کانگریس کی جانب ٹی آر ایس کا جھکاؤ ، سیاسی چمتکار !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کانگریس کو دھوکہ دے کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین کی خاص کر کانگریس ٹکٹ پر منتخب ہو کر وفاداری بدلنے والے ارکان اسمبلی کی نیندیں اس دن سے حرام ہوگئی ہیں جس دن سے یہ خبر باہر آگئی کہ مرکز میں اگر کانگریس زیر قیادت مخلوط حکومت بنتی ہے تو ٹی آر ایس بھی کانگریس حکومت کا ساتھ دے گی ۔ مرکز میں جب ٹی آر ایس کا جھکاؤ کانگریس کی طرف ہوجائے گا تو یہ صورتحال تلنگانہ کے کانگریس قائدین اور ٹی آر ایس قائدین کے لیے سینہ کوبی کے سوا کچھ نہیں ہوگی ۔ وہ کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گے ۔ کانگریس چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے ان قائدین کو پہلے ہی عوامی ناراضگی کا سامنا ہے اب یہ لوگ اپنے حلقوں کا دورہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ عوام کی برہمی کا سامنا کرنے کا خوف پیدا ہوگیا ہے ۔ کل تک یہ لوگ ٹی آر ایس میں پناہ لیتے ہوئے خود کو محفوظ اور پانچوں انگلیاں گھی میں ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے اور یہ یقین ہوگیا تھا کہ کانگریس سے انحراف کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شامل ہونے کا انعام ملے گا ۔ اگر مرکز میں حکومت بنانے میں کانگریس ناکام ہوجائے تو ٹی آر ایس کو مرکز میں اہم رول ادا کرنے کا موقع ملے گا لیکن اب تمام تدبیریں بے کار ثابت ہونے والی ہیں کیوں کہ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت کو دوبارہ اقتدار ملنا مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس کو اقتدار اصل ہونا یقینی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے قبل ٹی آر ایس اور قومی کانگریس کے درمیان جو دوستی کی راہ ہموار کی جارہی ہے اس میں کانگریس کے باغی قائدین کے لیے شدید پشیمانی اور ذلیل ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مرکز میں کانگریس کے ساتھ ٹی آر ایس کا اتحاد ہوتا ہے تو یہ صورتحال تلنگانہ کانگریس کے قائدین کے لیے بھی تشویشناک ہوگی ۔ ٹی آر ایس کے قائدین کے لیے بھی پارٹی سربراہ کے سی آر کے غیر واضح موقف سے پریشانی لاحق ہوئی ہے ۔ ٹی آر ایس کے سینئیر قائدین کو یہ یقین ہے کہ کے سی آر مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے کے ساتھ نہیں جائیں گے لیکن حالات و آثار بتا رہے ہیں کہ ٹی آر ایس کو کانگریس کی جانب جھکنا پڑے گا ۔ این ڈی اے کی تائید کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا کیوں کہ نریندر مودی نے انتخابات کے نتائج کے اعلان سے پہلے ہی اپنے بیانات کے ذریعہ مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ وزیراعظم بننے والے نہیں ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا موقف ہنوز غیر واضح ہے ۔ صرف دیگر گوشوں سے ہی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ٹی آر ایس کو یو پی اے اتحاد میں شامل کیا جائے گا تاہم کے سی آر نے 21 مئی کے کل جماعتی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ دہلی میں غیر بی جے پی اتحاد کے لیے بات چیت کرنے یہ اجلاس منعقد ہورہا ہے ۔ اس اجلاس میں بھی غیر بی جے پی پارٹیاں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا انتخاب عمل میں لائیں گے ۔ ٹی آر ایس نے 21 مئی کے اجلاس میں شرکت سے اس لیے گریز کیا کہ اس اجلاس میں چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو بھی شرکت کریں گے ۔ جہاں نائیڈو ہوں گے وہاں کے سی آر نہیں ہوں گے ۔ اس کل جماعتی اجلاس کو چیف منسٹر آندھرا پردیش اور صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو نے ہی طلب کیا ہے ۔ اس میں صدر کانگریس راہول گاندھی بھی شریک ہوں گے ۔ٹی آر ایس کا وفاقی محاذ اس اجلاس کے فوری بعد اپنا موقف کھو دے گا یا وفاقی محاذ بننے سے قبل ہی اس کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اس مشن سے قبل ہی کے سی آر نے دوڑ دھوپ شروع کی ہے ۔ مختلف علاقائی پارٹیوں کے قائدین سے ان کی ملاقات کے مثبت نتائج بھی سامنے نہیں آئے ۔ وفاقی محاذ کے لیے سرگرداں کے سی آر نے گذشتہ سال دسمبر میں چیف منسٹر مغربی بنگال اور صدر ٹی ایم سی ممتا بنرجی سے ملاقات کی تھی اور ابتداء میں ممتا نے وفاقی محاذ نظریہ کی حمایت کی تھی ۔ لیکن اب ممتا بنرجی کا جھکاؤ تلگو دیشم کے سربراہ نائیڈو کی جانب ہوگیا ہے ۔ ایسے میں کے سی آر کا موقف معلق ہی رہے گا ۔ یعنی ’ وہ پھرتے ہیں شیر خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘ کے مانند سیاسی بیروزگاری میں الجھ جائیں گے ۔ اس میں ان لاڈلے قائدین کا کیا ہوگا جو کانگریس چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں ۔ اب وہ سیاسی بیروزگاری کا شکار ہوں گے ۔ یہ لوگ سیاسی حالات کو جھیلنے کے لیے مجبور ہوں گے ۔ وہ اپنے ہاتھوں میں اعتراف جرم کا پوسٹر لیے ٹی آر ایس میں بے یار و مددگار پڑے رہیں گے ۔ ٹی آر ایس اور کانگریس کی قومی دوستی کی خبروں نے تلنگانہ کانگریس کے اندر بھی متلی کی شکایت پائی جارہی ہے ۔ کل تک یہ کانگریس قائدین اپنی اپنی کرسیاں بچانے میں لگے ہوئے تھے ۔ اب اچانک ایک دوسرے پر کرسیاں پھینک کر لہو لہان ہورہے ہیں ۔ عام انتخابات کے نتائج کے آنے تک تلنگانہ کانگریس قائدین کا ذہنی توازن کیا ہوگا یہ غور طلب ہے ۔ تلنگانہ کانگریس اپنے وجود سے ہی محروم ہوتے دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسے میں تلنگانہ کانگریس کے ہر علاقائی لیڈر کی نظر پارٹی ریاستی صدر اتم کمار پر ٹکی ہوئی ہے ۔ یہ خواہش کررہے ہیں کہ وہ ہی پارٹی کی بقاء کے لیے کچھ کام کریں گے ۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اتم کمار کی کمزور قیادت نے پارٹی کو مزید کمزور بنادیا ہے ۔ اس لیے وہ ریاستی مسائل پر کانگریس کو سرگرم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں ہی کانگریس کے اندر ہی کانگریس پیدا ہوگئی اور کانگریس کا لیڈر اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا کے مصداق اپنی بغلیں جھانکنے لگا ہے ۔ یہاں حال اگر ٹی آر ایس کے قائدین کا ہے تو کوئی عجب نہیں ہے پارٹی سربراہ کے موقف کے سامنے وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ ٹی آر ایس کو این ڈی اے کے بجائے یو پی اے کا حصہ بنادیا گیا تو پھر تلنگانہ میں سیاسی منظر ہی بدل جائے گا ۔ کانگریس قائدین اپنی پارٹی کے ہائی کمان کے سامنے اُف نہیں کریں گے ۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج توقع کے برعکس ہوں گے تو سیاسی سودے بازی کا نیا دور شروع ہوگا ۔ پھر نیم کے درخت میں آم کی تلاش کرنے والے قائدین کو مایوسی ہی مایوسی ہوگی ۔ کل تک جن قائدین کی آپس میں بات چیت بند تھی اچانک ہار بن جائیں گے کانگریس کے لیے یہ نتائج واقعی سیاسی چمتکار ہوں گے ۔