عرفان جابری
نریندر مودی گزشتہ صدی کے اواخر نئی دہلی میں برسرکار بی جے پی عہدہ دار سے یکایک چیف منسٹر گجرات بنادیئے گئے اور پھر مئی 2014ء میں انھیں پارٹی میں اتھل پتھل کرتے ہوئے آر ایس ایس کی مدد سے کسی طرح وزیراعظم بننے کا موقع مل گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کا طرزعمل نہ کبھی وزارت اعلیٰ کے شایان شان رہا اور نا ہی انھوں نے وزارت عظمیٰ کو عزت بخشی! تقریباً بیس سال اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود انھیں خودستائی، تکبر، حسد جیسی منفی صفات کا مجسم پایا گیا۔ اُن کے غرور کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے حریفوں کا سیدھا سادہ نام لینا تک پسند نہیں کرتے بلکہ اُن کا حوالہ نت نئے طنزیہ القاب سے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے راہول گاندھی کو ڈسمبر 2017ء سے پہلے بھی ’’پپو‘‘ کہہ کر اُن کا مضحکہ اُڑایا اور صدر کانگریس بننے کے بعد بھی وزیراعظم کی نظر میں منگل 11 ڈسمبر تک راہول کی کوئی سیاسی وقعت نہیں تھی۔ وزیراعظم مودی، صدر بی جے پی امیت شاہ اور آر ایس ایس میں بوکھلاہٹ پیدا کرنے والے پانچ اسمبلی چناؤ کے نتائج کے بعد یہ تمام نے چپی سادھ رکھی ہے!
قارئین کرام! یہ تو ہوئیں وزیراعظم مودی اور اُن کے متعلقین کی باتیں، لیکن میں حالیہ انتخابی نتائج کے پس منظر میں یہاں ان سطور میں چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں جو قابل غور ہوسکتے ہیں۔ اسمبلی نتائج منظرعام پر آنے کے بعد صدر کانگریس نے جس طرح میڈیا کو مخاطب کیا، وہ بہت خوش آئند ہے۔ راہول کی سب سے بڑی خوبی اُن کی انکساری ہے۔ اُن کی تقریریں مخالفین کی ہتک کے معاملے میں وزیراعظم اور متعدد دیگر سیاسی قائدین سے کہیں بہتر ہوا کرتی ہیں۔ جنرل الیکشن 2019ء سے قبل کا بڑا و آخری انتخابی مرحلہ گزر چکا اور اب پورے ملک میں عام انتخابات (اپریل؍ مئی) کی تیاریاں اور سیاسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں گی۔
پہلا اہم نکتہ : راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومتیں بننے اور تلنگانہ و میزورم میں اسے کراری شکست کے پس منظر میں ملک کی سب سے قدیم پارٹی کو 2019ء جنرل الیکشن سے قبل تن آسانی سے بہت دور رہنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا نکتہ شکست خوردہ بی جے پی و آر ایس ایس سے متعلق ہے۔ وہ ناکامی کو خندہ پیشانی سے ہرگز قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے جواب میں مکاریوں اور سازشوں کے ذریعے کھویا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنا اُن کا وطیرہ ہے۔ مودی، امیت شاہ، بی جے پی اور آر ایس ایس کی امکانی سیاسی چالیں قابل غور ہوں گی، جس میں ای وی ایم کا بہت بڑا رول ہوسکتا ہے؛ 2019ء کے الیکشن سے قبل بالخصوص اترپردیش میں ماحول خراب ہوسکتا ہے جس کا اثر یقینا ملک کے دیگر حصوں پر بھی پڑے گا۔
تیسرا نکتہ ٹی آر ایس اور اُس کے سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر ہیں۔ وہ بلاشبہ تلنگانہ میں شاندار طریقے سے اقتدار برقرار رکھنے پر مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ تلنگانہ عوام نے اُن کی پارٹی کو کانگریس زیرقیادت ’مہاکٹمی‘ پر واضح ترجیح دی ہے۔ یہ سارا معاملہ ریاست کی حد تک ٹھیک ہے لیکن کے سی آر کے ذہن پر غیربی جے پی اور غیرکانگریس پارٹیوں کے تیسرے محاذ کا جو ’بھوت‘ سوار ہے وہ چھ ماہ قبل کرناٹک اسمبلی چناؤ سے پہلے بھی کسی کو قابل قبول نہ ہوا تو اب ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹی کے کھاتے میں مزید تین ریاستیں آجانے کے بعد اُن کی منطق پر ایم آئی ایم کے علاوہ کون کان دھرنے والا ہے، یعنی مجوزہ محاذ سراب ہے۔ کانگریس سے سیاسی کریئر شروع کرنے والے چندرا بابو نائیڈو اس پارٹی سے برسہا برس کی طویل دشمنی ختم کرسکتے ہیں تو اُس کی واحد وجہ کے سی آر اور اُن کی پارٹی کو ہرانا نہیں ہے بلکہ ’پیپلز فرنٹ‘ میں ملک کے گوشے گوشے سے پارٹیاں جمع ہونے کی بڑی وجہ منکسر المزاج راہول گاندھی ہیں۔ اور یقینا راہول کے مزاج نے چندرا بابو نائیڈو کو کانگریس کی طرف واپسی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بے شک ٹی ڈی پی لیڈر کو اپنی ریاست آندھرا پردیش میں اقتدار کی برقراری کے جتن کرنا ہے لیکن وہ قومی سطح پر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں بھی کانگریس کی قیادت میں اپنا رول ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح دیکھیں تو کے سی آر نے بھی کانگریس سے شروعات کی بلکہ وہ تو یو پی اے حکومت میں وزیر تک رہے، انھیں تلنگانہ میں چیف منسٹر بننے کا موقع بھی یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کی دلچسپی سے بی جے پی کی حمایت جٹاتے ہوئے کانگریس نے فراہم کیا۔ اب وہ سب کچھ فراموش کرگئے ہیں!
چوتھا نکتہ : ایم آئی ایم نے علحدہ تلنگانہ کی کھل کر مخالفت کی تھی بلکہ مرحوم صدر کے دور میں ٹی آر ایس کی تشکیل پر اس جماعت نے نئی پارٹی کے تئیں واضح بے التفائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 10 سالہ یو پی اے حکومت کی تائید کرنے کے بعد یکایک ایم آئی ایم کو کانگریس میں صرف غلطیاں نظر آرہی ہیں اور وہ پھر ایک بار ریاست میں برسراقتدار پارٹی کے حلیف بن چکے ہیں۔
حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سے قبل نہ صرف کانگریس بلکہ دیگر پارٹیوں اور سیاسی مبصرین کو تک یہی امید تھی کہ راجستھان میں باری باری تبدیلی ٔ اقتدار کی روایت اور وسندھرا راجے حکومت کی غیراطمینان بخش کارکردگی کی وجہ سے راہول گاندھی کو پہلی بڑی ریاستی انتخابی کامیابی ضرور مل جائے گی۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں معلق اسمبلیوں کی باتیں ہورہی تھیں۔ لیکن معاملہ برعکس ہوا۔ کانگریس نے چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کے اقتدار کو بُری طرح شکست دی جس کی خود ریاستی کانگریس قائدین کو توقع نہیں تھی۔ راجستھان میں کانگریس کو سادہ اکثریت سے ایک نشست کم ملی جبکہ مدھیہ پردیش میں وہ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے کسی طرح اُبھرتے ہوئے شیوراج سنگھ چوہان کا اقتدار ختم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں لوک سبھا ارکان کی مجموعی تعداد 65 ہے۔ راہول زیرقیادت کانگریس کے سامنے اب 2019ء کا الیکشن مشکل ترین چیلنج ہے ۔ پیپلز فرنٹ میں شامل تمام علاقائی پارٹیاں اپنی اپنی ریاست میں مضبوط ہیں، یعنی وہاں کانگریس کو مصلحت سے کام لیتے ہوئے اپنے حلیفوں کے اقتدار کا احترام کرنا ہوگا۔ اس کے بعد بچ جاتے ہیں بی جے پی حکمرانی والی ریاستیں جیسے یو پی، گجرات، مہاراشٹرا، بہار (مشترکہ اقتدار)، آسام، جھارکھنڈ، ہریانہ وغیرہ جہاں سے 543 رکنی لوک سبھا (مزید دو ارکان نامزد اینگلو انڈین ہوتے ہیں) میں مجموعی طور پر 232 ارکان پہنچتے ہیں۔ دستوری طور پر مرکز میں حکمرانی کیلئے لوک سبھا میں سادہ اکثریت (272) کا حصول لازمی ہے۔ 2014ء میں مودی کی نام نہاد لہر میں بی جے پی نے تنہا 282 سیٹیں جیتے جس میں سے زعفرانی پارٹی تقریباً ایک درجن نشستیں ضمنی انتخابات میں ہار چکی ہے۔ کانگریس کی لوک سبھا میں عددی طاقت 2014ء میں 44 سے بڑھ کر اب 48 ہے۔ متذکرہ بالا 232 لوک سبھا نشستوں میں بی جے پی کو ہراتے ہوئے کانگریس اپنی عددی طاقت میں لگ بھگ 100 کا اضافہ کرسکتی ہے، بہ الفاظ دیگر بی جے پی کی تقریباً اتنی ہی لوک سبھا نشستیں گھٹ جائیں گی۔ ایسی صورت میں تقریباً 300 سیٹیں دونوں پارٹیوں کے پاس ہوں گے۔ اور کانگریس کو علاقائی حلیفوں کی مدد سے غیربی جے پی حکومت بن سکتی ہے۔ چنانچہ راہول کی سرکردگی میں کانگریس کو سخت محنت جاری رکھنا اشد ضروری ہے۔ کسی بھی پارٹی لیڈر کی تن آسانی مہنگی پڑسکتی ہے۔جہاں تک مودی، امیت شاہ، بی جے پی اور آر ایس ایس کا سوال ہے وہ 2019ء کا موقع کامیاب بنانے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ 2014ء میں ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا مودی کا نعرہ اب ہوا ہوچکا ہے۔ مودی اقتدار کی شروعات ’ہجومی تشدد‘ (دادری واردات) سے ہوئی جس کے تدارک کیلئے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پھر ملک کو مودی حکومت نے ’نوٹ بندی‘ اور ’جی ایس ٹی‘ جیسے ’مضر تحفے‘ دیئے۔ تمام جمہوری اداروں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ چنانچہ عوام میں اس حکومت کی مقبولیت تو کچھ نہ رہی، اب ارباب اقتدار کیلئے رام مندر، گاؤکشی، یکساں سیول کوڈ، کثرت ازدواج، اذان، تبدیلی ٔ مذہب جیسے اَن گنت متنازع اور فضول مسائل ہی سیاسی بقاء کیلئے واحد سہارا ہیں۔ اس لئے قانون کے پابند تمام شہریوں کو آنے والے دنوں میں بہت چوکنا رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ای وی ایم بھی بڑا چیلنج ہے۔ مجھے کچھ یوں بھی لگتا ہے کہ ای وی ایم کو وقتی طور پر آزادی دی گئی جس پر عوام کی حقیقی رائے سامنے آئی اور وہ بڑی حد تک ای وی ایم کی مخالفت سے باز آگئے، لیکن ای وی ایم سے غفلت برتنا 2019ء میں کانگریس اور پیپلز فرنٹ کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔جیسا کہ میں نے اوپر اعداد و شمار کے ساتھ واضح کیا ہے کہ لوک سبھا میں تیسرے محاذ کیلئے معقول عددی طاقت ہی نہ ہوگی کہ کے سی آر یا کوئی بھی دیگر لیڈر غیربی جے پی اور غیرکانگریس حکومت کے تعلق سے سوچ سکیں۔ کے سی آر نے ابھی ابھی چار پارٹیوں کے ’مہاکٹمی‘ کو ہرایا ہے، جس کی تعریف نہ کرنا غلط بات ہوگی۔ تاہم، کے سی آر نے فتح کے بعد اپنے ابتدائی ردعمل میں دوبارہ تیسرے محاذ کی بات چھیڑی جو ناقابل فہم ہے۔ سیاسی قائدین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ عقلی اعتبار سے بہت اعلیٰ سوچ اور دوربینی رکھتے ہیں۔ بے شک، اُن کا ’IQ‘ (عام فہم معنی میں ذہنی قابلیت)دوسروں سے برتر ہوتا ہے لیکن ’دو اور دو پانچ ‘ نہ کبھی ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہوں گے!
اقلیتوں کا وسیع تر مفاد مقدم ہونا ضروری
میرا مکان اسمبلی اور لوک سبھا دونوں حلقوں کے اعتبار سے مجلس کے منتخب نمائندوں کے تحت آتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ 30 سال سے حق رائے دہی سے استفادہ کرنے والے فرد کی حیثیت سے اس جماعت کے سیاسی اقدامات اور اس کی پالیسی کے بارے میں واقفیت رکھنا فطری بات ہے۔ میں نے گزشتہ تقریباً بیس سال میں ایم آئی ایم قیادت کی پالیسی میں تسلسل و معقولیت نہیں دیکھی ہے جس سے یقینا پارٹی یا قائدین کا کچھ نہیں بگڑا اور نا ہی بگڑے گا لیکن پرانے شہر کے عمومی طور پر غریب و متوسط عوام ان فوائد سے ہنوز محروم ہیں جو انھیں حاصل ہونے چاہئیں۔ چیف منسٹر کے سی آر نے کئی بار ایم آئی ایم کو ’فرینڈلی پارٹی‘ قرار دیا مگر اس جماعت کے زیراثر علاقوں اور مکینوں کے حصے میں ’شادی مبارک‘ یا ائمہ و مؤذنین کو اعزازیہ جیسے خیراتی فوائد ہی آئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی اپنی آبادی کے تناسب سے ریاست و ملک کی ترقی میں اپنا حصہ چاہتی ہے کیونکہ دستور ہند کے اعتبار سے وہ مساوی درجہ کے شہری ہیں اور ملک کے تئیں اُن کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ چنانچہ حیدرآباد میں پرانے شہر کے نوجوان سرکاری روزگار چاہتے ہیں؛ وہ تعلیم و دیگر شعبوں میں سماجی و معاشی طور پر پسماندہ ہونے کے سبب خود کے سی آر کے وعدہ کے مطابق ریزرویشن چاہتے ہیں؛ انھیں اپنے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے کالجس چاہئیں؛ ریاستی دارالحکومت کے جنوبی حصے میں بڑا سرکاری دواخانہ چاہئے (عثمانیہ ہاسپٹل دن بہ دن مخدوش ہوتا جارہا ہے)؛ راستوں و سڑکوں کے بشمول بہتر انفراسٹرکچر پرانے شہر کی اشد ضرورت ہے؛ میٹرو ٹرین کی دستیابی بھی متاثرین کو معقول معاوضہ کے ساتھ ضروری ہے؛ ہم قانون کے پابند شہری ہیں، غنڈے یا غیرسماجی عناصر نہیں، اس لئے ہمارے اطراف و اکناف پولیس اسٹیشنوں کا جال نہیں بلکہ سرکاری دفاتر اور بڑے تجارتی اداروں کا نٹ ورک مطلوب ہے۔ مختصر یہ کہ ایک ہی سٹی میں نئے شہر اور پرانے شہر کے درمیان امتیازی سلوک غیردستوری ہے اور ہمیں بھی مساوی درجہ دیا جائے، جس سے انکار کی حکومت کے پاس کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
مذکورہ بالا تمام مسائل کے حل میں ایم آئی ایم کو کبھی سرگرم رول ادا کرتے نہیں دیکھاگیا۔ اب ضروری ہے کہ وہ محض انتخابی سیاست میں محدود کامیابی سے آگے دیکھنا شروع کریں۔ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے کہ 2014ء میں بارہ اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کرنے والی پارٹی نے اس مرتبہ صرف آٹھ پر اکتفا کرلیا۔ پھر یکایک رجسٹرڈ پارٹی کے موقف اور معروف انتخابی نشان کو برقرار رکھنے ووٹوں کا تناسب بڑھانے کے نام پر وہ بیرون ریاست الیکشن لڑنے نکل پڑتے ہیں اور دو، دو درجن امیدوار تک انتخابی میدان میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ ہر پارٹیملک میں کہیں بھی کوئی بھی الیکشن لڑسکتی ہے لیکن اگر اس سے انتخابی کامیابی تو کچھ نہ ملے بلکہ سکیولر مفادات کو نقصان کے ساتھ فرقہ پرست عناصر کی بالواسطہ مدد ہونے لگے تو ایسا الیکشن لڑنے کے بجائے طاقتور سکیولر قوتوں کا ساتھ دینا بہتر ہے، جیسا کہ اب وہ ٹی آر ایس کے ساتھ کھڑے ہیں حالانکہ اسمبلی میں عددی طاقت کے اعتبار سے انھیں کسی کی بھی تائید درکار نہیں۔ جہاں تک ایم آئی ایم کے ووٹوں کا تناسب بڑھانے کا معاملہ ہے، اس کیلئے تو خود اپنے انتخابی حلقے، پورا دارالحکومت شہر اور پوری ریاست ہر کسی کیلئے کھلا انتخابی میدان ہے!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com