محمد نعیم وجاہت
علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد دس ماہ کے دوران عوام نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ 20 سال میں پہلی مرتبہ تمام مطالبات زر پر مباحث ہوئے، اسمبلی کے احترام میں اضافہ ہوا اور تلگودیشم کے تمام ارکان اسمبلی کو بجٹ سیشن کی تکمیل تک معطل کیا گیا۔ تلنگانہ قانون ساز کونسل سے تلگودیشم کا وجود ختم ہو گیا اور پہلی مرتبہ بی جے پی کو داخلہ ملا۔ پہلی مرتبہ ڈپٹی چیف منسٹر اور قائد اپوزیشن کونسل کے عہدے مسلم قائدین کو دیئے گئے۔
2 اپریل کو علحدہ تلنگانہ ریاست میں ٹی آر ایس حکومت کے دس ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ ان دس مہینوں کے دوران توقع کے مطابق ترقیاتی اور فلاحی کام انجام نہیں دیئے گئے، جس کی بڑی وجہ اعلی عہدہ داروں کی تقسیم میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ مجموعی طورپر حکومت کی کار کردگی کو اطمینان بخش قرار دیا جاسکتا ہے۔ پہلے سال کا منظورہ بجٹ مکمل استعمال نہیں ہوا۔ ریاستی حکومت نے مرکز سے توقع کے مطابق فنڈس اور ٹیکس نہ حاصل ہونے کے علاوہ اراضیات کی عدم فروختگی کا عذر پیش کرتے ہوئے فلاحی بجٹ مکمل خرچ نہ ہونے کا ادعا کیا۔ سال برائے 2015-16ء کے لئے ایک لاکھ 15 ہزار کروڑ کا مجموعی بجٹ منظور کیا گیا، جس میں اقلیتوں کے لئے 1105 کروڑ کی گنجائش فراہم کی گئی، جب کہ گزشتہ سال کے اقلیتی بجٹ کا صرف 65 فیصد خرچ کیا گیا۔ اب ٹی آر ایس حکومت نے اپنا مکمل بجٹ پیش کیا ہے۔
اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے گورنر نرسمہن کے خطاب کے دوران تلگودیشم اور کانگریس کے ارکان نے احتجاج کیا، یہاں تک کہ قومی ترانہ کا بھی احترام نہیں کیا گیا۔ قومی ترانہ کا احترام نہ کرنے پر کانگریس کے ایک رکن نے معذرت خواہی کی، جس کو معاف کردیا گیا، مگر معذرت خواہی سے انکار پر تلگودیشم کے تمام ارکان کو بجٹ سیشن کے اختتام تک معطل کردیا گیا۔ ماضی میں بھی اس طرح کے فیصلے ہوئے ہیں اور تمام جماعتوں کی توجہ دہانی پر اسپیکر نے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی، لیکن اس بار بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتوں کی اپیل کے باوجود اسپیکر نے غور نہیں کیا۔
اس مرتبہ بجٹ سیشن کے ایام ماضی کی بہ نسبت کم تھے، اس کے باوجود گزشتہ 20 سال میں اتنے اچھے مباحث نہیں ہوئے، لیکن وقفۂ سوالات کی تکمیل نہیں ہوسکی۔ اس مرتبہ اسمبلی میں غیر پارلیمانی ریمارکس کا سخت نوٹ لیا گیا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے فرزند ریاستی وزیر پنچایت راج و آئی ٹی کے ٹی آر کو کانگریس رکن اسمبلی مسز ڈی کے ارونا سے معذرت خواہی کا مشورہ دیا، جس کے جواب میں قائد اپوزیشن کے جانا ریڈی نے ڈی کے ارونا اور دیگر ارکان سے معذرت خواہی کروائی۔ اپوزیشن جماعتوں کے مشوروں اور تجاویز پر حکمراں جماعت نے جوابی حملہ کی بجائے زیادہ تر مثبت ردعمل ظاہر کیا، جس سے ٹکراؤ کی صورت بہت کم دیکھنے کو ملی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس رویہ سے ایوان کے احترام میں اضافہ ہوا ہے۔کانگریس ارکان اسمبلی قائد اپوزیشن کے جانا ریڈی پر حکومت کے ساتھ نرم رویہ اپنانے کا الزام عائد کرتے رہے، اس کے باوجود قائد اپوزیشن نے تعمیری رول کا ثبوت دیا۔ حکمراں جماعت بالخصوص چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ان کی کار کردگی کی ستائش کی اور اپنے وزراء کو اپوزیشن سے الجھنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔
تلنگانہ قانون ساز کونسل سے تلگودیشم کا صفایا ہو گیا۔ قبل ازیں اس کے سات ارکان تھے، جن میں سے پانچ ارکان نے حکمراں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ صدر نشین کونسل سوامی گوڑ نے حالیہ سیشن کے دوران ایک بلیٹن جاری کرتے ہوئے ان پانچ ارکان کو ٹی آر ایس کا رکن قرار دیا، جب کہ ماباقی دو ارکان کی میعاد 29 مارچ کو مکمل ہوچکی ہے، اس طرح کونسل میں فی الحال تلگودیشم کا وجود ختم ہو گیا۔ ایم ایل اے کوٹہ کے ایم ایل سی انتخابات میں اگر بی جے پی تلگودیشم کی تائید کرتی ہے تو تلگودیشم کا ایک رکن کامیاب ہوسکتا ہے، تاہم اس کوٹہ کا انتخاب مرکزی حکومت کے پاس زیر التواء ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گریجویٹ کوٹہ حیدرآباد، رنگا ریڈی اور محبوب نگر حلقہ سے کامیاب ہونے والے رام چندر راؤ پہلی مرتبہ کونسل میں بی جے پی کی نمائندگی کریں گے۔
ٹی آر ایس کی دس ماہ کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو حکمراں جماعت اور اصل اپوزیشن کانگریس نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا دل جیتنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے وعدہ کے مطابق ٹی آر ایس کے رکن قانون ساز کونسل محمود علی کو ڈپٹی چیف منسٹر اور ریاستی وزیر مال کی ذمہ داری سونپی۔ کانگریس نے بھی کونسل میں محمد علی شبیر کو قائد اپوزیشن نامزد کیا ہے۔ 2009ء اور 2014ء کے عام انتخابات میں حلقہ اسمبلی کاماریڈی اور یلاریڈی کے ضمنی انتخاب میں شکست سے دوچار ہونے کے باوجود محمد علی شبیر نے بحیثیت رکن کونسل اور نائب صدر پردیش کانگریس حکومت کی کمزوریوں، غفلت اور کوتاہیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں اہم رول ادا کیا، جس کی وجہ سے کانگریس ہائی کمان نے انھیں کونسل میں قائد اپوزیشن نامزد کیا۔
دس ماہ کے دوران حلقہ لوک سبھا میدک کے ضمنی انتخاب میں حکمراں ٹی آر ایس نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ گرام پنچایت، منڈل پریشد اور ضلع پریشد کے انتخابات میں بھی نمایاں کامیابی درج کرائی، جس کی وجہ سے کانگریس اور تلگودیشم کے کئی ارکان اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی، تاہم حیدرآباد، رنگاریڈی اور محبوب نگر کے گریجویٹ کوٹہ ایم ایل سی انتخاب ٹی آر ایس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوا۔ تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے ٹی این جی کے صدر دیوی پرساد کو ٹی آر ایس نے اپنا امیدوار بنایا تھا اور تینوں اضلاع سے تعلق رکھنے والے وزراء، ارکان اسمبلی و قانون ساز کونسل کو انتخابی مہم کی ذمہ داری سونپی تھی اور ریاستی وزیر آبپاشی ہریش راؤ کو انچارج بنایا تھا، اس کے باوجود انھیں شکست ہوئی۔ بی جے پی امیدوار کو تلگودیشم کی تائید حاصل تھی۔ علاوہ ازیں حیدرآباد اور رنگاریڈی میں آندھرا اور رائلسیما سے تعلق رکھنے والے عوام کی کثیر تعداد آباد ہے، جن کی تائید حاصل کرنے ٹی آر ایس نے بہت کوشش کی، یہاں تک کہ چیف منسٹر نے ان لوگوں کو تلنگانہ کا حصہ قرار دیا اور اگر ان کے پیر میں کانٹا چبھ جائے تو اپنی پلکوں سے نکالنے کا وعدہ کیا، مگر آندھرا اور رائلسیما کے سٹلرس نے ٹی آر ایس پر بھروسہ نہیں کیا
اور بی جے پی کو کامیاب بناکر ریاست کی تقسیم کا کے چندر شیکھر راؤ سے انتقام لیا۔ اس نتیجہ نے گریٹر حیدآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں ٹی آر ایس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ واضح رہے کہ 2014ء کے عام انتخابات میں گریٹر حیدرآباد کے حلقہ جات میں ٹی آر ایس کا صرف ایک رکن اسمبلی منتخب ہوا، لہذا یہاں کا نازک موقف دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت میونسپل انتخابات جلد کرانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرکے دسمبر تک وقت مانگا گیا ہے۔ سٹلرس کی ناراضگی کو دیکھ کر حکومت نے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی ہے۔ پہلے 150 ڈیویژنس پر مشتمل گریٹر حیدرآباد بلدیہ کے ڈیویژنس کی تعداد 175 تک بڑھانے کی تجویز تیار کی گئی تھی، لیکن اب اس میں 25 ڈیویژنس کا اضافہ کرتے ہوئے 200 ڈیویژنس کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور ہائی کورٹ میں اس فیصلہ کو تاخیر کا سبب بتایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہائی کورٹ کا کیا فیصلہ آتا ہے؟۔
ورنگل اور کھمم میں بھی میونسپل انتخابات ہونے والے ہیں، ورنگل میں شاید ٹی آر ایس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ بنے، مگر کھمم کے میونسپل انتخابات حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں، کیونکہ وہاں تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس اور کانگریس پارٹی کا اچھا اثر ہے۔ وائی ایس آر کانگریس کے تین کے منجملہ دو ارکان اسمبلی، تلگودیشم کے رکن قانون ساز کونسل اور ضلع پریشد کے صدر نشین ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں، جب کہ تلگودیشم کے سینئر قائد ٹی ناگیشور راؤ اور تلگودیشم کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے ٹی سرینواس یادو کو کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے۔ سرینواس یادو نے استعفی پیش کیا ہے، مگر اسپیکر اسمبلی نے اب تک منظور نہیں کیا۔ بدعنوانی کے الزام میں ڈاکٹر راجیا کی کابینہ سے برطرفی کے بعد حلقہ لوک سبھا ورنگل کے ٹی آر ایس رکن پارلیمنٹ کڈیم سری ہری کو ریاستی کابینہ میں شامل کرکے ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا۔ کڈیم سری ہری نے اب تک استعفی نہیں دیا، اگر دونوں وزراء مستعفی ہوتے ہیں تو ایک اسمبلی اور ایک لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخابات ہوسکتے ہیں۔