کانگریس کی خرابیاں

کسی کو دکھ کبھی دینا تو اتنا سوچ کر دینا
کسی کی آہ لگنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کانگریس کی خرابیاں
کانگریس پارٹی کو پے در پے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹاملناڈو کی لیڈر سابق وزیر ماحولیات جینتی نٹراجن کا پارٹی سے استعفیٰ اور نائب صدر کانگریس راہول گاندھی پر یوراج یا شہزادہ کا کردار ادا کرنے پر کی گئی تنقید نے پارٹی میں پائی جانے والی خرابیوں اور قائدین کی ناراضگیوں کو آشکار کردیا ہے۔ پارٹی کے اندر خاندانی حکمرانی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے جینتی نٹراجن نے پارٹی کے اندر تحفظ ذہنی کا ذکر کیا ہے ان کی سچ بیانی کے خلاف کانگریسی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو خود کو پارٹی کا وفادار اور خدمتگار سمجھتے ہیں جبکہ ان میں سے کئی قائدین ایسے بھی ہوں گے جنہیں نٹراجن کی باتوں میں سچائی نظر آرہی ہوگی مگر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے یا صدر پارٹی کی ناراضگی سے بچنے کیلئے نٹراجن کو نشانہ بنارہے ہیں۔ نٹراجن کے الزامات اور بیانات کا پارٹی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ الگ مسئلہ ہے مگر راہول گاندھی اور خاندانی حکمرانی پر جس طرح انہوں نے نکتہ چینی کی ہے تو قومی مفادات پر خاندانی مفادات کو ترجیح دینے کی کڑوی سچائی بھی سامنے آئی ہے۔ نومبر 2014ء کو سونیا گاندھی کو لکھے گئے مکتوب میں جینتی نٹراجن نے پارٹی کی خاندانی طرز کی حکمرانی پر جس طرح کے الزامات عائد کئے ہیں، اس پر مخالف سمت سے اٹھنے والی آواز کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ آخر انہوں نے کانگریس سے دیرینہ وابستگی اور وزارت کی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے دوران کوئی لب کشائی نہیں کی تو اب اچانک اس طرح کے انکشافات کا کیا مطلب ہے۔ قومی ماحولیات کے تحفظ کے پراجکٹ میں سونیا گاندھی کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کا بھی انہوں نے ذکر کرکے اس موضوع پر خاندانی دباؤ کو واضح کیا ہے۔ نٹراجن کی کارکردگی سے راہول گاندھی کتنا ناراض تھے اس کی گہرائی میں جانے سے پہلے ڈسمبر 2013ء کو انہیں ان کی وزارت سے اس لئے علحدہ کیا گیا کیونکہ راہول گاندھی تاجر اور صنعتی لابی کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ انتخابات سے قبل یو پی اے حکومت کی صنعتی پالیسی واضح ہے اور ماحولیات کی کلیرنس کے کام کو تیزتر کردیا جائے گا۔ اس لئے منموہن سنگھ نے نٹراجن کو ہٹا دیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ماحولیات کلیرنس میں تاخیر سے کام لے رہی ہیں۔ ان کے کام کاج میں سونیا گاندھی اور راہول گاندھی مداخلت نہیں کررہے تھے لیکن عام انتخابات کے دوران اچانک بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے جینتی نٹراجن کی جانب جھکاؤ ظاہر کیا تھا جس کی وجوہات اب ظاہر ہورہے ہیں۔ کانگریس نے جوابی اقدام میں یہی وضاحت کی ہیکہ نٹراجن کا پارٹی اور قیادت پر الزام دراصل اپنے نئے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر کیا گیا اظہارخیال ہے۔ ٹاملناڈو کے کانگریس قائدین کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے۔ پارٹی سے علحدگی کے بعد ان کا کوئی سیاسی وجود نہیں رہا ہے۔ ماضی میں موپنار نے اور حال ہی میں پی چدمبرم نے پارٹی چھوڑ کر اپنی نئی سیاسی ٹیم تیار کی تھی۔ اب جینتی نٹراجن بھی ان کی صف میں کھڑی ہیں تو کانگریس کیلئے خاص فرق نہیں پڑے گا۔ فی الحال کانگریس کی سیاسی ناکامیوں کی وجہ اس کی بعض فاش غلطیاں ہیں۔ ایسے میں اگر جینتی نٹراجن جیسے قائدین الزامات عائد کرتے ہیں تو ملک کے سیاسی ماحول سے مطلب پرستانہ استفادہ کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ کانگریس کو بھی چاہئے کہ وہ پارٹی قیادت اور نائب صدر کے بارے میں اٹھنے والی انگلیوں کا جائزہ لے۔ اگر راہول گاندھی پر تنقید ہورہی ہے تو یہ پارٹی کے مستقبل کیلئے مناسب نہیں ہے کیونکہ کانگریس میں ماورا ئے دستور اتھاریٹی کام کرنے کے طریقوں پر ماضی میں بھی کئی قائدین نے تنقید کی ہے۔ کانگریس کی ان سیاسی خرابیوں کی قیمت قوم کو چکانی پڑ رہی ہے تو اس غلطی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یو پی اے حکومت کے خاتمہ کی وجہ بھی اس کی مفلوج پالیسیاں ہیں یو پی اے دورحکومت میں ملک کو اخلاقی دیوالیہ، حکمرانی کے دیوالیہ پان اور میگا اسکامس سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس لئے 2004ء کے عام انتخابات نے اس پارٹی کو سبق سکھایا ہے۔ اب جینتی نٹراجن کے انکشافات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ کانگریس کے اندر شہزادہ اور ان کے حواریوں کی من مانی کے باعث قومی سطح پر عوام و ملک کا بہت بڑا خسارہ ہوا ہے۔ لہٰذا پارٹی کو موجودہ حالات میں اپنا طرزسیاست تبدیل کرنا ہوگا۔
ہند ۔ امریکہ دفاعی تعاون پر پاکستان کو تشویش
پاکستان نے صدر امریکہ بارک اوباما کے حالیہ دورہ پاکستان اور دفاعی معاہدات پر جس طرح کے تبصرے کئے ہیں یہ غیرضروری اندیشے پیدا کرنے کے مترادف ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے دفاعی روابط اور ہتھیاروں کے حصول کی رفتار پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے پاکستان نے جنوبی ایشیاء میں عدم استحکام پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کو اس طرح کی فکرمندی اس لئے ہورہی ہے کیونکہ ہندوستان نے حالیہ برسوں میں ہتھیاروں کی بڑی مقدار حاصل کی ہے لیکن اس سے علاقائی حکمت عملی کے استحکام میں خرابی کا جہاں تک سوال ہے یہ وقت سے پہلے علاقائی سطح پر حالات کا غیرمنطقی جائزہ لینے اور خرابیاں پیدا کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی امریکہ سے جس طرح کی دوستی ہے اس میں کوئی فرق نہیں آ سکتی۔ اگر ہندوستان نے سال 2014-15ء کے دوران اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مؤثر بنانے کیلئے مصارف میں 12 فیصد کا اضافہ کیا ہے تو اسے علاقائی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان نے بلاشبہ 38.35 بلین امریکی ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرچکا ہے تو پاکستان کو بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کی ترغیب ملے گی۔ روایتی ہتھیاروں کا حصول ہر ملک کی دفاعی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس پر پاکستان کو عدم اعتماد کی فضاء کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہیں۔ علاقوں میں ہتھیاروں کی دوڑ کو کم کرنے کی بات اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب علاقائی سطح پر امن کیلئے ہر ملک اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ علاقائی تعاون کے عمل کو فروغ دینے کیلئے باہمی عدم اعتماد کی فضاء کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ہندوستان اور پاکستان ایک بہترین پڑوسی ہیں انہیں ماضی کی اچھائیوں اور جذبہ دوستی کو حالیہ تلخیوں کی نذر نہیںکرنا چاہئے۔ دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہر ملک کی داخلی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ یا کسی اور ملک سے ہتھیاروں کی خریداری کسی بھی ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ ہندوستان کو بھی یہ واضح کرنے کی ضرورت ہیکہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے علاقائی عدم استحکام کیلئے نہیں بلکہ ہتھیاروں کے حصول کیلئے روایتی عمل کا تسلسل ہے۔