محمد ریاض احمد
ملک کی 5 ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میزورم اور تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے بارے میں میڈیا اور بی جے پی قائدین بشمول امیت شاہ کا کہنا تھا کہ یہ لوک سبھا انتخابات 2019 ء کا سیمی فائنل ہے اور اس سیمی فائنل میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوگی کیوں کہ اب ملک میں صرف ایک لیڈر ہے اور وہ وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔ اگرچہ میزورم اور تلنگانہ میں بی جے پی کسی بھی طرح مقابلہ میں نہیں تھی لیکن مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اس کا اقتدار تھا اور بی جے پی کے بشمول سنگھ پریوار کی دوسری ذیلی تنظیموں کو پوری پوری اُمید تھی کہ ان ریاستوں میں کانگریس کوئی غیرمعمولی انتخابی مظاہرہ نہیں کرپائے گی۔ بی جے پی قائدین میں جو حد سے زیادہ خود اعتمادی تھی اس کی وجہ بھی تھی وہ یہ کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 2003 ء سے بی جے پی اقتدار پر فائز تھی جبکہ راجستھان میں اُسے 2013 ء میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔ ایک تو سارا سنگھ پریوار بشمول آر ایس ایس کارکن انتخابی لحاظ سے انتہائی اہم ہندی پٹی کی ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے جان توڑ کوشش کررہے تھے تو دوسرے میڈیا (زر خرید غلام میڈیا) ان ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں کی برقراری کے لئے مسلسل کوشاں رہا لیکن 11 ڈسمبر کو نتائج کے اعلان کے ساتھ سنگھ پریوار اور زرخرید غلام میڈیا کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اور وہ یہ سوچ کر پریشان ہوگئے کہ لوک سبھا انتخابات سے چند ماہ قبل ان اہم ترین ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی نے بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو موہوم کردیا ہے۔ بی جے پی قائدین اور سارے سنگھ پریوار کے ساتھ ساتھ ان کے ہمدردوں و حامیوں میں اس بات کے لئے حیرت پھیل گئی کہ وزیراعظم نریندر مودی، صدر بی جے پی امیت شاہ، چیف منسٹر یوپی یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے قدآور لیڈروں نے غیرمعمولی طور پر انتخابی مہم چلائی۔ عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی ساری کوشیش کرلی۔ بھولے بھالے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے لاکھ جتن کرلئے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو ان ریاستوں میں کم از کم 78 جلسوں سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنی فرقہ پرستانہ عادت و فطرت کے مطابق فرقہ پرستی کا زہر اُگلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ مسلمانوں کے خلاف بھی اُنھوں نے بہت ’’بھونکا‘‘۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں اپنے خطاب کے دوران یہ کہنے کی جرأت بھی کی کہ ’’کمل ناتھ جی آپ کو ’’علی‘‘ مبارک ہمارے لئے بجرنگ بلی ہی کافی ہیں‘‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش کے جو نتائج آئے ہیں اس کے بارے میں یوگی آدتیہ ناتھ کیا کہتے ہیں؟ وہاں کس کی جیت ہوئی ہے؟ کون کس کیلئے کافی ہوئے۔ یوگی آدتیہ ناتھ تو ایک ریاست کے چیف منسٹر ہیں مودی جی نے بھی تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کی ریالیوں میں تخریبی باتیں کرنے سے گریز نہیں کیا۔ انھوں نے چھتیس گڑھ میں خطاب کے دوران کانگریسیوں کو شہری نکسل قرار دیا۔ حیدرآباد میں بھی عجیب و غریب باتیں کیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کے بارے میں بھی ریمارک کئے۔ حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ ان کے قبیل کے دوسرے لیڈروں اور فرقہ پرستی کی گندگی سے آلودہ ذہنوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں نے 1965 ء میں جبکہ چین سے ہندوستان کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا، اُس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی خواہش پر 5000 کیلو سونا نیشنل ڈیفنس فنڈ میں بطور عطیہ پیش کیا تھا۔ آج تک انفرادی طور پر کوئی شخص اتنا بڑا عطیہ کم از کم ہندوستان میں تو نہیں دے سکا۔ یہ ایسا ریکارڈ ہے جو سنگھ پریوار کا کوئی لیڈر توڑ سکتا ہے نہ ہی امبانی، اڈانی، مودی اور ٹاٹا توڑ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم نریندر مودی، صدر بی جے پی امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ صرف تاریخ میں ہی پیدل نہیں بلکہ دوسری چیزوں یا شعبوں سے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ بہرحال ہندی پٹی کی تین اہم ترین ریاستوں میں کامیابی سے کانگریس کو ایک نیا عزم و حوصلہ ملا ہے اور اس کے کیڈر میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے۔
کیوں کہ کانگریس کے لئے اور بالخصوص صدر کانگریس راہول گاندھی کے لئے یہ انتخابات کرو یا مرو کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسری طرف مودی اور امیت شاہ کی بھی آزمائش تھے۔ یہ اور بات ہے کہ راہول کو کامیابی ملی جبکہ مودی اور شاہ اس آزمائش میں بُری طرح ناکام ہوگئے۔ بی جے پی کے لئے یہ اس لئے بھی جھٹکہ ہے کیوں کہ عام انتخابات کے لئے اب تقریباً 6 ماہ باقی رہ گئے ہیں اور اس سے پہلے ہی بی جے پی خیموں میں مایوسی کا پھیلنا اس کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ان 5 ریاستوں میں جملہ 678 نشستیں ہیں جن میں سے کانگریس نے 305 اور بی جے پی نے 199 نشستیں حاصل کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوک سبھا انتخابات میں ان ریاستوں میں بی جے پی کی بہ نسبت کانگریس اور اس کے امکانی اتحادیوں کا مظاہرہ بہتر رہے گا۔ جہاں تک مدھیہ پردیش کا سوال ہے وہاں 29، راجستھان میں 25 ، چھتیس گڑھ میں 11 ، میزورم میں ایک اور تلنگانہ میں 17 پارلیمانی نشستیں ہیں۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے 26 ، کانگریس نے 3 ، راجستھان میں بی جے پی نے 23 اور کانگریس نے 2 (ایک نشست مخلوعہ ہے)، چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے 10 اور کانگریس نے ایک نشست حاصل کی۔ میزورم میں پارلیمنٹ کی ایک ہی نشست ہے جس پر کانگریس کا قبضہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تلنگانہ کو چھوڑ دیں تو ان 4 ریاستوں میں پارلیمنٹ کی جملہ 76 نشستیں ہیں چونکہ تین ریاستوں میں کانگریس نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں 76 میں سے کم از کم 50-55 نشستیں کانگریس اور اس کے اتحادی جماعتیں حاصل کرسکتی ہیں۔ دوسری طرف کرناٹک میں 28 کیرالا 20 ، آندھرراپردیش 25 ، جموں و کشمیر 6، پنجاب 13، مغربی بنگال 42 ، پڈوچیری ایک، منی پور 2، میگھالیہ 2 نشستوں میں سے بھی کانگریس اور اس کے اتحادی (اپوزیشن اتحاد) اعظم ترین نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی اس مرتبہ کانگریس اور این سی پی کا مظاہرہ بہتر رہے گا کیوں کہ مہاراشٹرا اور مرکزی حکومت میں بی جے پی کی شراکت دار ہونے کے باوجود شیوسینا، بی جے پی اور وزیراعظم مودی کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنارہی ہے۔ اب تو شیوسینا قائدین نے مودی جی کو مشورہ دے ڈالا ہے کہ وہ آسمان میں اُڑنے کی بجائے زمین پر اُتر آئیں ورنہ 2019 ء کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ان کیلئے زمین بھی تنگ ہوسکتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ مہاراشٹرا میں لوک سبھا کی 48 نشستیں ہیں۔ کانگریس ۔ این سی پی اتحاد، بی جے پی ۔ شیوسینا اختلافات کا بھرپور رفائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ جہاں تک اترپردیش کا سوال ہے یہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں 80 پارلیمانی حلقے ہیں۔ اگر اس ریاست میں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی، مایاوتی کی بی ایس پی اور کانگریس متحدہ طور پر مقابلے کرتے ہیں تو بی جے پی کو 20 سے 30 نشستوں تک ہی محدود کرسکتے ہیں۔ جاریہ سال مارچ میں گورکھپور، پھولپور اور کیرانہ پارلیمانی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ان تینوں جماعتوں اور اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی حالانکہ گورکھپور چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور پھولپور ان کے ڈپٹی (ڈپٹی چیف منسٹر) موریہ کے حلقے تھے لیکن تینوں حلقوں میں شکست یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے شرمناک ثابت ہوئی۔ اگر اُسی انداز میں 2019 ء کے عام انتخابات میں اتحاد کیا جاتا ہے تو بی جے پی بہت کم نشستیں حاصل کرپائے گی۔ بہار میں بھی جہاں 40 پارلیمانی نشستیں ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کا بُرا حال ہونے والا ہے۔ وہاں بھی این ڈی اے کی حلیفوں میں کھینچا تانی ہورہی ہے جس سے چیف منسٹر بہار نتیش کمار پریشان ہیں۔ 10 ڈسمبر کو جب دہلی میں صدر تلگودیشم چندرابابو نائیڈو نے بی جے پی کے خلاف 21 اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس منعقد کیا اس میں سی پی آئی، سی پی ایم، راشٹریہ جنتادل، جھارکھنڈ وکاس مورچہ، لوک تانترک جنتادل (شرد یادو کی پارٹی)، ترنمول کانگریس اور کانگریس کے قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس میں بہار میں این ڈی اے کے حلیف رہے اوپندر کشواہا نے بھی شرکت کی۔ انھوں نے این ڈی اے سے دوری اختیار کرلی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور چیف منسٹر اروند کجریوال کی شرکت سے بھی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ایک نئی جہت ملنے کا امکان ہے۔
جہاں تک ملک کی ہندی پٹی یا ہندی بولنے والی ریاستوں کا سوال ہے 2014 ء کے عام انتخابات میں ان ریاستوں کی 273 پارلیمانی نشستوں میں سے 226 نشستیں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے حاصل کی تھیں لیکن راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ جیسی اہم ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ ان ریاستوں میں اپوزیشن اتحاد کی صورت میں خود بی جے پی کو تقریباً 100 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی نے 2014 ء کے عام انتخابات میں اپنے بل بوتے پر 282 نشستیں حاصل کی تھیں۔ تاہم اب حالات بالکل بی جے پی کے خلاف ہوگئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کا کسان قرضوں سے، نوجوان بیروزگاری سے، خواتین عصمتوں کے لُٹ جانے کے خوف سے، تاجرین اور کاروباری افراد روز روز کے نئے ٹیکسوں سے اور عام آدمی آسمان کو چھوتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ مودی حکومت بہبودی اسکیمات پر عمل آوری کی بجائے ہندو مسلم اختلافات کو ہوا دینے، مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے، گاؤ رکھشک کے بہانے مسلمانوں کے قتل، ہجومی تشدد کے ذریعہ اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے، زندگی کے ہر شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے تاریخ کو مسخ کرنے، ہندوستانی جمہوریت و دستور کی ہیئت بدلنے اور قوم پرستی کے نام پر ملک میں بے چینی پیدا کرنے کی پالیسیوں و اسکیمات پر عمل کررہی ہے یا پھر مذکورہ ناپسندیدہ اور ملک دشمن حرکتوں و سرگرمیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسے یہ جان لینا چاہئے کہ 2014 ء میں جس وقت مودی نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت ملک کی 7 ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار تھا لیکن بعد میں اس کا اقتدار 21 ریاستوں تک پہنچ گیا اور اب پھر اس کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ فی الوقت 16 ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے یا پھر وہ حکومتوں میں شامل ہے۔ 2019 ء کے عام انتخابات سیکولر اپوزیشن کے لئے بی جے پی کو شکست دینے کا بہترین موقع ہے کیوں کہ مودی حکومت نے ساڑھے چار سال کے دوران جمہوری و دستوری اداروں کی ساکھ متاثر کرکے رکھ دی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے دو گورنرس رگھورام راجن اور ارجیت پٹیل کو حکومت کی ناقص مالی پالیسیوں کے باعث استعفیٰ دینا پڑا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی معیشت ٹھیک نہیں ہے۔ آر بی آئی کے بھی حالات خراب ہیں۔ اپوزیشن کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے۔ بی جے پی کے پاس کوئی موضوع نہیں رہا وہ صرف مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ رام مندر کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی کیوں کہ سنگھ پریوار مودی اور امیت شاہ جان چکے ہیںکہ رام مندر کا نام لے کر ہی وہ بھولے بھالے ہندوؤں کو بے وقوف بناکر اپنے مفادات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com