تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ علاقہ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی کی طرف بڑھ رہا ہے، کسی علاقہ کے عوام کی قوت گویائی چھین لی جائے تو وہ غلام بن جاتی ہے اور غلام کو جو بھی گالی دی جائے ہنسی خوشی تسلیم کرلیتا ہے۔ تلنگانہ میں ہر لیڈر صرف ایک سیاسی طاقت کا غلام بننے کی آرزو رکھنے لگا ہے اور حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو بڑے احترام و عزت کے ساتھ غلامی کا کھنڈوا پہنارہی ہے۔ بڑے پیمانہ پر سیاسی انحراف پسندی کی ترغیب دینے والے حکمراں لیڈر کی حرکت کو جمہوریت کے قتل کے مترادف قرارد یا جارہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں کانگریس اور تلگودیشم اس وقت نئی ریاست کی چالاک سیاسی کوکھ سے جنم لینے والی اُلجھنوں اور دشواریوں سے دوچار ہے۔ ٹی آر ایس میں اندھا دھند طریقہ سے اپوزیشن قائدین کی شمولیت کے پس پردہ کئی سنگین اور خطرناک ارادے پوشیدہ معلوم ہورہے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کانگریس کے ہاتھ کاٹ کر مستقبل میں بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں تمام اپوزیشن پارٹیوں سے جمع کردہ قائدین کو لے کر خود اپنی پارٹی کو قومی پارٹی بی جے پی میں ضم کرکے بھارت کو کانگریس سے پاک بنانے وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی مہم کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
قومی سطح پر جب سے بے سُرے لوگوں کا راگ الاپ شروع ہوا ہے ہندوستانی عوام کو صرف ایک جماعت کا غلام بناکر رکھنے کی سازش کو پوری شدت سے انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دہلی سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے واقعی چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ میں اپوزیشن کا صفایا کرکے بی جے پی کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا سیاسی حق نمک ادا کررہے ہیں تو پھر یہ بہت بڑی بھول اور سنگین غلطی ثابت ہوگی۔ ریاستی سیاسی ماحول اور حالات و قرائین سے اندازہ یہی ہورہا ہے کہ چندر شیکھر راؤ کی سیاست مستقبل کے اشارے دے رہی ہے۔ بی جے پی کو مضبوط بنانے کیلئے تلنگانہ کے سیکولر عوام کو بے وقوف بنانے والے فن کا مظاہرہ ہورہا ہے۔
کانگریس ایک قومی اور تاریخی پارٹی ہونے کے باوجود بے بسی کا افسوسناک مظاہرہ کررہی ہے۔ کانگریس قائدین کو ایک کے بعد دیگر پارٹی سے دور ہوتا دیکھ کر آیا رام گیا رام کے محاورے سناکر پارٹی کے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے خود کو تسلی دے لی ہے اور پارٹی کو بھی دلاسہ دے رہے ہیں تو پھر اس طرح کی موجودہ کانگریس کیلئے یہی بہتر ہے کہ اس کا بھارت سے سودا کرنے والے کامیاب ہوں۔ کانگریس کو صرف اپنے دیرینہ تجربہ اور قدیم پارٹی ہونے کا گھمنڈ ہے تو یہ گھمنڈ چکنا چور کرنے والی طاقتیں اس کے اِرد گرد پوری شدت کے ساتھ منڈلا رہی ہیں۔ کانگریس ایک دن بچہ پارٹی کہلائے گی یہ وقت بھی دیکھا جائے گا۔ اپنی نقلی سیکولر امیج کے ذریعہ کانگریس نے حالیہ جتنی غلطیاں کی ہیں اس کا راست فائدہ کٹر فرقہ پرستوں نے اُٹھایا ہے۔ مگر افسوس یہ ہورہا ہے کہ نئی ریاست تلنگانہ کو جس مقصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا وہ مقصد مفقود ہوچکا۔ اب تلنگانہ کو آندھرائی غلامی سے چھٹکارا دلا کر فرقہ پرستوں کی غلامی کی سمت ڈھکیلا جارہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کانگریس، گاندھی بھون سے تلنگانہ بھون کی طرف منتقل کی جارہی ہے۔ نلگنڈہ کے رکن پارلیمنٹ جی سکھیندر ریڈی، پیدا پلی کے سابق رکن پارلیمنٹ اور صنعت کار جی ویویک، سابق رکن اسمبلی جی ونود ( دونوں جی وینکٹ سوامی کے فرزندان ) اور رکن اسمبلی این بھاسکر راؤ کو ٹی آر ایس میں شامل ہوتا دیکھ کر گاندھی بھون میں بچے کچھے کانگریس قائدین نے ماتمی آنسو بہانے شروع کئے ہیں اور یہ کہہ کر خود کو دلاسہ دے رہے ہیں کہ ’’ آیا رام گیا رام ‘‘ کی سیاست برسوں پرانی ہے اور ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ جو حربے اب تک کانگریس نے استعمال کئے تھے اسے کوئی اور اختیار کررہا ہے لیکن یہ ’ آیا رام گیا رام ‘ کا عمل اتنا خطرناک ہوسکتا ہے کہ تلنگانہ کے بشمول ملک بھر کی تمام ریاستوں میں فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط بنائے جاسکتے ہیں۔
کے سی آر کے ساتھ سنہرا تلنگانہ بنانے کا خواب پورا کرنے کے نام پر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے کانگریس، تلگودیشم اور سی پی آئی قائدین کو اپنے رائے دہندوں کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا۔ ہندوستانی سیاست میں ’ آیا رام گیا رام ‘ کے دن تقریباً ختم سمجھے جارہے تھے کہ نئے اُبھرتے قائدین نے اس کا احیاء کرنا شروع کیا ہے۔ میرے حاصل مطالعہ ایک بات ذہن میں آئی کہ جب 1947میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی آزادی کیلئے بل پیش کیا گیا تو اسوقت کے وزیر اعظم برطانیہ ونسٹن چرچل نے ایک جملہ کہا تھا جس کے معنی و مفہوم متنازعہ لیکن مقبول ہوئے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے والے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” Power Will go to hands of Rascals” اگر مفاد پرستوں کو اختیارات دیئے گئے تواقتدار کیلئے وہ خود آپس میں لڑیں گے۔
آزادی ہند کے بعد مرکز اور ریاستوں میں زیادہ تر کانگریس پارٹی کی ہی حکومت رہی ہے اور دھیرے دھیرے سیاستدانوں میں حب الوطنی اور جدوجہد آزادی کا جذبہ ختم ہوتا گیا پھر انحراف پسندی کی سیاست زور پکڑنے لگی نتیجہ میں حکومتوں کو بیدخل کرنا، سیاستدانوں کو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں گھسیٹنے کا معیوب عمل مضبوط ترین بنتا گیا۔ آج کی سیاست خاص کر تلنگانہ کی سیاست میں انحراف کا عمل بدترین صورت اختیار کرگیا ہے۔ کے سی آر کو جیسے ہی نئی ریاست تلنگانہ مل گئی ان کا پہلا ٹارگٹ چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم بنی اور ٹی ڈی پی کے 15ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل کرلئے گئے، آہستہ آہستہ تلگودیشم کا تلنگانہ سے صفایا کرنے کا مقصد پورا کرلیا گیا۔ تلنگانہ کے واحد تلگودیشم ایم پی مسٹر ملاریڈی کو کے سی آر نے اپنی پارٹی میں شامل کرلیا تو ان کے مشن کا رُخ کانگریس کی جانب شدت سے بڑھا اور اگلا مشن کانگریس کے ہاتھ کمزور کرکے بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوسکتا ہے۔
حکمراں پارٹی جب ضرورت سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے تو اپوزیشن میں رہنے والے مٹھی بھر ارکان اسمبلی اور اپوزیشن قائدین کا وجود نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر گھٹن سے دوچار ہوجاتا ہے۔ حکمراں پارٹی ان چند اپوزیشن ارکان کو ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈس جاری نہیں کرتی اور جب فنڈس نہیں ہوں گے تو یہ ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں کام انجام نہیںدے سکیں گے اور رائے دہندوں کی نظر میں وہ غیر کارکرد ثابت ہوں گے۔ ایسے حالات میں ان اپوزیشن ارکان کیلئے انحراف کرنا مجبوری بن جاتا ہے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حکمراں پارٹی کا دُم چھلہ بن کر رہنے سے کچھ نہ کچھ دال روٹی کا انتظام ضرور ہوگا اور ان کے حلقہ کے رائے دہندوں کے لئے بھی وہ کچھ ترقیاتی کام انجام دے سکیں گے۔ یہ تمام سیاسی حالات ایک معیاری لیڈر شپ کے فقدان کا مظہر ہیں۔ جس حکمراں کا باطن مضبوط ہوتا ہے وہ دوسرے سہارے تلاش نہیں کرتا۔ ٹی آر ایس کے سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو تلنگانہ کے عوام نے فولادی اعصاب کا مالک سمجھا ہے کیونکہ انہوں نے ان فولادی اعصاب کے ساتھ تلنگانہ حاصل کیا تھا اور توقع بھی یہی کی جارہی ہے کہ وہ تلنگانہ کے عوام کے اعصاب کو بھی فولادی بنائیں گے جس کا دل تلنگانہ کی محبت سے لبریز ہو اور وہ تلنگانہ کے عوام کو دیگر ریاستوں کی عوام سے برتر بنانا چاہتا ہو ان کے لئے عظیم منصوبے رکھتا ہو اور وہ پھر ہر طرح کے خدشات سے بے نیاز ہوتو پھر اسے کانگریس کو کمزور کرنے اور بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کیوں کر ضرورت ہوگی۔ بہرحال ہم اور آپ آنکھوں پر پٹی باندھ کر حکمراں کی نبض ٹٹولنے کی کوشش کریں گے تو کیا ملے گا۔؟
kbaig92@gmail.com