بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
کالادھن‘ کھودا پہاڑ نکلاچوہا
مرکزی حکومت کی جانب سے کالے دھن کے انکشاف کیلئے جو مہلت دی گئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے ۔ حکومت نے کالا دھن رکھنے والوںاور بیرونی ممالک میںاثاثہ جات چھپانے والوں کیلئے ان کا اعلان کردینے کیلئے 30 ستمبر تک کی مہلت دی تھی جو ختم ہوگئی ہے ۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس مہلت کے خاتمہ تک جملہ 3,770 کروڑ روپئے کے غیر محسوب اثاثہ جات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ حکومت کے بموجب جملہ 364 اعلانات کئے گئے ہیںجن میںاس دولت کا انکشاف کیا گیاہے۔ حکومت نے30ستمبر تک کالے دھن کا انکشاف کرنے والوں کیلئے معافی کا اعلان کیا تھا اور انہیں 30 فیصدٹیکس اور 30فیصد جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مہلت کے اختتام تک جتنے بھی اعلانات کئے گئے ہیں حکومت ان کو قبول کرتی ہے اور اب مزید کوئی مہلت نہیںدی جائیگی ۔ اب تک دی گئی مہلت کے باوجود جس کسی نے اپنے غیر محسوب اثاثہ جات ‘ کالے دھن اور بیرونی ممالک میںچھپائے گئے اثاثہ جات کااعلان نہیںکیاہے ان کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اگر کسی کے تعلق سے یہ اطلاع مل جائے کہ اس نے کالے دھن کو پوشیدہ رکھا ہے اور اس کا انکشاف نہیں کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ تاہم اب حکومت نے جن اعداد و شمار کا اعلان کیا ہے وہ انتہائی غیراہم اور غیر معتبر بھی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ اعداد و شمار سابق میں وزیراعظم نریندر مودی کے معلنہ اعداد و شمار سے بالکل مختلف ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھاکہ اس وقت تک جملہ 6,500کروڑ روپئے کی غیر محسوب دولت کاانکشاف کردیا گیاہے۔اس اعلان کے دیڑھ ماہ بعد خودمرکزی حکومت جو اعداد شمار جاری کرتی ہے وہ وزیراعظم کے معلنہ اعداد و شمار سے نصف ہی ہیں۔ وزیر اعظم کے معلنہ اور حکومت کے محکمہ فینانس کی جانب سے جاری اعداد وشمار میں تضاد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیںکوئی نہ کوئی غلطی ہوئی ہے ۔ اب یہ غلطی عمدا ہے یا سہوا ہوئی ہے یہ کہا نہیںجاسکتا ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی طئے ہے کہ جو اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں وہ بالکل صفر کے برابر ہیں۔ یہ قیاس کیا جا رہاتھاکہ لاکھوں کروڑ روپئے بیرونی ممالک میںچھپائے گئے ہیں جنہیں واپس لانے کا نریندر مودی نے ملک کے عوام سے وعدہ کیا تھا ۔ انہوں نے یہ ادعا کیا تھا وہ اقتدار ملنے کے محض 100دن میںکالا دھن وطن واپس لائیں گے اور ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروائیںگے ۔ خود نریندر مودی نے یہ ادعا کیا تھا کہ جملہ 80 لاکھ کروڑ روپئے کی خطیر رقوم بیرونی ممالک میںچھپائی گئی ہے ۔ انہوںنے اقتدار ملنے کے تین ماہ میں یہ رقم وطن واپس لانے کاادعا کیا تھالیکن انہیںاقتدار ملنے کے پندرہ مہینوں کے بعد بھی یہ رقومات جہاںتھیںوہیںہیں اور الٹا حکومت کی جانب سے کالادھن رکھنے والوں کو معافی کا اعلان کیا گیا اور صرف 3,770 کروڑ روپئے کی دولت کا ہی انکشاف ہونے کاادعا کیا جا رہاہے۔یہ رقم انتہائی معمولی ہے اور اتنی رقومات کو ہندوستان میں ہی کہیںنہ کہیںکسی نہ کسی شعبہ میںمشغول کرتے ہوئے پوشیدہ رکھا جاسکتا تھا۔ بے نامی جائیدادوں اور اکاؤنٹس میں بھی یہ رقم رکھی جاسکتی تھی۔اتنی معمولی رقم کو بیرونی ممالک کے بینک اکاؤنٹس میںرکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاسکتی ۔ اتنی رقم بھی 364 افرادیااداروںکی جانب سے ظاہر کی گئی ہے ۔ اتنے افراد اور اداروں میں یہ رقم کو بانٹ دیا جائے تو اعداد و شمار انتہائی معمولی کہے جاسکتے ہیں۔ یہ در اصل عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کی کوشش ہوسکتی ہے ۔ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت نے کالا دھن رکھنے والوںکے خلاف کارروائی کی ہے اور یہ رقومات ملک کو منتقل کی جا رہی ہیں۔ جو اعداد و شمار ظاہر کئے گئے ہیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت اگر حقیقی معنوںمیں کالا دھن رکھنے والوں کو نشانہ بناتی اور سنجیدگی سے یہ رقم واپس لانے کی کوشش کی جاتی تو ملک کو لاکھوں کروڑ روپئے واپس لائے جاسکتے تھے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریند رمودی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد کالا دھن واپس لانے کی بجائے کالا دھن رکھنے والوں کو بچانے کی فکر لاحق ہوگئی تھی ۔شائد ان ہی افراد اور اداروں کی جانب سے بی جے پی کو انتخابات میں بے دریغ خرچنے کیلئے بھاری رقومات فراہم کی گئی تھیںاور انہیں کے بل بوتے پر پارٹی کواقتدار حاصل ہوا ۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد پارٹی کو انہیںکارپوریٹ اداروں کے مفادات کی فکر لاحق ہوگئی اور جو وعدے عوام سے کئے گئے تھے انہیں جو سبز باغ دکھائے گئے تھے انہیںیکسر فراموش کردیا گیا ۔ اب تو حکومت اپنے اقدامات سے عوام کو گمراہ کرنے اور انہیںفریب بھی دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بحیثیت مجموعی جو رقومات ظاہر کی گئی ہیں وہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہی ہیں۔