کانگریس میں جان ڈالنے کی بے جان کوشش

محمد نعیم وجاہت
عام انتخابات میں ناکامی کے بعد کانگریس نے اپنا محاسبہ شروع کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس بند کمروں کے اجلاس تک محدود رہے گی یا عوام کے درمیان پہنچ کر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔ کانگریس قائدین دس برس تک اقتدار پر برقرار رہنے کے بعد اب بھی ’’ہالی ڈے‘‘ کے موڈ میں ہیں، یا یوں کہا جائے کہ اب تک اقتدار کا نشہ نہیں اُترا۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو اتنی بُری شکست ہوئی کہ پارلیمنٹ میں اس کو اصل اپوزیشن کا درجہ بھی نہیں ملا۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد بھی ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوئے، لیکن ان ریاستوں میں بھی کانگریس کو نقصان پہنچا۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی نے چونکا دینے والا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ تھکی ہوئی کانگریس اب دارالحکومت دہلی کے انتخابات میں قسمت آزما رہی ہے، لیکن یہاں بھی اس کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں، کیونکہ کانگریس قائد جناردھن دیویدی کی وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرنا، مقابلہ سے قبل شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ دہلی میں اصل مقابلہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہے۔

حال ہی میں کانگریس کی فیصلہ ساز باڈی سی ڈبلیو سی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کانگریس کی شکست کا جائزہ لینے کے بعد کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کا اشارہ دیا گیا ہے اور اے آئی سی سی کے جنرل سکریٹریز کو اپنے انچارج شپ والی ریاستوں کا دورہ کرکے پارٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے اور 15 فروری تک رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، جب کہ کانگریس حلقوں میں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔

کانگریس نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی، تاہم کانگریس قائدین نے اقتدار کے لالچ میں سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ کو اقتدار تک پہنچا دیا۔ علحدہ ریاست کی تشکیل کا فائدہ اُٹھانے میں کانگریس پارٹی ناکام ہو گئی، اس کے قائدین عوام کی نباضی نہیں کرسکے، جب کہ پارٹی کا ہر قائد چیف منسٹر بننے کی خواہش دل میں لئے بیٹھا رہا۔ تلنگانہ میں کانگریس کو اصل اپوزیشن کا اعزاز حاصل ہے، تاہم کانگریس قائدین شکست کے بعد اپنے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے یا اپنے کاروبار پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں کامیاب قائدین کے درمیان اتحاد کا فقدان ہے، یعنی وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب تک 3 ارکان اسمبلی اور 9 ارکان قانون ساز کونسل حکمراں ٹی آر ایس میں شامل ہو چکے ہیں، جب کہ چند قائدین حکومت کے حق میں نرم رویہ رکھتے ہیں اور چند انجان بننے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ قائدین حزب مخالف اسمبلی و کونسل کے جانا ریڈی اور ڈی سرینواس اپنی اپنی جگہ خاموش ہیں، جب کہ صدر تلنگانہ پردیش کانگریس پنالہ لکشمیا کو پارٹی کے سینئر قائدین کا تعاون نہیں مل رہا ہے، اس کے باوجود وہ کانگریس کو سرگرم رکھنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ پردیش کانگریس اور تلنگانہ لیجسلیٹر کمیٹی میں کوئی ہلچل نہیں دکھائی دیتی۔ 50 سے زائد تلنگانہ پردیش کانگریس کے ترجمان ہیں، مگر سب کے سب گھروں میں بیٹھے ہیں یا وزیٹنگ کارڈس چھپاکر گھوم رہے ہیں۔

ٹی آر ایس حکومت آئندہ ہفتہ اپنے اقتدار کے 8 ماہ مکمل کرلے گی، مگر حکومت کی ناکامیوں کو آشکار کرنے میں کانگریس پارٹی پوری طرح ناکام ہے۔ کانگریس جب اپوزیشن میں تھی تو بحیثیت ترجمان اعلیٰ کے روشیا نے حکومت کی ناکامیوں کا پردہ فاش کرنے اور جب کانگریس اقتدار میں تھی تو بحیثیت ترجمان تلسی ریڈی نے حکومت کے کارناموں کو عوام تک پہنچانے اور اپوزیشن کی تنقیدوں کا جواب دینے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اب یہ ذمہ داری محمد علی شبیر نے سنبھالی ہے، وہ کونسل کے ڈپٹی فلور لیڈر اور تلنگانہ پردیش کانگریس کے نائب صدر ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں، غفلت، کوتاہی اور مخالف عوام پالیسی کو اُجاگر کرنے کے لئے کبھی انھوں نے احاطۂ اسمبلی اور کبھی گاندھی بھون میں آواز اُٹھائی۔ انھوں نے ٹی آر ایس حکومت کے 100 دن اور 200 دن کی کار کردگی، ناکامی، وعدوں پر عدم عمل آوری اور ایک لاکھ کروڑ روپئے کے منظورہ بجٹ سے صرف 20 فیصد بجٹ کی اجرائی کو کتابچہ کی شکل میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے سوائن فلو کے پھیلاؤ اور کسانوں کے قرضہ جات معاف نہ کرنے پر حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔

کانگریس قائدین کے سرگرم نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ پردیش کانگریس کے لئے 20 لاکھ رکن بنانے کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن اس نشانے تک پہنچنے میں کانگریس قائدین یکسر ناکام رہے۔ صرف ساڑھے چار لاکھ رکنیت سازی کے بکس گاندھی بھون پہنچے، جب کہ کانگریس قائدین دس لاکھ بکس اضلاع کے کانگریس صدور کے پاس ہونے کا ادعا کر رہے ہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کانگریس ہائی کمان نے تلنگانہ کانگریس قائدین کو نیند سے بیدار کرنے اور انھیں ذمہ داریوں کا احساس دِلانے کے لئے آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری و انچارج تلنگانہ کانگریس امور ڈگ وجے سنگھ کو تین دن کے لئے حیدرآباد روانہ کیا۔ تقسیم ریاست کے بعد آندھرا پردیش میں کانگریس کا موقف انتہائی کمزور ہے اور کانگریس کے بیشتر قائدین بشمول سابق چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی بی جے پی سے رابطہ میں ہیں۔ کم از کم تلنگانہ میں کانگریس کے موقف کو طاقتور بنانے کے لئے ڈگ وجے سنگھ نے پارٹی کے 130 قائدین کو 8 گروپس میں تقسیم کرکے ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت کی ہے اور پارٹی کی ناکامی کی وجوہات معلوم کرنے کے علاوہ پارٹی کے استحکام کے لئے تجاویز طلب کی ہیں۔

کانگریس اور اختلافات کا گہرا رشتہ ہے، ڈگ وجے سنگھ کی حیدرآباد آمد کے بعد اچانک یہ اختلافات ایک بار پھر منظر عام پر آگئے۔ کئی قائدین نے پنالہ لکشمیا کو تلنگانہ کانگریس کی صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کئی قائدین نے ان کی ستائش بھی کی، جب کہ کئی قائدین نے دس سالہ دور حکومت میں وزارتوں اور اہم عہدوں پر فائز قائدین کی کانگریس کارکنوں سے دوری کو ناکامی کی اصل وجہ قرار دیا اور کارکنوں کو نظرانداز کرنے کی شکایت کی۔ بعض قائدین نے شکست سے دو چار ہونے والوں کو بار بار ٹکٹ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے عام انتخابات سے قبل پارٹی میں شامل ہونے والے قائدین کو ٹکٹ دینے اور برسوں سے خدمات انجام دینے والوں کو نظرانداز کرنے کی شکایت کی۔ اسی طرح پنالہ لکشمیا پر پارٹی کے عہدے فروخت کرنے کے الزامات عائد کئے گئے اور عام انتخابات میں شکست سے دو چار ہونے والے قائدین کو قانون ساز کونسل کا رکن بنانے کی مخالفت کی گئی۔ ایک قائد کو ایک سے زائد عہدہ دینے اور جو قائدین وزارت یا دیگر اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ان کو دوبارہ عہدہ دینے پر اعتراض کیا گیا۔ کانگریس کے سینئر قائدین بالخصوص تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے قائدین اور سابق ارکان پارلیمنٹ نے انھیں پارٹی پروگرامس کا حصہ نہ بنانے کی شکایت کی۔ ڈگ وجے سنگھ نے قائدین کی شکایات اور تجاویز کو سنا اور قلمبند کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈگ وجے سنگھ کانگریس کی خامیوں اور کمزوریوں کو دُور کرسکیں گے؟، کانگریس قائدین اپنے اختلافات کو فراموش کرکے پارٹی کے استحکام کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے؟، حکومت کی ناکامیوں اور انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں پر عمل آوری کے لئے حکومت پر دباؤ ڈال سکیں گے؟، کیا کانگریس کی رکنیت سازی مہم میں شدت پیدا ہوگی؟ اور کانگریس قائدین اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرسکیں گے؟۔ ان سارے سوالات کے جوابات آنے والے دِنوں میں کانگریس قائدین کے طرز عمل سے مل جائیں گے۔