دھرمیندرپال سنگھ
ہر سال 10ویں اور 12 ویں کلاس کا رزلٹ آنے اور انجینئرنگ و میڈیکل کالجس کے امتحان کے نتائج کے اعلان کے بعد طلبہ اور طالبات کی خودکشی کے اعداد و شمار میں اچانک اچھال آ جاتا ہے۔ پڑھائی اور کیریئر کے دباؤ میں نوجوان نسل کی طرف سے کی جا رہی خودکشی ایک وبا بن چکی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے مطابق سال 2012 سے 2014 کے درمیان22,319 اسٹوڈنٹس نے خود کشی کی۔ مطلب یہ کہ ہر سال اوسطاً7,460 طلبا نے زہر کھا کر، پھانسی کا پھندہ لگا کر، چھت سے کود کر یا ریل سے کٹ کر جان دے دی۔ روزانہ کے حساب سے مرنے والے معصوم طالب علموں کے اعداد و شمار 20سے زائدہے۔7 غریب اور متوسط طبقہ کے بچوں کو لگتا ہے کہ زندگی میں کامیابی کی واحد شرط اسکول کالج میں شاندار نمبر لانا اور آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم یا ایمس میں داخلہ لینا ہے۔ آج کل مشہورتعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے مسابقت اورمقابلے کی جان لیوا ہوڑ ہے۔ آئی آئی ایم کا داخلہ امتحان دنیا میں سب سے مشکل سمجھا جا تا ہے۔ آئی ٹی آئی آج کی تقریباً 10 ہزار سیٹوں کے لئے ہر سال تقریباً 15 لاکھ طالب علم قسمت آزماتے ہیں
سرکاری میڈیکل کالجوں کے لئے مارا ماری اور بھی زیادہ ہے۔ دہلی یا کسی دیگر اچھے یونیورسٹی کے بی اے، بی کام کورس میں داخلے کی کٹ آف لسٹ بھی 95-100 فیصد کے درمیان رہتی ہے۔ ایسے میں تعلیم کے بوجھ سے لڑکے لڑکیاں ٹوٹ جاتے ہیں اور منفی رزلٹ آنے پر مایوسی کے گہرے کھائی میں گر جاتے ہیں۔ ناکام رہنے والے ہزاروں بچے اقتصادی بوجھ اور جذباتی دباؤ کے اثر میں آکر خود کشی کر لیتے ہیں۔اس مسئلہ کے مطالعہ کے لئے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس نے 2012 میں اپنی رپورٹ دے دی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں چل رہے کوچنگ انسٹی ٹیوٹس میں پڑھائی کی توجہ انجینئر یا ڈاکٹر بنانے پر نہیں، آئی آئی ٹی یا ایمس میں داخلہ دلانے پر ہوتا ہے۔ موٹی فیس لینے والے یہ انسٹی ٹیوٹ اشتہارات کے ذریعے کامیابی کے خواب فروخت اور معصوم اسٹوڈنٹس کے ذہن میں جھوٹی امید جگاتے ہیں۔ ناکام رہنے پر یہی امید ہلاکت خیز بن جاتی ہے۔ اسی وجہ سے 15تا29 سال کی عمر میں آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کی واردات ہندوستان میں ہوتی ہے۔یہ مکمل گورکھ دھندہ برسوں سے حکومت کے علم میں ہے، پھر بھی کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لئے نہ تو کوئی قانون بنایا گیا، نہ ہی کسی ریگولیٹری ادارے کا قیام عمل میںآیا۔ حال ہی میں تعلیم پر جاری نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کا ہر خاندان اپنی آمدنی کا 12 فیصد دولت بچوں کے ٹیوشن پر خرچ کر رہا ہے۔ ملک بھر میں 7.1 کروڑ طلبہ وطالبات اسکول کے بعد ٹیوشن لیتے ہیں۔ یہ تعداد طلبا کی کل تعداد کا 26 فیصد ہے۔
اس میں 4.1 کروڑ لڑکے اور تین کروڑ لڑکیاں ہیں۔2014 میں 66 ہزار خاندانوں سے جمع کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا یہ رپورٹ ملک کی تعلیمی نظام کاآئینہ دکھاتی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکول میں اچھے نمبر سے پاس ہونے یا انجینئر اور ڈاکٹر بننے کے لئے اسکول کالج جانے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن لینا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سب سے غریب 20 فیصد آبادی کے بالترتیب 17 اور 30 فیصد طالب علم پرائیویٹ کوچنگ لیتے ہیں جبکہ سب سے غریب 20 فیصد آبادی میں کوچنگ لینے والوں کا حصہ 25 (گاؤں) اور 38 (شہر) فیصد ہے۔ آج بچے کے پیدا ہوتے ہی ماں باپ اس کے کیریئر کا تانا بانا بننے لگتے ہیں۔ ایسوچیم کے طرف دس بڑے شہروں میں کرائے گئے سروے سے اس بات کو اور بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی، بنگلور، جے پور، حیدرآباد، احمد آباد، لکھنؤ اور چندی گڑھ میں پرائمری کلاس کے 87 فیصد اور سیکنڈری سطح کے 95 فیصد بچے ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اسکول جانے والے ہر بچے کے لئے ٹیوشن پڑھنا ضروری ہو گیا ہے، اگرچہ ماں باپ کو اس کے لئے قرض لینا پڑے۔ بہترین کام حاصل کرنے کے لئے اچھے انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ پانا پہلی شرط ہے جبکہ ان میں داخل ہونے کے لئے اچھے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ پر جانا، مہنگی ٹیوشن پڑھنا لازمی ہے۔
جو لوگ اتنا پیسہ نہیں چکا سکتے، وہ خود بہ خود اچھی نوکری کی دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں۔کہنے کو ٹیوشن یا کوچنگ کو منظم علاقے میں شمار نہیں کیا جاتا، لیکن آج یہ دھندہ دنیا کے سب سے تیزی سے پھل پھول رہے پہلے 16 کاروباروں میں شمار ہے۔ دنیا میں کوچنگ کا کاروبار کھربوں روپے کا ہے اور اس کی ترقی کی شرح 7فیصد ہے۔ ہندوستان ٹیوشن مارکیٹ کا سرغنہ ہے۔ فی الحال ہمارے ملک میں یہ دھندہ 30تا 35 فیصد سالانہ کی رفتار سے چھلانگ لگا رہا ہے۔ ہر سال اکیلے کوٹہ شہر میں 1.60 لاکھ لڑکے لڑکیاں آتے ہیں، جن سے کوچنگ اداروں کو 27 ارب روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اب کئی بڑے صنعتی گھرانے بھی کوچنگ کے کام میں اتر آئے ہیں۔ٹیوشن کا جاری رہنا ہماری تعلیمی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کہتے رہے ہیں کہ بنیادی تعلیم کے نصاب میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بنیادی کلاس کے بچوں پر پڑھائی کا بہت بوجھ ہے۔ تعلیم کے بوجھ کی وجہ سے پرائیویٹ ٹیوشن کا چلن بڑھ رہا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے گی تاکہ ملک کے مستقبل کی زندگی پرسکون رہے۔