ایک کٹھ پتلی کی طرح ہیں تماشہ گاہ میں
ناچتے ہیں ہم مگر ہم کو نچاتا کون ہے
کانگریس کو ناکامیوں کا سامنا
ہندوستانی عوام جب حکمراں پارٹی اور اس کے قائدین کی جانب سے لی جانے والی دھاندلیوں اور اربوں کھربوں روپے کی لوٹ مار سے متعلق کی خبر کو نظرانداز کرتے ہیں تو ان پر سانحات کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بنگلور کے بلدی انتخابات میں حکمراں پارٹی کانگریس کو بدترین شکست اور بی جے پی کی کامیابی کے بعد یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں ہونی چاہئے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے ریاستی و علاقائی سطح پر کانگریس کا صفایا کرنے کی مہم میں تیزی پیدا کردی ہے۔ سیکولر ووٹ کاٹ کر اپنے سیاسی مفادات کی پوجا کرنے والی نام نہادمسلم پارٹی نے بنگلور بلدی انتخابات میں بی جے پی کو کامیاب بنانے میں مدد کی ہے تو یہ افسوسناک سیاسی دغا بازی کے مترادف سمجھا جائے۔ کانگریس کے سیکولر ووٹ کو دھکہ پہنچایا جانا بی جے پی کی درپردہ سازش کا حصہ ہے۔ کانگریس نے بھی غافل ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس پارٹی کے قائدین کو جب اس خرابی کی توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ اتنا دماغ استعمال نہیں کرتے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ بی جے پی قائدین نے عوام کے اندر اپنے اثرات کو مرتب کرنے کا عمل اس شدت سے شروع کیا ہے کہ لوگ اس کی مالیاتی خرابیوں اور خراب حکمرانی کو بھی اچھی سمجھ کر ووٹ دینے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا برا حال ہے۔ پیاز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ دال گذشتہ سال 65 روپئے فی کیلو میں دستیاب تھی اب اسے مارکٹ میں 115 روپئے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ، پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں عالمی مارکٹ میں زیادہ کمی کے باوجود ہندوستان میں معمولی کمی کو بھی عوام برداشت کرنے لگے ہیں۔ منموہن سنگھ کی حکومت میں عالمی مارکٹ میں پٹرول کی قیمت ایک بیارل 165 ڈالر تھی تو ہندوستان میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر 65 روپئے تھی۔ اب عالمی مارکٹ میں پٹرول کی قیمت 65 ڈالر فی بیارل ہے تو ہندوستان میں پٹرول کی قیمت میں صرف دو یا تین روپئے کی کمی کی گئی ہے اس طرح کا لوٹ کھسوٹ عوام کو دکھائی نہیں دے رہا ہے یا حکمراں پارٹی اپنی شاطرانہ چالوں سے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ معاملہ بہت نازک ہے۔ عقل اور جنون ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں۔ اس شدید مہنگائی کے باوجود بنگلور کے عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے تو یہ ان کی سنجیدہ مزاجی کا جواب نہیں ہوسکتا یا پھر عوام نے حکمراں پارٹی کانگریس اور چیف منسٹر سدارامیا کو سبق سکھانے اور ان سے اچھے کاموں کی توقع کے ساتھ بلدی انتخابات میں شکست کا منہ دکھایا ہے۔ بنگلور کے عوام تعلیم یافتہ سمجھدار اور اپنے اچھے برے کی تمیز کرتے ہیں۔ اس لئے کانگریس کے خلاف ان کے فیصلہ کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ کانگریس کی مرکزی قیادت اور ریاستی قائدین کارکنوں کو پارٹی کی ناکامیوں کا فوری جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایسا تصور کیا جارہا ہے کہ مرکز میں پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کرنے کانگریس نے اسے اپنی کامیابی تصور کیا تو بنگلور کے عوام نے اسے سبق سکھانے کیلئے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا۔ بنگلور میں 30 سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے حکمراں پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس کامیابی کا سہرا بی جے پی قائدین نے وزیراعظم نریندر مودی کے سر باندھا ہے اور سارے ملک میں بی جے پی کے بول بالے کی خبروں پر جشن منایا ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کے مخالف بی جے پی پروپگنڈہ کا بنگلور کے عوام نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ کانگریس حالیہ برسوں سے اپنا گھر سدھارنے سے زیادہ دوسرے کے گھروں میں انتشار پیدا کرنے کی مہم پر ہے تو اس کا یہ عمل خود اسے نقصان پہنچا رہا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کو گذشتہ 2013ء کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی تھی اور سدارامیا کی قیادت میں پارٹی نے عوام کیلئے بہتر کام کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس ریاست کے دارالحکومت بنگلور کے عوام نے حکمراں کانگریس کو ٹھکرا دیا۔ یہاں ہفتہ کو 198 وارڈس کے منجملہ 197 وارڈس کیلئے رائے دہی ہوئی تھی جس میں 49.3 فیصد پولنگ ہوئی۔ بنگلور کے 740 لاکھ رائے دہندوں کے منجملہ 36 لاکھ ووٹرس نے اپنے حق ووٹ کا استعمال کیا۔ بی جے پی کو 101 پر کامیابی ملی ہے جبکہ 75 پر کانگریس کامیاب ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی پارٹی جنتادل ایس کو صرف 14 نشستیں ملی ہیں دیگر پارٹیوں کو 8 وارڈس ملے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کی اس شکست کو افسوسناک سمجھ کر احتساب کا عمل نہیں ہوتا ہے تو آگے چل کر مزید ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔