ڈاکٹر مجید خاں
کانگریس کا جو سارے ہندوستان میں حشر ہوا ہے اُس کا نفسیاتی پوسٹ مارٹم بھی کرنا چاہئے ۔
میں نصف صدی کانگریس کا شیدائی رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کانگریس کامتبادل ہو نہیں سکتا مگر گزشتہ چند سالوں میں مجھے احساس ہوگیا تھا کہ کانگریس حکومت ملک کیلئے زہر بنتی جارہی ہے ، اس کو میں سمجھانے کی کوششوں کروںگا ۔ اپنی عبرتناک شکست کے بعد اُن کے دانشور وجوہات پر غور کرنا شروع کرچکے ہوں گے۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ غور و فکر بھی بعض شرائط کے تابع ہی ہوتی ہے ۔ گوکہ یہ مضمون ان کیلئے کوئی اہمیت کا حامل نہیں ہوگا مگر اس پر کوئی توجہ تو دینا چاہئے ۔ 50 سالہ تجربہ رکھنے والا ماہر نفسیات کا تجزیہ کچھ تو وجوہات پروشنی ڈالے گا ۔ مگر یہ لوگ عوام سے کٹ چکے ہیں۔
آئندہ کے لائحہ عمل پر بے حساب بحث و مباحثے ہونگے ضرور ، مگر گاندھی خاندان سے بے وفائی نہیں کی جائیگی ۔ اس اندھی تقلید اور اٹوٹ وفاداری کے چنگل سے جب تک کانگریس اپنے آپ کو آزاد نہیں کریگی اُس کا مستقبل تاریک ہی رہے گا ۔ کیا کانگریس ایک نریندر مودی پیدا کرسکتی ہے ؟یہ ناممکن ہے ۔مگر جب تک کہ وہ مودی سے بہتر لیڈر کو تیار نہ کرے اُس کا بیڑا غرق ہی رہیگا ۔ اب گاندھی خاندان کی وہ کشش باقی نہیں رہی ۔ مانا کہ راجیوگاندھی جیسا لیڈر ہو تو پھر بات اور ہے۔ ہندوستان مرہون منت ہے اُس کی عصری غور و فکر کا ، اپنے زمانے میں اُس نے کمپیوٹر کی اہمیت کو سمجھا اور ٹکنالوجی کو عام کیا ۔ نریندر مودی بھی بغیر عصری ٹکنالوجی کے بے سر وپا ہوکر رہ جائیگا ۔ ان اہم نکات پر کسی بھی کانگریس دانشور کی نظر نہیں پڑی ہے ۔ اب ذرا کانگریس کے اعمال پر غور کیجئے ۔
دولت کمانا بلکہ کھسوٹنا ، یہ خصلت اُن کے رگ و ریشے میں پھیل گئی تھی کیا یہ لوگ ان عادتوں سے باز آسکتے ہیں ۔ اندرا گاندھی سے لیکر سونیا گاندھی بھی ان دھندوں سے واقف تھی۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے اس کو جائز طریقہ سمجھا جاتا ہے ۔ ہر چیف منسٹر کھلم کھلا جس کی تازہ ترین مثال راج شیکھر ریڈی ہے ، سرکاری خزانوں کو نہ صرف خوب لوٹا بلکہ اس عمل میں خود بھی مالا مال ہوتے گئے ۔ عوام نہ صرف مجبور بلکہ بیزار ہوچکے تھے مگر کوئی نجات کا راستہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ ایک تازہ ترین مثال میں پیش کرنا چاہوں گا ۔ ایککثیرمنزلہ دواخانے میں اچانک آگ لگی اور دو مریضوں کی موت ہوگئی ۔کافی ہنگامہ ہوا اور حکومت سخت تدابیر کا اعلان کرتے ہوئے نئے قانون کا نفاذ کردی جن کا عملی اور مکمل طریقے پر اطلاق کرنا ممکن نہیں تھا ۔ بغیر سوچے سمجھے قانون سازی ان کا شیوہ رہا ہو جیسے ہی یہ اعلان ہوا متعلقہ وزیر کے رشتے دار اور کئی ایم ایل اے کے رشتے دار آگ بجھانے کے نظام کو قائم کرنے کے لئے اپنے اپنے کاروباری شناختی کارڈ لیکر دواخانوں کو پہنچنے لگے اور من مانی لاگت کا مطالبہ کرنے لگے ۔ اگر ان کے ذریعہ کام کروایا جائے تو سرکاری سرٹیفکیٹ کا بآسانی اجراء ہوگاورنہ خلاف قانون کی پاداش میں ملوث کرنے کی دھمکی دی جارہی تھی ۔ اس لاگت میں سرکاری افسران کی رشوت اور معقول منافع ، سیاسی لیڈر ٹھیکے داروں میں شامل تھے ۔ یہ ایک حالیہ مثال مگر معصوم عوام کا استحصال ان سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں اور وہ بھی سرکاری ملازمتوں کی ملی بھگت سے عام رواج ہوچکا تھا ۔ عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی ۔ حاجتمند لوگ ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دیئے تھے ۔ تقررات ، تبادلے اور ترقیوں کے معاملات تو ان حریص نیتاؤں کیلئے سونے کی کانیں تھیں۔ ان کے اطراف اُن کے پیشہ ور دلال ہمیشہ اُن کو گھیرے ہوئے رہتے ہیں۔ ان کے بغیر آپ کی رسائی منتری جی تک ممکن نہیں تھی ۔
مودی کی الکٹرانک حکومت ان چمچوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے ۔ حالیہ ایک مثال دیکھئے ۔ بارہ بنکی اُترپردیش کے ایم ایل اے راوت نے خاموشی سے اپنے انتخابی صدر مقام پر اپنے والد کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے مامور کردیا ۔ آناً فاناً میں مودی حکومت نے اُس کی سرزنش کی اور اقربا پروری کے خلاف انتباہ دیا گیا ۔ کیا کانگریس حکومت ایسے کام کرنے کے قابل ہے۔ وہ تو ایسے کاموں کی برسرعام سرپرستی کرتی رہی ہے ۔ کیا کانگریس میں سدھار آسکتا ہے؟ پرانے اور خاندانی نیتا تو ناقابل اصلاح ہیں۔ وہ کاہل ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ نئی پود نئے خیالات لیکر اُبھرسکتی ہے مگر اس کے بھی آثار کم نظر آرہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے زیادہ عرصے تک کانگریس ہی کی حکومت رہی ہے مگر بنیادی سہولتوں سے عوام محروم رہے ۔ علاج و معالجے کے معاملے میں تو حالات ناگفتہ بہ ہوچکے تھے ۔ میڈیکل سائنس ترقی کررہی تھی ، علاج اور امتحانات مہنگے ہونے لگے تھے ۔ برقی کی سپلائی کا تو برا حال ہے ۔ ہر قدم پر رشوت کا بازار گرم تھا۔ ہر شخص اندرونی طورپر ایک انقلاب چاہتا تھا وہ کرشماتی طورپر آ ہی گیا ۔ کانگریس کو جو محاسبہ کرنا ہے اُس میں اُن کی ان غلطیوں کی وجوہات کو سمجھنا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے سرمائے کی ضرورت ہے اور سرمائے کیلئے رشوت کی سرپرستی ناگزیر ہے۔ بہرحال بی جے پی خود ہی اپنی اس ناقابل یقین عظیم کامیابی پر یقین نہیں کررہی ہے ۔ بہرحال سارے ہندوستان میں مخالف کانگریس جذبات اُبھرکر آئے اور اس تبدیلی سے عوام کو کچھ راحت تو ملی ہے ۔ سب سے تعجب خیز تبدیلی جو ہوئی ہے وہ ہے ایک ابدی ۔ نیم خوابی اور اقتدار کے نشے میں دھت حکومت کی عوامی برخاستگی مگر کیا ان کے دانشور کھلے ذہن سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں گے ۔ کریں تو اُن کا بھلا ہے ورنہ زوال جاری رہے گا ۔
دوسری خصوصیت جو اُن میں نمایاں بڑھتی ہوئی نظر آرہی تھی اُس کا تعلق غرور و تکبر سے تھا۔عوام کے ساتھ اُن کے روزمرہ کے رویے میں یہ ایک تکلف دہ پہلو بنتا جارہا تھا ۔ پہلی بات تو جو روش سے جڑی ہوئی تھی ۔ لیڈر کے لڑکے کالجوں سے بغیر امتحانات کامیاب کئے ۔ غیرسماجی عناصر کی صحبت میں وزراء کے اطراف چھائے ہوئے رہتے ہیں۔ منتری جی تک رسائی بغیر اُن کی مرضی کے ممکن نہیں۔ ان کے جارحانہ رویہ سے سڑکوں پر علانیہ پتہ چل جاتا ہے کہ ان کا تعلق اقتدار سے ہے ۔ پولیس والوں پر رعب کسنا ، عہدیداروں سے ٹیڑھی بحث اور ان کو ان کے تبادلوں کی دھمکیاں دینا روزمرہ کا معمول بن گیا تھا ۔ بحرحال ہر شخص مجبور اور تنگ آگیا تھا مگر نجات کی راہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ یہ جو انقلاب آگیا اُس میں عام آدمی کیلئے کچھ راحت تو نظر آرہی ہے ۔ مودی حکومت دہلی میں جو نئی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اُن سے مزید سدھار کی جھلک نظر آتی ہے ۔ منتریوں اور عہدیداروں کے درمیان دوریاں آگئی تھیں اور منتریوں میں احساس برتری اور زعم اقتدار بڑھ رہاتھا اُس کو مودی نے ایک میٹنگ میں متوازن کردیا ۔
انتظامیہ یعنی عہدیداران کا رتبہ سیاستدانوں اور خاص طور سے وہ سیاستدانوں سے جو کچھ عہدے کے حامل تھے کے درمیان ٹکراؤ کو ختم کردیا جیسا کہ ہونا چاہئے ۔ عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ میں ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئے ۔ 40 سالوں کے بعد مودی درست طورپر تمام اعلیٰ عہدیداروں کی ایک میٹنگ بلائی اور اُن کو اجازت دی کہ وہ کسی بھی وقت اُس سے ای میل کے ذریعے یا فون پر ربط پیدا کرسکتے ہیں۔ منتریوں کو اس میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔ قد آور نیتاؤ ں کو اُن کے نئے سرکاری مقام سے متعارف کردیا ہے ۔ اب دیکھئے آگے کیا ہوتا !مگر کیا شکست خوردہ کانگریس اس طرح سے سوچ بھی سکتی ہے یا نہیں صرف وقت ہی بتائے گا مگر مجھے اس کے مستقبل میں کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔