کام نہیں، صرف اعلانات اور فیصلے

محمد نعیم وجاہت
حکومتوں کی نیک نامی کا انحصار اُن کی کار کردگی پر ہوتا ہے۔ کسی بھی حکومت کو سنبھلنے اور اپنی کار کردگی دِکھانے کے لئے چھ ماہ کا عرصہ کافی ہوتا ہے، اس کے باوجود تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے لئے مزید گنجائش نکالی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ دونوں ریاستیں نئی نئی وجود میں آئی ہیں۔ اثاثہ جات، ادارے اور اعلی عہدہ داروں کی تقسیم وغیرہ ایسے مراحل ہیں، جن میں تاخیر ہوتی ہے۔ ابھی حال ہی میں اعلی عہدہ داروں کی تقسیم کا عمل مکمل ہوا ہے، تاہم مستقبل میں دونوں حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی اور فلاحی کاموں میں تیزی پیدا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
تلنگانہ میں ترقی اور فلاحی اسکیموں پر عمل آوری کافی سست ہے۔ اگر بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو ’’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘‘ کے مترادف ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے دس ماہ کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے کا بجٹ منظور کیا ہے، جو یقیناً قابل ستائش ہے، لیکن صرف بھاری بجٹ منظور کرنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس کو مؤثر طریقے سے خرچ کرنا کامیابی کی علامت ہے۔ مکمل نہیں تو کم از کم 80 فیصد بجٹ ضرور خرچ ہونا چاہئے، مگر تلنگانہ میں سب کچھ اُلٹا ہو رہا ہے۔ اب تک بڑی مشکل سے صرف 25 ہزار کروڑ روپئے حکومت خرچ کرسکی ہے، جب کہ مالیاتی سال ختم ہونے کے لئے صرف تین ماہ باقی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین ماہ میں 75 ہزار کروڑ روپئے کس طرح خرچ کئے جائیں گے؟ کیا حکومت کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے؟۔ اسی طرح اقلیتوں کے لئے بجٹ میں 1030 کروڑ روپئے مختص کئے گئے، مگر منظورہ بجٹ کا 25 فیصد فنڈس اب تک جاری نہیں کئے گئے۔ اقلیتوں کے لئے بجٹ میں ایک ہزار کروڑ روپئے کی گنجائش ضرور فراہم کی گئی ہے، مگر خرچ کے لئے کوئی نئی اسکیم متعارف نہیں کرائی گئی اور نہ ہی قدیم اسکیمات کا احیاء کیا گیا۔

پھر یہ بجٹ آخر کس طرح خرچ ہوگا؟۔ غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے دی جانے والی رقم کو 25 ہزار سے بڑھاکر 51 ہزار روپئے کردیا گیا، مگر اس اسکیم سے استفادہ کے لئے نئے نئے قوانین نافذ کردیئے گئے ہیں۔ لڑکی والوں سے آدھار کارڈ کے علاوہ جس لڑکے سے شادی ہو رہی ہے، اس کا بھی آدھار کارڈ طلب کیا جا رہا ہے۔ اس اسکیم میں کئی خامیاں ہیں، جس کی وجہ سے غریب عوام کا ردعمل توقع کے برعکس ظاہر ہو رہا ہے۔ اقلیتی بجٹ کا جو حال کانگریس دور حکومت میں تھا، وہی حال ٹی آر ایس حکومت میں ہے، یعنی صرف بجٹ منظور کرو، مگر اسے جاری نہ کرو۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟۔ بجٹ کی منظوری کے وقت حکمراں جماعت کے اقلیتی قائدین حکومت اور چیف منسٹر کی قصیدہ خوانی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بجٹ کی عدم اجرائی کے سلسلے میں یہ قائدین چیف منسٹر سے استفسار نہیں کرسکتے کہ ’’منظورہ بجٹ کیوں نہیں جاری کیا گیا؟ اور جب بجٹ منظور کیا گیا تو فلاحی اسکیمات متعارف کیوں نہیں کرائی گئیں؟‘‘۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ اسکیموں کے بغیر منظورہ فنڈس ایسے ہیں، جیسے روح کے بغیر جسم۔ تنقید برائے تعمیر ایک صحت مند سماج کے لئے ضروری ہے۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی کارکردگی صرف فیس باز ادائیگی اور اسکالر شپس کی اجرائی تک محدود ہے۔ اس ڈپارٹمنٹ کا کانگریس دور حکومت میں جو کام تھا، وہی ٹی آر ایس حکومت میں بھی ہے۔ حکومت تبدیل ہو گئی، مگر اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کا کام تبدیل نہیں ہوسکا۔

ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں جتنے بھی وعدے کئے، ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ صرف معذورین، بیواؤں اور عمر رسیدہ افراد کے وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے، مگر یہ اسکیم مرکز کی ہے، جس کو ریاستی حکومت نے ’’آسرا‘‘ کا نام دیا ہے۔ کئی اہل افراد جو اس اسکیم سے مستفید ہو رہے تھے، اب وہ محروم ہو گئے ہیں اور کئی افراد نے بطور احتجاج خودکشی بھی کی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے وعدہ کے مطابق کے جی تا پی جی مفت تعلیم کے لئے بجٹ میں 25 ہزار کروڑ روپئے منظور کئے، مگر اس اسکیم پر عمل آوری کا آغاز اب تک نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں اسکالر شپس اور فیس باز ادائیگی کا مسئلہ بھی اب تک نہیں حل ہوسکا۔ حکومت نے اسکیم کا نام تو ’’فاسٹ‘‘ (تیز) رکھا ہے، مگر کام بالکل آہستہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہائی کورٹ نے حکومت کی سرزنش کی ہے، اس کے باوجود حکومت اب تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ فنڈس کی عدم اجرائی کے سبب تعلیمی ادارے طلبہ اور ان کے سرپرستوں پر فیس کی ادائیگی کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ایمسٹ امتحان گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی تنازعہ کا شکار ہو گیا ہے۔ دونوں ریاستوں کے وزرائے تعلیم نے جب گورنر سے ملاقات کی تو انھوں نے سمجھوتہ کرانے ہرممکن کوشش کی اور دونوں حکومتوں کو ایک ایک مرتبہ ایمسٹ کے انعقاد کا مشورہ دیا، اس کے باوجود دونوں حکومتیں اپنے اپنے موقف پر اٹل ہیں، لہذا عدلیہ سے رجوع ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کئی ترقیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے اور کئی ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے۔ واٹر گرڈ کا بڑے پیمانے پر آغاز کیا ہے، جس سے آئندہ 4 سال میں ہر گھر کو نل کے ذریعہ پانی سربراہ کیا جائے گا اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آئندہ عام انتخابات میں ٹی آر ایس عوام سے ووٹ نہیں مانگے گی۔ چیف منسٹر کو اپنے اس پروگرام پر بہت بھروسہ ہے، جس کو کامیاب بنانے کے لئے اب تک وہ اعلی عہدہ داروں کے درجنوں اجلاس طلب کرچکے ہیں۔ حیدرآباد کی ترقی کے لئے چیف منسٹر نے اب تک تین فضائی سروے کئے اور ایک کل جماعتی اجلاس طلب کیا۔ ساتھ ہی اعلی عہدہ داروں کے اجلاس بھی ایک سے زائد مرتبہ منعقد کرچکے ہیں۔ چیف منسٹر نے حسین ساگر جھیل کے اطراف بڑی بڑی فلک بوس ہمہ منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے، سگنل کے بغیر فلائی اوور بنانے اور ضلع نلگنڈہ میں برقی پیداوار کا بہت بڑا پراجکٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، مگر ان اعلانات کو عملی جامہ کب پہنایا جائے گا؟ یا ان کے لئے فنڈس کہاں سے حاصل کئے جائیں گے؟ حکومت اس سلسلے میں خاموش ہے۔

حکومت نے آئندہ تین سال میں تلنگانہ کے برقی بحران پر قابو پانے کا اعلان کیا ہے، جس کے لئے چھتیس گڑھ سے برقی خریدنے اور بی ایچ ای ایل سے برقی پیداوار کا معاہدہ کیا ہے۔ مرکز نے تلنگانہ کے لئے 4000 میگاواٹ برقی منظور کی ہے، جس کا ذکر تقسیم ریاست کے بل میں موجود ہے، لیکن مرکز پر دباؤ ڈالنے کے لئے اب تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ مسلمانوں اور قبائلی طبقات کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا، مگر اس پر عمل کا آغاز نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی کابینہ میں مزید 6 نئے وزراء کو شامل کیا ہے اور 6 ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹری سکریٹریز نامزد کرکے مملکتی وزراء کا درجہ دیا۔ مرکزی حکومت نے بھی آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران کی تقسیم کا عمل پورا کردیا ہے، جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب ترقیاتی کاموں اور فلاحی اسکیمات پر عمل آوری میں تیزی پیدا ہوگی اور اہل افراد کو استفادہ کا موقع ملے گا۔ سچائی یہ ہے کہ کام کرنے سے کام اور نام دونوں ہوتا ہے، جب کہ اعلانات اور فیصلے صرف سستی شہرت کے لئے کئے جاتے ہیں، جو دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ اگر 7 ماہ حکومت کے لئے بہت زیادہ نہیں ہیں تو اسے کم بھی نہیں کہا جاسکتا، لہذا اب حکومت کے لئے وہ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعہ نیک نامی اور شہرت دونوں حاصل کرے۔