رنجیتا گناسیکرن
تلنگانہ میں کچھ عرصہ سے قیاس آرائی ہوتی رہی ہے کہ نلگنڈہ لوک سبھا حلقہ سے ضمنی چناؤ کا امکان ہے، جو موجودہ طور پر برسراقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) کی جمہوری عددی طاقت میں شامل ہے۔ اس طرح کا ضمنی چناؤ ٹی آر ایس کیلئے وسط مدتی چناؤ والا کام کرے گا، جو ایسی پارٹی ہے کہ اس کے خلاف تنقید کے باوجود اسے ٹھوس چیلنج پیش کرنے والوں کا سابقہ نہیں پڑا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں میں کمزور عددی طاقت کی حامل کانگریس (13 ایم ایل ایز بمقابل ٹی آر ایس کے 90)، بمشکل وجود رکھنے والی تلگودیشم پارٹی (3 ایم ایل ایز بلحاظ جمعہ 30 اکٹوبر) ، لیفٹ پارٹیاں (1 ایم ایل اے) اور بلندحوصلہ بی جے پی (5 ایم ایل ایز) شامل ہیں۔
حیدرآباد ایم پی اسدالدین اویسی زیرقیادت اے آئی ایم آئی ایم جس کے سات ایم ایل ایز ہیں، اسے ٹی آر ایس کی عملاً حلیف سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بی جے پی کا برسراقتدار پارٹی کے ساتھ کہیں زیادہ متحمل مزاج رشتہ ہے۔ جہاں چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی راما راؤ نے ’نیو انڈین اکسپریس‘ کو حالیہ انٹرویو میں زعفرانی پارٹی کے تعلق سے جلی کٹی باتیں کہیں، وہیں اُن کے والد نے وزیراعظم کی ’جھوٹے پروپگنڈے‘ سے روزگار مواقع کے معاملے میں مدافعت کی ہے۔ سیول سوسائٹی اپوزیشن کا چہرہ صدرنشین تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی (ٹی جے اے سی) ایم کودنڈا رام رہے ہیں، جو کے چندرشیکھر راؤ کے علحدہ ریاست کیلئے چلائی گئی تحریک کے دوران حلیف رہے تھے۔ لیکن 2014ء سے ٹی آر ایس نے ریاست میں منعقدہ ہر ضمنی چناؤ جیتا ہے …دو لوک سبھا کیلئے اور دو اسمبلی کیلئے… اور گزشتہ سال حیدرآباد کے بلدی چناؤ میں فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ اس پس منظر میں کوئی بھی یہی قیاس کرے گا کہ پارٹی کا موقف بہت اطمینان بخش ہے۔تاہم، علحدہ ریاست کا مطلب نہیں کہ گمبھیر مسائل کا فوری حل برآمد ہوجائے گا، جو بھلے ہی کسی رائے دہندہ کی امید ہوسکتی ہے۔ اتنے برسوں میں ریاست کے کسانوں نے خشک سالی کی صورتحال اور غیرواجبی اُجرت والی قیمتوں کو بھگتا ہے، جبکہ دیہاتیوں کو پُرعزم آبپاشی پراجکٹوں کیلئے حصولیابی اراضی کے معاملے میں ریاست کی زبردستی کے خلاف جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ ان الفاظ سے یہ باور کرنا نہیں ہے کہ حالات میں بہتری نہیں آئی، لیکن یہ کہ ٹی آر ایس کا کسی بھی معاملہ میں بے توجہی سے کام نہ لینا دانشمندی ہوگی۔ اس ضمن میں برسراقتدار پارٹی نے شہریوں کے عملاً ہر زمرہ کیلئے منہ بھرائی والے اقدامات کئے ہیں، جن میں مویشی پالن والی کمیونٹی کیلئے بھیڑ و بکری کی تقسیم کا پروگرام اور مائنارٹی آئی ٹی کوریڈو (اس بارے میں تفصیلات بہت تھوڑی ظاہر ہوئی ہیں) کا وعدہ شامل ہیں۔ کچھ بھی بے توجہی سے کام نہ لینے کا یہ طرزعمل حال میں سنگارینی کالریز کمپنی لیمیٹیڈ (کانکنی کی حکومتی ملکیتی کمپنی) کے یونین الیکشن سے قبل دیکھنے میں آیا۔ اکٹوبر کے پہلے ہفتے میں چناؤ سے قبل چیف منسٹر نے پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے بعض گوشوں کو اچنبھے میں ڈالتے ہوئے ریاست کے چھ اضلاع میں پھیلے 50,000 ووٹروں کیلئے وسیع تر اقدامات کی پیشکش کردی۔ ظاہر ہے یہ ’چھوٹے ضمنی چناؤ‘ کے طور پر حکومت کیلئے وقار کا معاملہ تھا۔ آخرکار، پارٹی کی حمایت والی یونین 2012ء کے اپنے مظاہرے کے مقابل اپنے ووٹوں کا تناسب بڑھانے میں کامیاب ہوئی؛ یہ اور بات ہے کہ اسے 11 عہدوں کے منجملہ 9 ہی حاصل ہوپائے۔
بعدازاں، چیف منسٹر ایک اور پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے اس کامیابی کی خوشی منائی۔ سینئر قائدین تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوئے کہ کس طرح ایک یونین الیکشن اس قدر بڑا معاملہ بن گیا، بعض دیگر نے یوں تبصرہ کیا، ’’کے سی آر آخر کے سی آر‘‘ ہیں۔ اس پریس کانفرنس کا پُرتجسس حصہ چیف منسٹر کا کودنڈا رام کے غیرمحاسن پر بات کرنے میں خاصا وقت صَرف کرنا رہا؛ کہ وہ پارٹی کیلئے کیونکر کوئی چیلنجر بن سکتے ہیں، اور دعویٰ کیا کہ سابق پروفیسر تو کوئی پنچایت الیکشن تک جیتنے سے قاصر رہیں گے۔ اور پھر بھی ٹی جے اے سی کو بیروزگاری کے بارے میں اپنے مجوزہ احتجاج کے انعقاد کیلئے اجازت حاصل کرنے عدالت سے رجوع ہونا پڑا۔
دریں اثناء یوں لگتا ہے کہ ایک اور چیلنجر اُبھر آیا ہے …ایک اپوزیشن پارٹی کمزور ہونا اور دیگر کو تقویت پہنچنا… اور یہ چیلنجر ایسا ہے کہ جس نے خاصے انتخابات جیت رکھے ہیں۔ مہینوں سے جاری قیاس آرائی کے بعد آخرکار، کوڑنگل کے ٹی ڈی پی رکن اسمبلی اور اسمبلی میں پارٹی کے لیڈر ریونت ریڈی مستعفی ہوکر دہلی پہنچے اور راہول گاندھی کے ہاتھوں کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ ریونت ریڈی ٹی آر ایس حکومت کے خاص طور پر منہ زور نقاد رہے ہیں اور ایسے لیڈر ہیں جو فی الحال تلنگانہ کانگریس میں کسی بھی دیگر کے مقابل زیادہ ٹھوس چیلنجر معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے وہ نقدی برائے ووٹ کیس کے ملزم نمبر 1 بھی ہیں، جس میں چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرابابو نائیڈو کو بھی ماخوذ کیا گیا ہے۔
اس طرح کوڑنگل کا ضمنی چناؤ ناگزیر ہوچلا ہے، لیکن برسراقتدار پارٹی کی جائے اپوزیشن کی شرطوں پر رہے گا۔ ٹی آر ایس نے بتایا جاتا ہے کہ نلگنڈہ میں ضمنی چناؤ کا سوچ رکھا تھا تاکہ ریاست میں کانگریس تائید و حمایت کے ایک نمایاں گڑھ کو نشانہ بنایا جاسکے (یہ نشست جی سکھیندر ریڈی نے کانگریس ٹکٹ پر جیتی۔ بعد میں وہ ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے)۔ تاہم، ریونت ریڈی نے ضلع محبوب نگر کی کوڑنگل نشست دو مرتبہ جیتی ہے، اور دونوں بار ٹی آر ایس حریف گروناتھ ریڈی کو شکست دی، جو ہوسکتا ہے پھر ایک بار اُن کے حریف ہوں گے۔ اس طرح بہت کچھ داؤ پر لگا ہے … ریونت ریڈی کے سیاسی مستقبل کا کوڑنگل نشست جیتنے پر انحصار ہے، اور یہی معاملہ اس ریاست کی اپوزیشن کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ نکتہ میں معقولیت ہے کہ برسراقتدار پارٹی شکست کی صورت میں سنبھلنے کے بہتر موقف میں رہے گی، حالانکہ اُسے کچھ سبکی بھی ہوگی اور ایسی ناکامی کو 2019ء میں اُس کے خلاف مہم جوئی میں نمایاں کیا جائے گا۔ اس پس منظر میں ٹی آر ایس سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ منفی صورتحال کو ٹالنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دے گی۔