کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ

بی جے پی پر کامیابی کا نشہ … کرناٹک ، کیرالا اگلا نشانہ
وسط مدتی چناؤ کی آہٹ … تلگو دیشم کا نیا ڈرامہ

رشیدالدین
شمال مشرقی ریاستوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے بی جے پی نے الیکشن میں کامیابی کا گر سیکھ لیا ہے۔ کانگریس مکت بھارت کے نعرے کے ساتھ نریندر مودی کا وجئے رتھ بائیں بازو کے قلعہ میں داخل ہوگیا۔ کانگریس کے ساتھ اب کمیونسٹ مکت بھارت کے نعرہ کو جوڑدیا گیا ہے۔ ویسے تو نریندر مودی اور سنگھ پریوار کو اپوزیشن مکت بھارت چاہئے جوکہ ہندو راشٹر کی شکل میں ہو۔ بی جے پی کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا۔ نئی ریاستوں میں حالیہ کامیابی کا یہ تسلسل عارضی ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں عوام حکومت سے ناراض ہیں جبکہ نئی ریاستوں میں مودی کی بولیوں اور جملہ بازی کا جادو چل رہا ہے۔ حال ہی میں مودی اور امیت شاہ کی ریاست گجرات میں محض معمولی فرق کے ساتھ بی جے پی کو دوبارہ کامیابی ملی۔ ملک نے دیکھا کہ مودی اور امیت شاہ کو اپنی ریاست میں پارٹی کا اقتدار بچانے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش جو بی جے پی کے مضبوط گڑھ مانے جاتے ہیں، وہاں ضمنی چناؤ میں کانگریس کو کامیابی ملی ۔ اترپردیش ، پنجاب اور مغربی بنگال کے مجالس مقامی چناؤ میں بی جے پی کا مظاہرہ کمزور رہا ۔ بی جے پی نے توڑ جوڑ کی سیاست بھی سیکھ لی ہے۔ جس طرح گوا میں کانگریس بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بی جے پی نے حکومت قائم کی ، اسی طرح گزشتہ دنوں میگھالیہ میں یہی کھیل دہراتے ہوئے کانگریس کے منہ سے اقتدار کا نوالہ چھین لیا گیا ۔ شمال مشرقی علاقوں میں کمزور موقف کے باوجود تریپورہ میں شاندار کامیابی یقیناً چونکا دینے والی ثابت ہوئی ۔ 5 سال قبل جس پارٹی کے تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی تھی، وہاں دو تہائی اکثریت کا حصول معمولی بات نہیں۔ کمیونسٹوں کے ناقابل تسخیر قلعہ پر بھگوا پرچم لہراتے ہوئے مودی نے اپنی صلاحیت کو منوالیا ہے۔ میگھالیہ میں کانگریس کو اقتدار سے روک دیا اور ناگالینڈ میں حلیف جماعت کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دی گئی ۔ ملک کی 21 ریاستوں پر بی جے پی کا راج ہوچکا ہے، جن میں 15 ریاستوں میں بی جے پی کے چیف منسٹر ہیں ، باقی میں وہ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ راجیہ سبھا کی 58 نشستوں کے انتخابات کے بعد اپریل میں بی جے پی کو راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔ بی جے پی کا اگلا نشانہ کرناٹک اور کیرالا ہیں جو کانگریس اور کمیونسٹ گڑھ ہیں۔ کیا بی جے پی کی ان ریاستوں میں گھر واپسی ہوگی؟ سیاسی مبصرین کے مطابق مودی کے 4 سالہ دور حکومت کی تکمیل کے بعد جن ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں کی میعاد ختم ہورہی ہے، وہاں دوبارہ کامیابی کی راہ آسان نہیں۔ برخلاف اس کے اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں میں مودی کا جادو اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے نتائج کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی ہلچل تیز ہوچکی ہے اور یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وسط مدتی چناؤ کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔

بی جے پی اپنے وجئے رتھ کی پیشقدمی میں کوئی رکاوٹ دیکھنا نہیں چاہتی۔ شمال مشرقی ریاستوں میں کامیابی کے جشن کے دوران ملک میں بڑے مالیاتی اسکامس منظر عام پر آئے ۔ ہزاروں کروڑ کے ساتھ بینکوں کو دھوکہ دینے والے بحفاظت ملک سے روانہ ہوگئے۔ اس اسکامس نے بی جے پی کے جشن کو کسی قدر پھیکا کردیا۔ قبل اس کے کہ مزید مالیاتی اسکامس منظر عام پر آئیں، کئی اور نیروو مودی ، ڈالمیا اور للت مودی پیدا ہوں، وسط مدتی انتخابات کے ذریعہ بی جے پی حالات بگڑنے سے قبل دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ حالات کے بگڑنے سے پہلے وسط مدتی انتخابات کیلئے بی جے پی کے پاس کچھ نہ کچھ موضوع اور ایجنڈہ ضرور ہونا چاہئے جس سے ہمدردی کی لہر اٹھ سکے۔ ہوسکتا ہے کہ کرناٹک کے نتائج کے بعد فرقہ وارانہ نوعیت کے حساس مسائل پر الیکشن لڑا جائے گا۔ آندھراپردیش میں نکسلائٹس کے قاتلانہ حملہ کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے ایک سال قبل وسط مدتی چناؤ کرائے تھے لیکن ہمدردی کے بجائے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کہیں یہی حشر بی جے پی کا نہ ہوجائے۔ نئی ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کا جشن، سونیا گاندھی کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کی کوشش ، تلگو دیشم کی مرکزی وزارت سے علحدگی ، یو پی میں ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد اور کے سی آر کی تھرڈ فرنٹ کی تیاری۔ یہ تمام تبدیلیاں وسط مدتی انتخابات کیلئے تیاریوں کا اشارہ دے رہی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں کامیابی کے جشن کے دوران تلگو دیشم نے حکومت سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے جھٹکہ دیا ہے۔ نریندر مودی حکومت کے چار برسوں میں بظاہر یہ پہلی دراڑ ہے لیکن چندرا بابو نائیڈو کی ٹائمنگ پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ نائیڈو ایک چالاک اور نباض سیاستداں ہیں۔ انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ شیوسینا حکومت اور این ڈی اے سے علحدگی کی دھمکیاں دے رہی ہے لیکن تلگو دیشم نے دھمکی پر عمل کردیا۔ نئی ریاستوںکی کامیابی کے جشن میں مدہوش بی جے پی نے جنوب کی دو ریاستو ںکے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف فیصلے کئے ہیں۔ خصوصی موقف کے مطالبہ پر آندھراپردیش اور مسلم و ایس ٹی تحفظات کے مسئلہ پر تلنگانہ کے خلاف فیصلہ کیا گیا۔ دراصل کامیابیوں نے بی جے پی قیادت کو مغرور کردیا ہے اور وہ کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ۔

تریپورہ نتائج کے بعد کرناٹک پر زعفرانی بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بی جے پی جو کرناٹک میں اقتدار میں رہ چکی ہے ، وہ دوبارہ واپسی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ ایک طرف نریندر مودی تو دوسری طرف راہول گاندھی کیلئے کرناٹک کے انتخابات ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہیں۔ کانگریس کو ملک میں ایک مضبوط اور بڑی ریاست میں اقتدار کو بچانا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی کو اپنی کامیابیوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جنوبی ریاستوں میں پارٹی کو مستحکم کرنا ہے۔ بی جے پی تریپورہ میں صفر سے سر تک پہنچ گئی اور لیفٹ کو اس کی رائیٹ جگہ پہنچادیا گیا ۔ جہاں تک مودی کی مقبولیت کا سوال ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کی کسی بھی پارٹی میں الفاظ تک بندی اور جملہ بازی کے ماہر مقرر نہیں ہیں۔ مودی اپنی حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے روبرو کامیابیوں کی طرح پیش کرنے کے ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کا وجئے رتھ گزشتہ چار برسوں میں بے لگام آگے بڑھتا رہا ۔ اترپردیش میں بدترین ہار کے بعد سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے ہوش ٹھکانے آرہے ہیں۔ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں بی ایس پی نے سماج وادی پارٹی کی تائید کا اعلان کیا ہے تاکہ اپوزیشن اور مخالف بی جے پی سیکولر ووٹس کو تقسیم سے روکا جاسکے ۔ کانگریس نے اپنے امیدواروں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اگر اسمبلی انتخابات کے وقت ایس پی اور بی ایس پی اپنی ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرتے تو شاید اس قدر بدترین شکست نہ ہوتی۔ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ بی جے پی کو اقتدار تحفہ میں پیش کردیا گیا۔ دوسری طرف سیکولر ووٹوں سے کامیابی کے بعد نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن دھام لیا ہے۔ بہار کے دلت قائد نتن مانجہی نے آر جے ڈی میں واپسی کرتے ہوئے مسلم دلت ووٹ متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادھر دہلی میں سونیا گاندھی نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

سونیا گاندھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ تنہا کانگریس پارٹی اس موقف میں نہیں کہ بی جے پی کو شکست دے سکے۔ لہذا انہوں نے متبادل محاذ کی تیاری شروع کردی ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد نہ ہوئیں تو کیرالا بھی کمیونسٹوں کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔ جہاں تک تلگو دیشم پارٹی کی مودی حکومت سے علحدگی کا سوال ہے ، یہ محض ڈرامہ سے کم نہیں۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے قائد جگن موہن ریڈی کی پد یاترا سے خوفزدہ ہوکر تلگو دیشم نے یہ قدم اٹھایا ہے جو اس کی مجبوری کے سوا کچھ نہیں۔ اگر تلگو دیشم کو آئندہ انتخابات میں شکست سے بچانا ہے تو چندرا بابو نائیڈو کے پاس حکومت سے علحدگی کے سواء کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وائی ایس آر کانگریس کی پیشرفت کو روکنے کیلئے تلگو دیشم اور بی جے پی نے مشترکہ طور پر یہ ڈرامہ تیار کیا ہے اور آئندہ انتخابات کے بعد دونوں پھر ایک ہوجائیں گے۔ چندرا بابو نائیڈو نے حکومت سے علحدگی اختیار کی لیکن این ڈی اے میں برقراری کا فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی عوام کیلئے ناقابل ہضم ہے کیونکہ جس پارٹی کی حکومت نے آندھراپردیش سے ناانصافی کی ہے ، اسی پارٹی کے محاذ میں برقراری کیا معنی رکھتی ہے۔ ایک طرف حکومت سے علحدگی ، دوسری طرف بی جے پی کی تائید دو متضاد فیصلے ہیں۔ اس فیصلہ سے ماقبل انتخابات کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آندھراپردیش کو خصوصی موقف کے مطالبہ پر چندرا بابو نائیڈو کو چار سال کی تکمیل کے بعد غصہ کیوں آیا ؟ انہیں تو ریاست کی تشکیل کے پہلے ہی دن سے سخت گیر موقف اختیار کرنا چاہئے تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خصوصی موقف کی فکر سے زیادہ انہیں وائی ایس آر کانگریس کی مقبولیت کا خوف ستا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بی جے پی۔تلگو دیشم میچ فکسنگ ہو۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے کانگریس اور بی جے پی کے متبادل کی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ موجودہ حالات میں تیسرے محاذ کی کوئی گنجائش یا جواز نہیں ہے۔ کانگریس اور کمیونسٹ کے بغیر کوئی بھی محاذ بی جے پی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ چندرا بابو نائیڈو اور کے سی آر کے اقدامات ابھی آغاز ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟ سیاستدانوں پر سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ