نئی دہلی 27 مارچ (ظفرآغا) کانگریس پارٹی نے 26 مارچ کو حالیہ پارلیمانی چنائو کے تعلق سے اپنا منشور جاری کر دیا ۔ یوں تو اب ہر سیاسی پارٹی میں منشور کا جاری ہو نا ایک چناوی رسم بن کر رہ گئی ہے۔ کیونکہ چنائو کے بعد ہر سیاسی جماعت اور خود ووٹر بھی منشور میں کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں۔ پھر اگلا چنائو جب آتا ہے تو پھر شکوہ شکایت کا موقع آتا ہے کہ فلاں پارٹی نے اپنے منشور میں فلاں وعدہ کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا، لیکن حالیہ پارلیمانی چنائو میں منشور انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کا سبب یہ ہے کہ حالیہ چنائو آزادی کے بعد سے اب تک چلنے والی سیاست اور سیاسی نظریہ پر ایک ریفرنڈم ہے۔
ابتک ہندوستان کا ایک آئینی ڈھانچہ تھا جس میں سیکولرزم نظریاتی سطح پر اور اس ملک کے غریب کا ریاست میں معاشی سطح پر قصہ ہوتا تھا۔ لیکن اس بار چنائو میں نظر یاتی سطح پر ایک بالکل نیا عنصر پیدا ہو گیا ہے اور وہ ہے ’مودی ماڈل‘ ۔ آخر یہ مودی ماڈل کیا ہے!مودی ماڈل کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ اولاً، مودی ماڈل میں اقلیتوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تب ہی تو مودی کے گجرات میں سن 2002 میں مسلم نسل کشی کے بعد مودی حکومت نے دنگا متاثرین کو کسی قسم کی بھی راحت دینے سے انکار کردیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر مرکزی حکومت نے اقلیتوں کی بہبود کے لئے کوئی اسکیم چلائی تو مودی حکومت نے اس اسکیم کو لاگو کرنے سے انکار کردیا۔ مودی اس ملک کے آئینی ڈھانچے کو بدل کر ہندوستان کو ایک ہندو راشٹریہ میں تبدیل کر دیں گے۔ مودی ماڈل کی دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں غریب کو کوئی مقام نہیں ہے۔ مودی نے خود ’’ڈول‘‘ یعنی حکومت کی جانب سے غریبوں کو دی جانے والی تمام مرعات کی مخالفت کی ہے۔
مثلاً، مودی ماڈل کے تحت سرکاری اسپتال اور سرکاری اسکول جیسی سہولیات کا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ یعنی حکومت کے معاشی نظام میں محض بڑے بڑے سرمایہ داروں کا حصہ ہوگا جبکہ غریب کو حکومت سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔کانگریس پارٹی نے جو چناوی منشور جاری کیا ہے اس کی خصوصیات یہی ہے کہ اس نے ملک میں نظریاتی سطح پر ملک کے آئینی ڈھانچے کو بچاکر سیکولرزم کو زندہ رکھنے کا عہد کیا ہے۔ دوسری جانب اسی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کے معاشی نظام میں غریب کو ملنے والی منریگا جیسی اسکیمیں چلتی رہیں گی ۔ کانگریس منشور کی یہی اہم بات ہے کہ مودی ماڈل کے مقابل میں وہ ان چنائو میں نظریاتی سطح پر سیکولرزم کی بقا کا وعدہ کررہی ہے اور دوسری جانب حکومت میں غریب کے حصے کو تسلیم کرتی ہے۔ اسی لئے وہ قوتیں جو مودی ماڈل مخالف ہیں ان کو کانگریس پلیٹ فارم میں زیادہ کشش نظر آسکتی ہے۔