کابینہ کے بغیر سرکاری کام کاج

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی کابینہ تشکیل دینے میں تاخیر اور علی الحساب بجٹ کی تیاری کے درمیان چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے ناقدین شور مچا رہے ہیں کہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات ہوئے تقریبا دو ماہ ہونے جارہے ہیں ۔ لیکن ابھی تک کابینہ تشکیل نہیں دی گئی ۔ وزراء کے بغیر سرکاری کام کاج ٹھپ ہے ۔ چیف منسٹر ہیں کہ اپنے سیاسی فارم ہاوز یا صنم خانے کے چکر لگاکر یگنہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ یہ یگنے ہوگئے ہیں تو اب کام کی امید کی جارہی ہے کہ چیف منسٹر کم از کم اپنی جادوگری کی حکومت کے کرامات کا مظاہرہ کرنے کے بجائے حقیقی سرکاری کام شروع کریں ۔ تلنگانہ کے رائے دہندوں کو اپنے ووٹوں کا بدل ملنے کا انتظار ہے ۔ پنچایت انتخابات میں بھی شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹی آر ایس کو واقعی غرور آگیا ہے ۔ وہ اپنی یگنہ یا جادوگری کی دنیا میں مصروف ہیں جو جادو انہوں نے اسمبلی انتخابات میں کر دکھایا ۔ اسے لوک سبھا انتخابات میں بھی دہرانا چاہتے ہیں ۔ 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں 88 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی ٹی آر ایس کو لوک سبھا کی 17 نشستوں میں سے 16 پر کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش میں کے سی آر نے عوام کے لیے راحتوں کے سلسلہ وار وعدے کیے ہیں ۔ 57 لاکھ کسانوں کو مالی امداد بہت بڑی پرکشش اسکیم ہے ۔ سینئیر سٹیزنس کے لیے وظیفہ کو دوگنا کرنے ، ضعیفی کے وظیفہ کے لیے عمر کی حد کو 60 سے گھٹاکر 57 کردینے کا وعدہ اور دوسری فصل کے لیے بھی قرض معاف کرنے کا وعدہ ، ڈبل بیڈ روم کے مکانات کی تعمیر اور مسلمانوں کو کوٹہ دینے کی کوشش کا اعلان ، اس کے علاوہ جاریہ درجنوں ترقیاتی اسکیمات کے حوالے سے لوک سبھا چناؤ لڑے جائیں گے ۔ ٹی آر ایس کو پورا یقین ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں بھی بھاری اکثریت حاصل کرے گی لیکن سب سے زیادہ فکر اپوزیشن کو ہے اسے اسمبلی انتخابات میں لگے زخموں کو مندمل ہونے کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑا ۔ پھر سے لوک سبھا انتخابات میں کے سی آر کی کامیابی کی لہر کو روکنے میں سرگرم ہوگئی ہے ۔ بی جے پی نے کافی شور مچانے کے باوجود ایک ہی نشست حاصل کی اور 104 اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی ہے ۔

بی جے پی کے پاس کوئی ریاستی لیڈر نہیں ہے اس لیے 17 لوک سبھا کے منجملہ 10 پر بھی اپنے امیدوار کھڑا کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ کے سی آر کا جادو اس قدر کام کررہا ہے کہ اپوزیشن بھی ان کے سحر سے متاثر ہے ۔ اس لیے وہ کے سی آر کی حکومت کی خرابیوں کی بھی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے ۔ اپوزیشن قائدین عوامی مسائل کا اندازہ کرنے میں بھی ناکام ہیں ۔ ریاست میں مسائل بہت ہیں جیسے کسانوں کی خود کشی ، طلباء کی خود کشی ، بیروزگاری ، فاقہ کشی ، سڑک حادثوں میں اضافہ ، صحت عامہ کی نگہداشت میں ناقص انتظامات ، سرکاری دواخانوں میں طبی سہولتوں کا فقدان ، پانی کے بغیر زندگی گذارنے والے تلنگانہ کے باشندے ، مالیاتی دھوکہ دہی کے واقعات میں اضافہ ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں جرائم کی خبروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ، جنگلات میں بڑے پیمانہ پر اسمگلنگ اور شکار کے واقعات کو بھی اٹھانے سے اپوزیشن قائدین قاصر ہیں ۔ ریاست میں ایک کمزور اپوزیشن کا حکمراں پارٹی کو زبردست فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔ اس لیے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کرتے ہوئے یہ ظاہر کردیا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتی ہے اپنی ریاست پر توجہ دینے سے زیادہ کے سی آر ایک طرف مرکز کی جانب چھلانگ لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں تو دوسری طرف آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی سیاسی ساکھ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں تلنگانہ میں تلگو دیشم کے لیے مہم چلائی تھی اور تلنگانہ کے اندر اپنے قدم جمانے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے جواب میں کے سی آر آندھرا کا رخ کرنے والے ہیں ۔ کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو کو سیاسی جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس لیے کھلے طور پر وہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی صدر وائی ایس جگن موہن ریڈی کو گلے لگا رہے ہیں اور عین امکان ہے کہ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا چناؤ ووٹوں کے لیے جگن کے حق میں مہم چلائیں گے تاکہ چندرا بابو نائیڈو کو شکست دی جاسکے ۔ نائیڈو کو شکست دینے کی تیاری کرنے والے چیف منسٹر تلنگانہ کو اپنی ریاست کے سالانہ بجٹ کی بھی فکر نہیں ہے ۔ فروری کا ماہ شروع ہوا ہے اور ریاستی فینانس ڈپارٹمنٹ نے اس حکومت کا چھٹا بجٹ بھی تیار کرلیا ہے ۔ محکمہ فینانس نے اس مسودہ بجٹ کو پہلے ہی چیف منسٹر کے سامنے پیش کردیا مگر کے سی آر کو یگنہ پوجا پاٹ جادوگری کے گُر سیکھنے سے ہی فرصت نہیں ہے کہ وہ بجٹ کا جائزہ لے سکیں ۔ ابھی یہ بھی طئے نہیں ہوا کہ اس ماہ مکمل بجٹ پیش کیا جائے یا علی الحساب بجٹ پیش کر کے ہی ٹال دیا جائے ۔ محکمہ فینانس نے کے سی آر کے مزاج کے مطابق علی الحساب اور مکمل دونوں بجٹ تیار کرلیئے ہیں ۔ اب چیف منسٹر کے موڈ پر ہے کہ وہ کونسا بجٹ پیش کرنا چاہیں گے ۔ مرکزی حکومت بھی اپنا علی الحساب بجٹ پیش کرنے والی ہے ۔ تلنگانہ ریاست کے حق میں مرکزی بجٹ میں کتنے فنڈس مختص کئے جاتے ہیں سے دیکھنے کے بعد ہی چیف منسٹر اپنی حکومت کے بجٹ کو قطعیت دیں گے ۔ مرکزی بجٹ اس ماہ فروری کے پہلے ہفتہ میں پیش ہوگا تو تلنگانہ کا بجٹ فروری کے دوسرے یا تیسرے ہفتہ میں پیش کیا جائیگا ۔ محکمہ فینانس نے اپنی بجٹ تیاری میں یہ خوشخبری دی ہے کہ ریاست کو نومبر کے ختم تک ہی ریاستی ٹیکس وصولی میں 29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس آمدنی نے حکام کو حوصلہ بخشا ہے اس لیے انہوں نے مالیاتی سال 2020-2019 کے لیے 2 لاکھ کروڑ روپئے کا تخمینی بجٹ کی تجویز رکھی ہے ۔ اس بجٹ میں بھی ٹی آر ایس حکومت کی پالیسیوں کو ترجیح دی گئی ہے خاص کر آبپاشی پراجکٹ ، آبی وسائل اور بہبودی اسکیمات کے علاوہ شہر حیدرآباد میں انفراسٹرکچر کو فروغ دیا جائے گا ۔ ٹی آر ایس کی پہلے دور کی حکومت میں آبپاشی ، کسان اور دیہی ترقی ، مشن بھگیرتا جیسے پروگراموں کو انجام دیا گیا تھا ۔ دوسرے مرحلہ کی حکومت میں کے سی آر اور ان کے فرزند کے ٹی آر نے شہر حیدرآباد میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سے شہر حیدرآباد کی ترقی میں تیزی آئے گی ۔ ہمارے قابل چیف منسٹر اور ان کی سرکاری ٹیم نے اب تک کوئی خاص تیر نہیں مارا ہے ۔ کابینی وزراء کے بغیر کوئی حکومت کیا تیر مار سکتی ہے ۔ عوام کو بھی اس حکومت کے ’ فالٹ اور ڈیفالٹ ‘ نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ تلنگانہ عوام کا مزاج ’ خوش فہم ‘ ہے اس لیے وہ ان کی خوش فہمی کو محسوس کرتے ہوئے ہی چیف منسٹر نے اپنے سیاسی جادو چلانا شروع کئے ہیں وہ نہ تو گھبراتے ہیں اور نہ شرماتے ہیں ۔ ان کی کامیابی کی رفتار کے سامنے سیاسی علم الجفر سے عاری اپوزیشن کچھ نہیں کرپائے گی ۔۔
kbaig92@gmail.com