کالی مرچ پاؤڈر اور ہم

میرا کالم سید امتیاز الدین
پچھلے ہفتے کی ہنگامہ خیز خبر یہ تھی کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے ایوان میں کالی مرچ کا ایسا چھڑکاؤ کیا کہ جمہوریت کے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ کئی لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ کھانسی کا دور دورہ ہوگیا ۔ خود اسپیکر اس کا شکار ہوگئیں اور پارلیمنٹ کی کارروائی روک دینی پڑی ۔ چار ممبرس دواخانے میں شریک ہوگئے ۔ خاص بات یہ ہے کہ جس معزز رکن نے یہ کارنامہ انجام دیا ، جولائی 2009 میں ایک پرائیوٹ بل کے محرک تھے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے والوں کی رکنیت برخاست کردی جائے ۔ ہماری ناقص معلومات میں یہ بھی اضافہ ہوا ہے کہ کالی مرچ کا یہ پاؤڈر خصوصی طور پر خواتین کے لئے بنایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی ناگہانی صورتحال میں بطور حفاظت خود اختیاری استعمال کرسکیں ۔

ویسے ہم نے ابھی تک کسی خاتون کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے کسی موقع پر ایسا اسپرے استعمال کیا ہو (خانگی طور پر اپنے شوہروں پر استعمال کیا ہو تو اور بات ہے) ۔ اسی طرح ایک رکن پر الزام ہے کہ انھوں نے خنجر نکال لیا تھا ۔ بہرحال تمام جماعتوں نے اس حرکت کی مذمت کی ۔ بعض نے تو یہاں تک کہا کہ یہ حرکت پارلیمنٹ پر حملے سے زیادہ مذموم ہے ۔ بعض اصحاب نے کہا کہ اس واقعے سے پارلیمنٹ کے وقار کو دھکا پہنچا ہے ۔ اب تو معاملہ مراعات کمیٹی کے سپرد ہے اور داخلے سے پہلے ارکان کی جامہ تلاشی کی تجویز زیر غور ہے ۔ ہم کو اس واقعے پر زیادہ تعجب نہیں ہوا ۔ ہماری ناچیز رائے میں پارلیمنٹ کا معیار اور اس کا وقار ان نمائندوں سے قائم ہوتاہے ، جنھیں عوام منتخب کرکے پارلیمنٹ کو روانہ کرتے ہیں ۔

آزادی کے بعد جب ہماری پارلیمنٹ پہلی بار قائم ہوئی تھی تو کئی اراکین ایسے تھے جو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں زندگی کے کئی قیمتی سال انگریزوں کی جیل میں گزار کر آئے تھے ۔ آج بھی ہم بعض اراکین کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بھی سزایافتہ ہیں یا ضمانت پر چھوٹے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ قدیم زمانے کے اصحاب اور عصر حاضر کے اصحاب کے جرائم کی نوعیت جداگانہ ہے ۔ اب اگر ہم قدیم لوگوں کے پیمانے سے جدید اصحاب کو ناپنا چاہیں تو یہ ہماری ناسمجھی اورکم عقلی ہوگی ۔ ہم تو کالی مرچ کا چھڑکاؤ کرنے والے رکن کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے لال مرچ کا چھڑکاؤ نہیں کیا ۔ کالی مرچ کے فوائد سے کون واقف نہیں ۔ کیا پتہ آیندہ ہمارے بعض ارکان جلدی میں گھر سے ناشتہ کئے بغیر صرف انڈا اور روٹی لے کر آجائیں اور کسی ساتھی رکن سے کالی مرچ لے کر انڈے پر چھڑک دیں ۔ ہوسکتا ہے کہ کالی مرچ کا پاؤڈر تیار کرنے والی کمپنیاں ایسے اشتہار دیا کریں ’’ہماری کالی مرچ نہ صرف کھانے کا ذائقہ بڑھاتی ہے بلکہ پارلیمنٹ میں بھی استعمال ہوتی ہے‘‘ ۔ رہی خنجر نکال لینے کی بات تو جس رکن پر خنجر نکال لینے کا الزام ہے انھوں نے وضاحت کی ہے کہ جس چیز کو خنجر سمجھا گیا وہ دراصل ایوان کا ایک مایک تھا جسے انھوں نے توڑ دیا تھا ۔ گویا مایک توڑنا غیر اخلاقی حرکت نہیں ۔ بہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ خنجر اور چھرے بنانے والے کارخانوں سے کہیں کہ مایکرو فون نما ہتھیار نہ بنائیں اور اسی طرح مایک بنانے والی کمپنیاں خنجر نما مایک نہ بنائیں ۔ غیر ضروری غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ۔

زمانہ بدل گیا ہے ۔ پہلے چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بن جاتا تھا ۔ ایک برطانوی وزیراعظم کا قصہ مشہور ہے کہ ایک بار انھوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں کہہ دیا کہ اس ایوان کے آدھے ارکان بے وقوف ہیں ۔ اس پر زبردست احتجاج ہوا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں ۔ اگلے دن انھوں نے معذرت خواہی کے طور پر کہا کہ اس ایوان کے آدھے ارکان بے وقوف نہیں ہیں ۔

آج ہماری پارلیمنٹ کے اراکین کو جو مراعات یومیہ بھتّے اور تنخواہوں وغیرہ کے طور پر حاصل ہیں ان کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔ اردو کے مشہور شاعر تھے مولانا حسرت موہانی ۔ حسرت فقیر منش آدمی تھے ۔ وہ اس وقت کے بی اے تھے جب کہ اس ڈگری سے آدمی بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہوسکتا تھا ۔ لیکن مولانا حسرت نے جنگ آزادی کا سپاہی بننا پسند کیا ۔ وہ اپنے گھر کا پانی خود بھرتے تھے ۔ سودا سلف خود لاتے تھے۔ گیہوں پسوانا بھی انہی کا کام تھا۔ ان کا ایک شعر ہے

قید میں کٹ گیا ماہ رمضان بھی حسرتؔ
گو کہ سامان تھا سحری کا نہ افطاری کا

پارلیمنٹ کے قیام سے پہلے جب قانون ساز اسمبلی بنی تھی تو مولانا حسرت اس کے رکن تھے ۔ قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے یومیہ الاونس کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگے ’بھئی مجھے تو چار آنے یومیہ کافی ہیں ۔ ایک مسجد میں رہتا ہوں ۔ چار آنے کے چنے پھانک کر پانی پی لیتا ہوں۔ یہی میری غذا ہے اور یہی میرا خرچ‘ ۔ گلزاری لال نندا دوبارہ مختصر وقفے کے لئے ملک کے وزیراعظم بنے تھے ۔ آخر عمر میں ایک خستہ مکان میں رہتے تھے اور اپنے کپڑے خود دھوتے تھے ۔ مہاویر تیاگی ایک زمانے میں کابینی وزیر تھے ۔ پارلیمنٹ میں جب ان کی دوسری میقات کا وقت آیا تو الیکشن کے لئے انھوں نے اپنا پرچۂ نامزدگی داخل نہیں کیا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے پاس ڈپازٹ کی رقم بھی نہیں تھی ۔ رفیع احمد قدوائی ، نہرو کابینہ کے قابل ترین وزیر تھے ۔ غذائی مسئلہ کو حل کرنے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ انھوں نے راشننگ برخاست کردی تھی ۔ محکمۂ ڈاک کی کارکردگی جیسی ان کے زمانے میں۶

تھی ویسی آج بھی نہیں ہے ۔ وزارت کے زمانے میں ایک دن ان کے قلب پر حملہ ہوا اور وہ چل بسے ۔ انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مقروض بھی تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے کون واقف نہیں ۔ سنا ہے کہ ان کے پاس کل چار شیروانیاں تھیں جن میں سے ایک تھوڑی سی رفوشدہ بھی تھی ۔ پنڈت نہرو کا تعلق نہایت امیر خاندان سے تھا لیکن انھوں نے اپنی لاکھوں کی جائیداد قوم کے نام وقف کردی تھی ۔ ایک بار وہ کسی کو اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں معاوضہ دے رہے تھے ۔ چیک پر دستخط کرنے سے پہلے انھوں نے اپنے سکریٹری سے پوچھا ’ذرا میری پاس بک میں دیکھو کہ کتنی رقم پڑی ہے‘ ۔ ہمارے ماضی کی یہ باتیں دفتر پارینہ بن گئی ہیں ۔

ہمیں ایک بات اور یاد آگئی ۔ 1955 ء کے آس پاس پردۂ سیمیں کی ایک مشہور اداکارہ کا نام راجیہ سبھا کی رکنیت کے لئے پیش ہوا تھا ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن راجیہ سبھا کے چیرمین تھے ۔ انھوں نے شبہ ظاہر کیا کہ کہیں ایک خوبصورت خاتون کی آمد سے ارکان کی توجہ قومی مسائل سے نہ ہٹ جائے ۔ اسی طرح جب دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی شادی ہوئی تو آل انڈیا ریڈیو سے خبر نشر ہوئی ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فلاں فلاں مشہور اداکاروں نے بارات کے ساتھ رقص کیا ۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے دوسرے دن سوال اٹھایا کہ ایک فلم ایکٹر کی شادی کی تشہیر کی گئی ۔ اتفاق سے یہ رکن بوڑھے تھے اور غیر شادی شدہ بھی ۔ وزیر اطلاعات نے جواب دیا کہ دلیپ کمار اور سائرہ بابو نہایت مقبول اداکار ہیں اور ان کی شخصی زندگی سے بھی عوام کو دلچسپی ہے ۔

اس لئے یہ خبر ریڈیو پر نشر کی گئی ۔ اگر آنریبل ممبر بھی شادی کا ارادہ فرمائیں تو آل انڈیا ریڈیو کو یہ خوش خبری سناتے ہوئے مسرت ہوگی ۔ ایوان میں قہقہہ پڑا اور بات آئی گئی ہوگئی ۔ اب تو لیڈروں کی بھینسیں گم ہوجائیں تو یہ ایک بڑی خبر بن جاتی ہے اور دن بھر اس کا چرچا رہتا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک کمیونسٹ رکن راجیہ سبھا جن کا نام شاید ہیرن مکھرجی تھا اپنی تقریر میں حکومت کی بعض پالیسیوں پر شدید تنقید کررہے تھے ۔ان کی انگریزی نہایت عمدہ تھی اور تقریر بھی متاثرکن تھی ۔ تمام ممبرس انہماک سے سن رہے تھے ۔ حالانکہ تقریر میں حکومت پر تنقید تھی لیکن کسی نے مداخلت نہیں کی ۔ جب تقریر ختم ہوگئی تو ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اسے سراہا اور کہا what a speech۔ ہیرن مکھرجی ادب سے خمیدہ ہوگئے اور ڈاکٹر رادھا کرشنن سے کہا ’یہ فن خطابت آپ ہی سے سیکھا ہے‘ ۔ یہی حال آزادی تحریر و تقریر کا بھی تھا ۔ مشہور کارٹونسٹ شنکر نے ایک بار پنڈت نہرو کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک کارٹون بنایا ۔ پارلیمنٹ میں اس پر بہت لے دے ہوئی ۔ اتفاق سے اس کے دو ایک دن بعد کسی جلسے میں نہرو کی تقریر تھی سامعین میں کارٹونسٹ شنکر بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب پنڈت جی تقریر ختم کرکے جانے لگے تو وہ تیزی سے شنکر کی طرف بڑھے ۔ ان سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگے Don’t spare me shanker (مجھے بھی مت بخشا کرو) ۔

ہم اس کالم کے ذریعے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ تحمل ، رواداری اور ایمانداری کی روایات ختم ہورہی ہیں ۔ زمانہ بدل رہا ہے ۔ اقدار بدل رہے ہیں ۔ جو کچھ دکھارہا ہے جہاں دیکھتے رہو ۔