مسلمانوں کے جبری تبدیلی مذہب کی ویڈیو ریکارڈنگ جس انداز میں پیش کی گئی ، ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے یہ چیانلس سنگھ پریوار کے ترجمان ہوں ۔ آگرہ کے مسلم خاندانوں کو اشلوک پڑھتے ہوئے دکھایا گیا لیکن دوبارہ کلمہ پڑھتے ہوئے نہیں دکھایا گیا۔ کیا یہی میڈیا کی آزادی ہے ؟ لو جہاد کے بعد اب گھر واپسی کے نام پر سنگھ پریوار کی اس مہم پر ہنسی آتی ہے کیونکہ لو جہاد کے چمپین دو قائدین خود بی جے پی میں موجود ہیں۔ مختار عباس نقوی مرکزی وزارت میں ہیں جبکہ شاہنواز حسین پارٹی ترجمان ہیں۔ گھر واپسی کی اس مہم سے قبل سنگھ پریوار کو ان قائدین کی غیر مسلم بیویوں کے مذہبی موقف کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ کیا وہ گھر واپس ہوچکی ہیں یا اپنے شوہروں کو اپنے گھر میں شامل کرلیا ہے ؟

مرکز میں تشکیل حکومت کے 7 ماہ میں سنگھ پریوار اور بی جے پی سرگرمیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کو ’’غیر معلنہ ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کی سازش ہے اور وزیراعظم نریندر مودی دستور سے وفاداری اور پاسداری کے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس انداز میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ سوالیہ نشان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی ہر مسئلہ پر خاموش رہتے ہیں۔ جس طرح یو پی اے کے 10 سالہ دور میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اسکامس اور سنگین مسائل پر منہ نہیں کھولا، ٹھیک اسی طرح بعض مسائل پر مودی خاموش ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد سے آج تک مودی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سنگھ پریوار کی سازشوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کا سبب بننے والی شر انگیزی پر کبھی زبان نہیں کھولی۔ انہوں نے مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔ چونکہ سادھوی کے ریمارکس مخالف مسلم نہیں تھے بلکہ انہوں نے تمام بی جے پی مخالفین کو نشانہ بنایا تھا۔ مسلم اور دیگر مذہبی اقلیتوں سے جڑے مسائل پر خاموشی کے ذریعہ نریندر مودی شاید ’’غیر معلنہ ہندو راشٹر‘‘ کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے نام درج کرانا چاہتے ہیں ۔ سنگھ اور بی جے پی کی تمام سرگرمیوں کا محور اترپردیش ہے، جہاں 2017 ء میں اسمبلی انتخابات ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کی طرح اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ اترپردیش میں تشکیل حکومت کا ٹارگٹ ہے۔ یوں تو دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی دی ہے، اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے سابق میں دوسری ریاستوں میں بھی ہندوؤں کے تبدیلی مذہب کے واقعات پیش آئے لیکن سنگھ پریوار کا نشانہ صرف اترپردیش ہے جو انتخابی و سیاسی مقصد براری کو ظاہر کرتا ہے ۔ آندھراپردیش کے کئی علاقوں میں ہندوؤں کے عیسائی مذہب قبول کرنے کی زبردست مہم چلائی گئی اور راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں انٹلیجنس نے اس بارے میں رپورٹ بھی پیش کی تھی لیکن سنگھ پریوار کو آندھراپردیش میں گھر واپسی مہم کا خیال نہیں آیا۔ شاید اس لئے کہ وہاں اس کی حلیف تلگو دیشم کی حکومت ہے اور مرکز میں تلگو دیشم اور آندھرا میں بی جے پی اقتدار میں حصہ دار ہیں۔

جب اپنے حلیف کا معاملہ ہو تو خاموشی لیکن اترپردیش میں سیاسی فائدے کیلئے مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تبدیلی مذہب تنازعہ پر وزیراعظم کی خاموشی کی ایک اہم وجہ کشمیر اور جھار کھنڈ کے انتخابات ہیں۔ وہاں آخری مرحلہ کی رائے دہی ہفتہ کو مقرر تھی لہذا وزیراعظم نے اس سے قبل متنازعہ مسئلہ پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ اترپردیش میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کیلئے سنگھ پریوار کے ساتھ گورنر رام نائک بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستگی پر فخر ، رام مندر کی تعمیر کی تائید اور تبدیلی مذہب و گھر واپسی تحریک سے ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے گورنر نے دراصل بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی ہے۔ دستوری عہدہ پر فائز رہتے ہوئے رام نائک نے اس عہدہ کی توہین کی۔ وی ایچ پی قائد پراوین توگاڑیہ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے اجدادکو ہندو قرار دیا اور مغل حکمرانوں پر تلوار کے زور پر تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا۔ پراوین توگاڑیہ کو جان لینا چاہئے کہ اگر مسلم حکمراں واقعی ایسا کرتے تو شاید توگاڑیہ بھی مسلم خاندان میں جنم لیتے۔ مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مرکزی وزیر قانون سدانند گوڑہ نے یکساں سیول کوڈ کا نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ اس بارے میں ملک میں مباحث کا آغاز کیا گیا۔ رام مندر یکساں سیول اور کشمیر کی دفعہ 370 یقیناً بی جے پی کے قومی ایجنڈہ میں شامل ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں پر مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑے گا۔ تبدیلی مذہب اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل پر ملک کا مسلمان بے چین ہے لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ، ملی کونسل ، جمیعت العلماء اور دیگر قومی نمائندہ تنظیموں نے کوئی ہنگامی اجلاس تک طلب نہیں کیا اور نہ ہی ان سرگرمیوں سے مقابلہ کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔صرف مقامی سطح پر مذمتی بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا۔ کیا مسلم جماعتوں اور تنظیموں کا ایجنڈہ صرف ووٹ ، چرم قربانی اور زکوٰۃ کا حصول ہے؟ قیادتوں کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ جارحانہ فرقہ پرست ایک طرف سرگرم ہیں تو دوسری طرف ہماری قیادتیں سیاسی مقاصد کی تکمیل اور عہدوں کیلئے اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اسی طرح کی بے حسی جاری رہی تو یقینی طور پر سنگھ پریوار اپنے ایجنڈے پر عمل آوری میں کامیاب ہوجائے گا۔ ممتاز شاعر نکہت افتخار نے کیا خوب کہا ہے ؎
کوئی نشہ ہو ٹوٹ جاتا ہے
کب تلک خود کو بے خبر رکھیئے